• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

محمّد احمد غزالی

نام مسعود، لقب فرید الدّین، جب کہ عوام میں’’ گنج شکر‘‘ کے طور پر معروف ہیں۔خلیفۂ دوم، حضرت عُمر فاروق رضی اللہ عنہ کی اولاد سے ہیں،گویا نسباً فاروقی ہیں۔ خاندان افغانستان میں رہائش پذیر تھا،مگر جب وہاں بدامنی پھیلی، تو آپؒ کے دادا، قاضی شعیب سکون کی تلاش میں پہلے لاہور اور پھر قصور آگئے۔

وہاں کے علمی حلقوں کے ذریعے بادشاہ کو اُن کے مقام و مرتبے کا علم ہوا، تو گزر اوقات کے لیے جاگیر پیش کی، جو اُنھوں نے قبول نہیں کی، تاہم قاضی کا منصب سنبھالنے کے لیے کھتوال منتقل ہوگئے( بوریوالہ کے قریب واقع اِس گاؤں کو اب’’ چاولی مشایخ‘‘ کہتے ہیں)، وہیں اُن کے صاحب زادے، قاضی جلال الدّین کے ہاں 569 یا 571 ہجری میں حضرت فرید الدّین مسعودؒ کی ولادت ہوئی۔

بے مثال والدہ

ابھی پانچ برس کے تھے کہ والد کا سایہ سر سے اُٹھ گیا،جب کہ گھر میں غربت کے ڈیرے تھے۔ اِن نامساعد حالات میں والدہ، قرسم بی بیؒ نے تینوں بیٹوں کی تعلیم و تربیت کا بیڑا اُٹھایا۔ وہ شیخ وجیہ الدّین خجندی کی صاحب زادی اور بہت عبادت گزار خاتون تھیں۔ بابا صاحبؒ کی شخصیت کی تعمیر میں سب سے اہم کردار اُنہی کا ہے۔ بیٹے کو نوعُمری ہی سے اعلیٰ اخلاق سے آراستہ کیا اور دینی فرائض کی پابندی کی عادت ڈالی۔ اپنے یتیم جگر گوشے کو نماز کا عادی بنانے کے لیے یہ طریقہ اختیار کیا کہ جب وہ نماز پڑھتے، تو مصلّے کے نیچے چُپکے سے شکر کی پُڑی رکھ دیتیں۔

بچّہ سلام پھیر کر مصلّے کا کونا اُلٹتا، تو شکر پا کر خوشی سے نہال ہو جاتا اور ماں بھی بچّے کو یوں ہنستا مُسکراتا دیکھ کر سارے دُکھ بھول جاتی۔ بیٹے کو سینے سے لگا کر کہتیں’’ دیکھا، مَیں نے کہا تھا ناں کہ جو بچّہ نماز پڑھتا ہے، اُسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے شیرینی ملتی ہے۔‘‘مگر ایک روز ایسا ہوا کہ بیٹے نے نماز کی نیّت باندھ لی اور ماں گھر کے کام کاج میں مصروف ہونے کے سبب شکر رکھنا بھول گئی۔ 

جب اُنھیں یاد آیا، تو دیکھا، بیٹا نماز مکمل کرکے مصلیٰ لپیٹ چُکا تھا۔ ماں کے چہرے سے پریشانی عیاں تھی۔ یہ خیال پریشان کیے جا رہا تھا کہ بیٹے نے شکر نہ پا کر جانے کیا کیا سوچا ہوگا۔ بیٹے کے ممکنہ سوالات کے جواب سوچ رہی تھیں تاکہ اُس کا دل نہ ٹوٹے۔ اِسی شش و پنج میں جھجکتے ہوئے پوچھا،’’ مسعود بیٹے! کیا آج بھی شکر ملی؟‘‘ ’’ ہاں امّاں۔‘‘ بیٹے نے یہ کہتے ہوئے شکرکی پُڑی دِکھائی، تو ماں کی آنکھوں میں خوشی اور تشکّر کے آنسو تیرنے لگے کہ ربّ ِمہربان نے اُس کی لاج رکھی اور بیٹے کے سامنے شرمندگی سے بچا لیا۔ 

اِنہی برگزیدہ خاتون کا واقعہ ہے کہ ایک روز نماز ادا کر رہی تھیں کہ ایک چور موقع دیکھ کر گھر میں داخل ہوگیا۔ اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ اِس سے قبل کہ وہ کوئی چیز اُٹھاتا، اندھا ہوگیا۔اِس پروہ رونے پیٹنے اور معافی مانگنے لگا۔ آیندہ چوری نہ کرنے کا عہد کیا، تو بی بی صاحبہؒ نے دُعا کے لیے ہاتھ اُٹھائے اور اُس کی بینائی لَوٹ آئی۔

تعلیم، بیعت

چوں کہ اُن دنوں ملتان علمی مرکز تھا، لہٰذا حضرت فرید الدین مسعودؒ نو عُمری ہی میں حصولِ تعلیم کے لیے وہاں جا پہنچے۔پہلے قرآن پاک حفظ کیا، پھر مولانا منہاج الدّین ترمذیؒ سے فقہ کی تعلیم حاصل کی۔ تلاوتِ قرآن سے عشق تھا اور بعض روایات کے مطابق، طالبِ علمی کے زمانے میں روزانہ ایک قرآن پاک ختم کیا کرتے تھے۔ ایک روز مسجد میں فقہ کی معروف کتاب’’ النافع‘‘ کا مطالعہ کر رہے تھے کہ خواجہ قطب الدّین بختیار کاکیؒ بھی وہاں آنکلے۔ 

بچّے کا مطالعے میں انہماک دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور پوچھا،’’ بیٹے! کیا پڑھ رہے ہو؟‘‘ آپؒ نے بہت احترام سے جواب دیا،’’ النافع پڑھ رہا ہوں۔‘‘ اس پر خواجہ صاحبؒ نے فرمایا،’’ یہ تمھیں بہت نفع پہنچائے گی۔‘‘ اِس مختصر سی ملاقات نے آپؒ کو خواجہ صاحبؒ کا گرویدہ کردیا اور اُن سے بیعت ہوگئے۔ جب پتا چلا کہ وہ دہلی جا رہے ہیں، تو ساتھ چلنے کی درخواست کی، جس پر اُنھوں نے فرمایا،’’ نہیں۔ پہلے تعلیم مکمل کرو،پھر آنا۔‘‘چند روایات کے مطابق، اِس واقعے کے بعد آپؒ نے قندھار اور دیگر مقامات پر جاکر نام وَرعلماء سے استفادہ کیا اور پھر مرشد کے پاس دہلی چلے گئے۔

مرشد کی نوازشات

آپؒ کو ایک حجرہ دے دیا گیا،جہاں دن رات ریاضت اور مجاہدات میں مشغول رہتے۔دیگر مریدین کے برعکس، کئی کئی روز بعد خواجہ قطب الدّین بختیار کاکیؒ کی خدمت میں حاضر ہوتے اور راہِ سلوک سے متعلق رہنمائی حاصل کرتے۔ مرشد بھی سعادت مند اور محنتی مرید کی مسلسل ترقّی پر بے حد خوش تھے۔ ایک روز خواجہ معین الدّین چشتیؒ اپنے خلیفہ، حضرت بختیار کاکیؒ سے ملنے دہلی تشریف لائے، تو اُنھوں نے اپنے ایسے مریدین کو مرشد کے رو برو پیش کیا، جو روحانی منازل طے کر رہے تھے۔ جب سب سے ملاقات ہو چُکی، تو اُنھوں نے پوچھا،’’ کوئی رہ تو نہیں گیا؟‘‘ 

حضرت بختیار کاکیؒ نے جواب دیا، ’’ہاں ایک نوجوان رہ گیا ہے،جو ریاضت میں مشغول ہے۔‘‘ خواجہ صاحبؒ نے یہ سُن کر فرمایا،’’ تو پھر ٹھیک ہے، ہم اُن کے پاس چلتے ہیں۔‘‘ جب وہ دونوں وہاں پہنچے، تو دیکھا کہ حضرت فرید الدّین مسعودؒ مجاہدات کی کثرت سے سوکھ چُکے تھے۔ اُن کا ایک ہاتھ خواجہ صاحبؒ نے اور دوسرا حضرت بختیار کاکیؒ نے پکڑا اور سہارا دے کر کھڑا کیا۔خواجہ صاحبؒ نے مُسکرا کر فرمایا،’’ بختیار! تم نے تو شہباز پکڑ لیا ہے۔‘‘ پھر دونوں بزرگوں نے نوجوان پر فیوض و انوارات کی ایسی بارش کی کہ منزل سے ہم کنار ہوگئے۔ بعدازاں، حضرت بختیار کاکیؒ نے خواجہ صاحبؒ کی ہدایت پر اُنھیں خلافت سے بھی سرفراز فرمایا۔

دہلی سے اجودھن تک

آپؒ خلافت ملنے کے بعد ہانسی چلے گئے اور وہیں رہنے لگے۔ جب مرشد کی وفات کی اطلاع ملی، تو تیسرے روز دہلی پہنچے،جہاں حضرت بختیار کاکیؒ کی وصیّت کے مطابق اُن کا عصا، خرقہ اور دیگر امانتیں آپؒ کے سپرد کی گئیں، جس کے بعد آپؒ نے دو رکعت نفل ادا کیے اور پھر مرشد کی جگہ پر بیٹھ گئے۔ چوں کہ آپؒ شہرت کو ناپسند کرتے تھے، لہٰذا جلد ہی دہلی چھوڑ کر دوبارہ ہانسی کی راہ لی اور تقریباً 20 برس وہاں مقیم رہے۔ جب وہاں بھی مشہور ہونے لگے، تو ایک روز چُپ چاپ آبائی گاؤں، کھتوال آگئے اور پھر وہاں سے اجودھن( پاک پتن) جاکر مٹّی کا ایک جھونپڑا بنا کر رہنے لگے۔ 

یہ علاقہ اُن دنوں زہریلے سانپوں اور درندوں سے بھرا ہوا تھا، جب کہ وہاں کے باسی پرلے درجے کے اجڈ اور گنوار تھے۔ آپؒ کچھ دنوں تک تو سب سے الگ تھلگ رہ کر عبادات میں مصروف رہے، پھر وعظ و نصیحت کا سلسلہ شروع کیا۔ چند ہی دنوں میں عوام آپؒ کی طرف متوجّہ ہوگئے اور خود کو علم وحکمت کے نور سے منوّر کرنے لگے۔ آپؒ نے اپنے حجرے کے قریب ہی ایک بڑا چھپر بنوا دیا، جو جماعت خانہ کہلایا۔ طالبانِ حق دُور دراز سے وہاں آتے اور کئی کئی دن رہ کر آپؒ سے استفادہ کرتے۔

حکم رانوں سے لاتعلقی

حضرت فرید الدّین مسعودؒ حکم رانوں کی قربت اور اُن سے تعلقات کو سخت ناپسند کرتے تھے، یہی وجہ ہے کہ وہ کسی کے دربار میں جاتے تھے اور نہ ہی کسی بادشاہ یا حاکم کو خود کے قریب ہونے دیتے۔ وہ حکم رانوں اور دولت مندوں سے قربت کو صوفی کے لیے زہر سمجھتے۔ اِس معاملے میں اِس قدر سخت رویّہ تھا کہ اگر کوئی بزرگ کسی حاکم سے ملاقات کرکے آپؒ کے پاس آتا، تو اُس سے ملنے کے بعد غسل کرکے کپڑے تبدیل کرتے۔

دوسری طرف، حکّام اورامراء آپؒ کی زیارت اور صحبت کے طالب رہتے۔ آپؒ کی خدمت میں ہدیے بھیجتے اور جاگیر دینے کی پیش کش کرتے۔ ایک بار غیاث الدین بلبن آپؒ کے پاس حاضر ہوا اور بادشاہ کی جانب سے نقد رقم کے ساتھ چار گاؤں کے کاغذات بھی خدمت میں پیش کیے تاکہ اُن کی آمدنی سے آپؒ کی گزر اوقات ہوسکے۔ آپؒ نے نقدی تو فقراء میں تقسیم کروادی، جب کہ جاگیر کی دستاویز واپس کردی۔

غربت کے سائے

پوری زندگی غربت میں بسر ہوئی، یہاں تک کہ کئی کئی روز تک کھانے کو کچھ میّسر نہ آتا۔جب ملتان میں پڑھتے تھے، تو اُس وقت کپڑے کئی جگہوں سے پھٹے رہتے، جنھیں بڑی مشکل سے سنبھالتے تاکہ پردہ رہے۔ پاک پتن میں ڈیرہ ڈالا، تو پیلو کے ( جس کی لکڑی مسواک کے لیے استعمال ہوتی ہے) ابلے ہوئے پھلوں میں نمک ڈال کر خود بھی کھاتے اور فقرا کو بھی کِھلاتے۔ خواجہ نظام الدّین اولیاءؒ کا ارشاد ہے،’’ جس روز ہمیں ڈیلے( پیلو پر لگے چھوٹے چھوٹے پھل) پیٹ بھر کر کھانے کو ملتے،وہ ہمارے لیے عید کا دن ہوتا۔‘‘ 

درمیان میں کچھ عرصے کشادگی رہی ،رات رات بھر کھانا پکتا اورآنے والوں میں تقسیم ہوتا رہتا، مگر آخری دنوں میں ایک بار پھر تنگی لَوٹ آئی۔ جب انتقال ہوا، تو گھر میں اِتنے پیسے نہیں تھے کہ کفن خریدا جاسکے۔ ایک خاتون نے دُھلی ہوئی سفید چادر دی، جو آپؒ کے جسمِ اطہر پر ڈالی گئی۔ یہ ایسے شخص کے حالات ہیں، جس کے ایک اشارے پر حکم ران اور امرا پیسوں کا ڈھیر لگانے کو تیار تھے، مگر اُس نے اپنی ذات کے لیے کسی سے کوئی فائدہ نہیں لیا۔

تبلیغی خدمات

آپؒ نے زندگی کے آخری 20 برس پاک پتن میں گزارے،جس کے دوران ہزار ہا افراد نے آپؒ کے ہاتھ پر گناہوں سے توبہ کی۔جو بھی شخص بیعت ہونا چاہتا، اُس سے فرماتے،’’ تم اپنے ہاتھ، پاؤں اور آنکھوں کو گناہوں سے بچاؤ گے اور شریعت کے راستے پر چلو گے۔‘‘ہندوؤں کی ایک بہت بڑی تعداد نے آپؒ کی تبلیغ کے نتیجے میں اسلام قبول کیا۔

آپؒ حافظِ قرآن، عالمِ دین تھے، عربی زبان اور فقہی امور پر بہت دسترس حاصل تھی، لہٰذا علماء اورعام افراد دینی معاملات میں رہنمائی کے لیے بھی آپؒ سے رجوع کرتے۔آپؒ کی ذات بابرکات سے خطّے میں چشتیہ سلسلے کو بھی فروغ حاصل ہوا۔ حضرت علاء الدّین صابر کلیریؒ اور حضرت نظام الدّین اولیاءؒ آپؒ ہی کے فیض یافتہ تھے، جن کی کوششوں سے چشتیہ سلسلے کو قبولِ عام کا درجہ حاصل ہوا۔ محقّقین نے حضرت فرید الدّین مسعود گنج شکرؒ کو اِنہی خدمات کی بنیاد پر سلسلہ چشتیہ کا مجدّد اور اِس سلسلے کا آدمِ ثانی قرار دیا ہے۔

شخصیت، تعلیمات

سادہ زندگی گزارتے۔ کچّا مکان تھا، سونے کے لیے ایک پرانی چارپائی تھی، نماز کی خود امامت کرتے،کثرت سے تلاوت فرماتے اورعقیدت مندوں کو بھی قرآن پاک حفظ کرنے کی ہدایت کرتے۔ اِس ضمن میں فرماتے،’’ پہلے سورۂ یوسف یاد کرو، اِس سے قرآن پاک کے حفظ میں آسانی رہتی ہے۔‘‘ بے حد شگفتہ مزاج تھے، نمازِ ظہر کے بعد مجلسِ عام ہوتی،جس میں لوگوں کے مسائل سُنتے، اُنھیں مشورہ دیتے اور اُن کے لیے دعا کرتے۔ سب سے لُطف و مہربانی سے پیش آتے۔ایک مرتبہ کسی نے چُھری پیش کی،تو فرمایا،’’ مجھے چُھری نہیں، سوئی دو کہ مَیں کاٹتا نہیں، سیتا ہوں۔‘‘کبھی کبھار پان بھی کھا لیتے۔

خشیت و رقت کا غلبہ تھا، کوئی عبرت انگیز واقعہ یا عاشقانہ شعر سُنتے، تو رونے لگتے۔اکثر عجیب کیف ومستی میں یہ شعر پڑھا کرتے؎’’ مقصودِمن خستہ زکونین توئی…ازبہر تو میرم از برائے توزیم۔‘‘ یعنی مجھ مسکین و بے چارے کا دونوں جہان میں مقصود آپ ہی ہیں۔آپ ہی کے لیے جیتا ہوں،آپ ہی کے لیے مرتا ہوں۔کثرت سے غسل کرتے اور طویل سجدے کیا کرتے۔ 

عام طور پر روزے سے ہوتے۔ فرماتے،’’ دل کو شیطان کا کھلونا نہ بننے دو، مستحقین کو کبھی فراموش نہ کرو،آسودگی چاہتے ہو تو حسد سے بچو، علم و ہنر حاصل کرنے میں نکتہ چینی اور خواری کی پروا نہیں کرنی چاہیے۔نیکی کرنے کے لیے بہانے ڈھونڈا کرو۔ اگر تم بزرگوں کا مرتبہ چاہتے ہوتوبادشاہوں کی اولادسے دوررہو،جس دل میں اللہ کاذکرجاری رہتاہے وہ دل زندہ ہے اور شیطانی خواہشات اُس پرغلبہ نہیں پاسکتیں، دوسروں سے اچھائی کرتے ہوئے سوچوکہ تم اپنی ذات سے اچھائی کر رہے ہو۔‘‘

گنج شکر

اِس حوالے سے کئی روایات مشہور ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ آپؒ تین روز سے بھوکے تھے، ایک شخص چند روٹیاں لے کر آیا، جسے آپؒ غیبی اشارہ سمجھے اوروہ کھالیں، مگر فوراً قے ہوگئی۔ جب مرشد کو بتایا، تو اُنھوں نے فرمایا’’ تین دن کے بعد کھایا بھی تو شرابی کا کھایا۔ شُکر ہے، وہ کھانا پیٹ میں نہ رہ سکا، اب تین دن مزید بھوکے رہو۔‘‘تین دن گزرنے کے بعد کھانے کو کچھ نہ آیا، تو بھوک کی شدّت سے کچھ کنکریاں اُٹھا کر منہ میں ڈال لیں، جو شکر بن گئیں۔ اُسی دن سے آپ’’ گنج شکر‘‘ کے نام سے معروف ہوگئے۔

ایک دوسری روایت کے مطابق،ایک بار کچھ تاجر گدھوں پر شکر کی بوریاں لادے آپؒ کے سامنے سے گزرے، تو آپؒ نے کچھ شکر خریدنی چاہی، تو اُنہوں نے بہانہ بنایا کہ’’ یہ شکر نہیں، نمک ہے۔‘‘ آپؒ نے مسکرا کر فرمایا،’’ چلو اچھا، نمک ہی ہوگا۔‘‘جب وہ اپنی منزل پر پہنچے اور بورے کھولے تو دیکھا کہ شکر، نمک میں تبدیل ہوچکی تھی۔ پشیمان ہوکر آپؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور معافی کی درخواست کی، جس پر آپؒ کی دُعا سے نمک، شکر ہوگیا۔ واللہ اعلم

شاعری

آپؒ شاعری کا اعلیٰ ذوق رکھتے تھے، البتہ اِس بات پر اختلاف ہے کہ کیا آپؒ خود بھی شعرکہا کرتے تھے یا نہیں؟ سِکھوں کی مقدّس کتاب،گرنتھ صاحب میں آپؒ سے منسوب 112 اشلوک( اشعار) بھی شامل ہیں، تاہم، محقّقین کے مطابق اِن اشعار کا آپؒ کی طرف انتساب درست نہیں کیوں کہ یہ اشعار آپؒ کے نہیں، بلکہ پاک پتن شریف کے 12 ویں سجادہ نشین اور بابا گرونانک کے ہم عصر، حضرت ابراہیم کے ہیں،جو فرید ثانی کے نام سے معروف ہیں۔یہاں یہ بھی واضح رہے کہ کوٹ مٹھن سے تعلق رکھنے والے بابا غلام فریدؒ الگ شخصیت ہے۔

ازدواجی زندگی

کتب میں آپ ؒکی تین شادیوں کا ذکر ملتا ہے، جو خاصی بڑی عُمر میں جاکر کیں۔ ان سے آپؒ کے ہاں پانچ بیٹے اور تین بیٹیاں ہوئے۔ کئی ایک مصنفین نے آپؒ کی بلبن کی بیٹی سے بھی شادی کا دعویٰ کیا ہے، جو تاریخی طور پر درست نہیں۔

وفات، تدفین

آپؒ آخری عُمر میں آنتوں کے مرض میں مبتلا رہے اور اسی مرض میں5 محرم کو 90سال سے زاید عُمر میں وفات پائی۔ وفات کے سن سے متعلق روایات میں تضاد ہے۔ فیروز الدین احمد فریدی نے670ہجری لکھا ہے، جو درست معلوم ہوتا ہے۔ وفات کی رات نمازِعشاء ادا کی تو اچانک بے ہوش ہوگئے۔ ہوش میں آئے، تو اپنے قریب موجود لوگوں سے پوچھا،’’ کیا مَیں نے عشاء کی نماز پڑھ لی؟‘‘ اُنھوں نے کہا،’’ جی پڑھ چُکے ہیں۔‘‘ فرمایا،’’ دوبارہ پڑھ لوں کیا خبر کیا ہو۔‘‘ اور دوبارہ نماز پڑھی، جس کے بعد پھر بے ہوش ہوگئے۔

ہوش میں آکر دوبارہ پہلے کی طرح سوال، جواب ہوئے اور آپؒ نے پھر نمازِ عشاء ادا کی۔ تیسری مرتبہ پھر اِسی طرح ہوا،جس کے بعد وصال فرما گئے۔ پاک پتن میں سپردِ خاک کیے گئے۔ شہنشاہ محمّد بن تغلق نے مزار پر گنبد تعمیر کروایا۔ مزار کے مشرق اور جنوب میں دو دروازے ہیں، جنوبی دروازہ، جو خاصا تنگ ہے،’’ بہشتی دروازہ‘‘ کہلاتا ہے، جسے عرس کے موقعے پر کھولا جاتا ہے اور زائرین وہاں سے گزرنے کو سعادت سمجھتے ہیں۔