• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

شالا مار باغ میں رکھے ہوئے تخت کو مہاراجہ رنجیت سنگھ نے اکھاڑ کر امرتسر کے دربار بھجوانے کی کوشش کی تھی، جب تخت کودرست حالت میں اکھاڑ کر امرتسر لے جانا ممکن نہ رہا تو مہاراجہ رنجیت سنگھ نے ارادہ ترک کردیا۔ البتہ اس زور آزمائی میں اس تخت کا ایک پائوں ٹوٹ گیا جس کو لوہے کے شکنجے کے ساتھ دوبارہ جوڑا گیا۔ یہ لوہے کا شکنجہ آج بھی دیکھا جاسکتا ہے یہ بات تو طے ہے کہ سکھوں نے مغل عمارتوں سےجو بدترین سلوک کیا اس کی مثال نہیں ملتی۔ سکھوں نے اپنے چند سالہ دور حکومت میں لاہور میں مغلوں کی ہر تعمیر کردہ عمارت، حویلی، مقبرے اور باغات سے قیمتی پتھر اکھاڑ لئے تھے۔ ان عمارتوں پر کی گئی خوبصورت نقاشی اور ان کے رنگ و روغن تک کو خراب کردیا تھا۔

شالا مار باغ بڑا تاریخی باغ ہے۔ ہمیں یاد ہے کہ 1970ء تک یہ باغ دور سے نظر آتا تھا، بس ایک گھاس منڈی تھی اور ارد گرد دور دور تک کھیت ہوا کرتے تھے۔ شالا مار سے ہو کر ہی واہگہ بارڈرکی جانب راستہ جاتا ہے۔ اسی راستے میں وہ تاریخی نہر بی آر بی بھی ہے جس پر کئی ناول لکھے گئے ہیں۔ بی آر بی نہر سے واہگہ بارڈر تک 1965ء کے شہدا اور عزیز بھٹی شہید (نشان حیدر) کی یادگاریں دور سے نظر آتی تھیں۔ ہم نے خود ایک زمانے میں روزنامہ جنگ کے بچوں اور طلبا کے ایڈیشنوں کے لئے بچوں اور طالب علموں کو یہاں لے جا کر یہ یاد گاریں دکھائی تھیں۔ آج ان یاد گاروں کو تلاش کرنے کےلئے آپ کو خاصی تگ ودو کرنا پڑتی ہے۔ واہگہ بارڈر سے شالا مار باغ تک وہ تاریخی علاقہ ہے جہاں 1965ء میں بھارتی فوج نے رات کے اندھیرے میں لاہور پر حملہ کردیا تھا۔ اس زمانے میں شہر لاہور سے ایک ڈبل ڈیکر بس رات کو چلا کرتی تھی ہم نے اس پر کئی بار سفر کیا تھا۔ غالباً اس کا نمبر پانچ تھا۔ یہ ڈبل ڈیکربس رات گیارہ بجے واہگہ سرحد پر کھڑی کردی جاتی تھی، صبح سویرے واہگہ گائوں سے سواریاں لے کر شہر آ جاتی تھی۔

بھارتی فوجی یہ ڈبل ڈیکر امرتسر لے گئے اور وہاں کے ہال بازار میں ڈبل ڈیکر بس گھما کر یہ بتایا کہ لاہور پر قبضہ کر لیا ہے مگر بھارتی فوج کے سربراہ پرشاد کا لاہور پر قبضہ کرنے کا خواب اور خواہش ادھوری رہ گئی، پاکستانی فوج نے ان کا ڈٹ کر مقابلہ کیا، اس حوالے سے کئی دلچسپ باتیں پھر بتائیں گے۔

یہ بات آپ کے لئے یقیناً دلچسپی کا باعث ہوگی کہ آج سے 75برس قبل واہگہ، باغبانپورہ، گڑھی شاہو، چاہ میراں، اچھرہ، مزنگ، قلعہ گوجر سنگھ، ہربنس پورہ، برکی، بیدیاں، رائے ونڈ اور میاں میر (گائوں) لاہور کے دیہات میں شمار ہوتے تھے۔ کبھی آپ کوبتائیں گے کہ ڈیفنس لاہور کے اندر کتنے دیہات آگئے اور یہ سارا ڈیفنس اندازاً 100 کے قریب چھوٹے بڑے دیہات کو ختم کرکے بنایاگیا ہے۔ اس زمانے میں ان دیہات کو ریونیو (محکمہ مال) کے کاغذات میں کچھ یوں لکھا جاتا تھا۔ موضع اچھرہ تحصیل و ضلع لاہور، موضع مزنگ تحصیل و ضلع لاہور، شام کے بعد برکی، واہگہ، بیدیاں، سوڈی وال، ہنجروال، شاہ دی کھوئی (جس میں اب پنجاب یونیورسٹی نیو کیمپس ہے) ان علاقوں کی جانب کوئی نہیں جاتا تھا۔ یہاں ڈاکو لوٹ لیا کرتے تھے جبکہ آج یہاں پوری رات ٹریفک چلتی ہے۔شالا مار باغ کے چاروں طرف کھلی جگہ اور کھیت تھے جو ہم نے خود دیکھے ہیں۔ آج شالامار باغ کی بیرونی دیواروں کے ساتھ لوگوں نے دکانیں بنا لی ہیں بلکہ باغ کی ایک دیوار تو دکان کا حصہ بن چکی ہے۔ 1975ء کے آثار قدیمہ ایکٹ کے مطابق کسی بھی تاریخی عمارت کے دو سو فٹ تک کسی قسم کی تعمیر نہیں ہوسکتی مگر یہاں کون پوچھتا ہے؟ ذرا کسی پرانے باغبانپوریئے سے پوچھیں کہ باغبانپورہ 1970ء تک کس قدر کھلا، شاداب اور خوبصورت علاقہ تھا؟ آج یہ علاقہ سب سے گندا اور برباد ہو چکا ہے۔ رہی سہی کسر اورنج ٹرین نے پوری کردی ہے۔ اس اورنج ٹرین کی دھمک شالامار باغ اور تاریخی یو ای ٹی کی عمارتوں تک میں آتی ہے، جو یقیناً ان تاریخی عمارتوں کو آہستہ آہستہ کمزور کرتی رہے گی۔ شالاما ر باغ تاریخی باغ ہے اس میں جو جو اہم شخصیات آج تک آئی ہیں ان کا ذکر کرنا ضروری ہے۔ پھر اسلامی کانفرنس کے تمام شرکا اس تاریخی باغ میں آئے۔ جب ذوالفقار علی بھٹو نے اسلامی سربراہی کانفرنس منعقد کرائی تو اس کے تمام شرکا کو شالا مار باغ میں استقبالیہ دیا گیا تھا جس میں شاہ فیصل، کرنل قذافی، یاسر عرفات، عیدی امین، بومدین، انور سادات، شاہ حسین، شاہ حسن اور کئی دیگر ممالک کے سربراہ اس تاریخی باغ میں آئے تھے۔ اس کے علاوہ امیر فیصل ثانی شاہ عراق اور پرنس عبداللہ، شاہ مسعود بن عبدالعزیز، جمہوریہ ترکیہ کے صدر جلال بایار، مصر کے ڈپٹی پرائم منسٹر ونگ کمانڈر جمال سلیم، جمہوریہ ترکیہ کے وزیراعظم عدنان مندریس، چین کی ریاستی کونسل کے وزیراعظم اور وزیر امور خارجہ چو این لائی، ڈیوک آف ایڈنبرا، ان کے علاوہ سابق بھارتی وزیراعظم جواہر لعل نہرو بھی شامل ہیں۔ یعنی اس لاہور نے کن کن اہم شخصیات کی میزبانی کی۔

(جاری ہے)

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین