• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جو لوگ چاہتے ہیں کہ آنے والی نسلیں اُنہیں یاد رکھیں، وہ اچھے کام کرتے ہیں۔ تاہم ایسا شاید ہی کوئی انسان ہوجو گھنائونے جرائم کا ارتکاب کرنے والے مجرم، بدعنوان شخص، سازش اور جرم کے مہرے،یا لوٹ مار کرنے والے کے طور پر یاد رکھا جانا چاہتا ہو۔ وہ تو چاہیں گے کہ ایسے کام لوگوں کی یاد داشتوں سے محو ہو جائیں تاکہ وہ اور ان کی آنے والی نسلیں شرمندگی اور احساس ذلت سے بچ جائیں۔

اس اصول میں اگراستثنیٰ دیکھنا ہوکہ کیا اس کے برعکس بھی کوئی انسان چاہتا ہوگا، تو آئیے پاکستان کی طرف نگاہ کرتے ہیں جہاں ایسے افراد نہ صرف موجود ہیں بلکہ دن دگنی رات چوگنی ترقی بھی کررہے ہیں۔ انکا تعلق حکمران اشرافیہ سے ہے۔ انھیں طاقت اور اختیار حاصل ہے تاکہ وہ انسانیت، خاص طور پر جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنے کیلئے ہاتھ پائوں مارنے والے عوام کی خدمت کر سکیں۔ لیکن اس کی بجائے یہ حکمران اپنے اختیار کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے ہزاروں ذرائع سے، نہایت سرعت اور چابکدستی سے اپنی جیبیں بھرنے میں طاق ہیں۔ ان کا اصل مقصد ایسی چالیں چلنا ہوتا ہے جس میں انکا فائدہ اور مستحق عوام کا نقصان ہو۔

کئی برسوں، بلکہ عشروں سے یہ سب کچھ کیا جارہا تھا اور کسی چہرے پر ندامت کا شائبہ تک نہ تھا۔ ایسا لگتا تھا جیسے ایسے ذلت آمیز افعال کی انجام دہی کو یہ ٹولہ اپنی عزت سمجھتا ہے۔ ایسا کرتے ہوئے ان کے سینے پر کوئی تمغہ آویزاں ہو جاتا ہے۔ میں اکثر حیران ہوتا ہوں کہ یہ لوگ کس مٹی کے بنے ہوئے ہیں کہ عوام کے سامنے اتنے ذلت آمیز افعال کا ارتکاب کرتے ہوئے ان کی پیشانی تک عرق آلود نہیں ہوتی بلکہ وہ اپنے جرائم کو دکھی انسانوں کی خدمات گنواتے ہیں۔ افسوس یہ کہ ان پر یقین کرنے والوں کی بھی کمی نہیں۔ انھیں اپنا لیڈر سمجھ کر پیروی بھی کی جاتی ہے۔ انسان ژولیدہ فکری کی اس دلدل میں کہاں تک دھنس سکتا ہے؟ عقل حیران ہے کہ انسانوں میں ایسی سوچ بھی پائی جاسکتی ہے؟ ایسے افراد کو بھی دوست یا خیر خواہ سمجھا جاسکتا ہے؟ممکن ہے کسی مرحلے پر انسانی سوچ اتنی ابہام زدہ ہوجاتی ہو کہ اچھائی اور برائی کے درمیان تمیز ختم ہو جائے۔ تمیز صرف اتنی ہو کہ نفع بخش چیز اچھائی اور دوسری برائی سمجھی جاتی ہو۔ اگر براہ راست فائدہ ہو، جیسا کہ نقد رقم وغیرہ، پھر افراد فائدے کا باعث بننے والے کو اچھاقرار دیں گے۔ وہ یہ جانچنے کی کوشش نہیں کرینگے کہ اس نے تو انکے ذاتی فائدے کی بجائے عوام کو مجموعی طور پر فائدہ پہنچانا تھا۔ اہداف اتنے ذاتی نوعیت کے ہوچکے ہیں کہ عوامی فلاح کا تصور بدعنوانی، لالچ اور طمع کی دھند میں کہیں دور کھو چکا۔

بہت دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ کام کی بجائے محض دعوئوں کی بنیاد پر رعونت کے قلعے تعمیر کیے جاتے ہیں۔ یہ جانچ کرنا مشکل ہے کہ اس کا آغاز کہاں سے ہوا؟ خود نمائی کی بنیاد کس من گھڑت الف لیلہ پر رکھی گئی ؟لیکن یہ حالیہ صنعت نہیں ہے ۔ اس کا آغاز اس وقت ہوا جب ہم اپنی شناخت کی تلاش میں بہت سے محاذوں پر جدوجہد کررہے تھے، چاہے ہم آمروں سے خوش تھے یا جمہوریت ہمیں مرغوب تھی، ہم نے کس قسم کی تعلیم حاصل کی تھی، ہمیں کیسی صحت کی سہولیات حاصل تھیں، کس طرح کا نظام انصاف ہماری داد رسی کے لیے موجود تھا؟ اس قسم کا ابہام اس زہرناک شعوری کوشش کا نتیجہ ہے جس کا مقصد ایسے معاملات کی شفافیت کو مبہم رکھنا تھا۔

لیکن رعونت کے یہ قلعے قطعی محفوظ تھے۔ بات صرف یہ تھی کہ کوئی بھی ان پر پہلا پتھر مارنے کی ہمت نہیں کر سکتا تھا۔ عوام خوف کے عالم میں رہتے تھے، اس خوف سے کہ ان کی زندگیوں اور ان کے زیر کفالت افراد کی زندگیوں پر کیا گزرے گی اگر انھوں نے کبھی ایسا کرنے کی کوشش کی۔

اس پیہم خوف کے اسیرعوام اپنی حکمران اشرافیہ کے قلعوں کیلئے اینٹ اور پتھر بن گئے۔ اس عمل میں غریب افراد غریب تر ہوتے چلے گئے ۔ نت نئے خوف ان کے دامن گیر ہونے لگے۔ جو ان کا تھا وہ دراصل ان کا نہیں تھا اور جو ان کا نہیں تھا اس کا وہ خواب میں بھی نہیں سوچ سکتے تھے۔ ان کا معمولی سامان ، ان کے سروں پر ٹپکتی ہوئی چھتیں،ان کے خاندان بکھرے ہوئے، ان کی مائیں، ان کی بیویاں، بیٹیاں، بیٹے، ان کی معمولی زمینیں، کچھ نچلے درجے کی نوکریاں،چمکتی ہوئی بھوک اور سب سے اہم بات، ان کی امیدیں، تمنائیں اور ان کی جینے کی آرزو ،سب کچھ گروی تھا۔ کچھ بھی ان کا نہیں تھا۔ وہ بے سہارا پیدا ہوئے تھے ۔ وہ اس کسمپرسی کے عالم میں رہنے پر مجبور تھے۔ یہ وہ تقدیر ہے، جو پہلے سے طے شدہ یا انسان کی بنائی ہوئی ہے، جسے انھیں قبول کرنا، اور برداشت کرنا پڑا۔ اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ اس دوران نئے سردار قلعوں پر قبضہ کرنے آتے رہے۔ یہ وہ نظام ہے جسے حکمران اشرافیہ اپنی میراث کے طور پر پیچھے چھوڑ جاتی ہے۔ ان کی اگلی نسلوں کو مناسب طریقے سے تربیت دی گئی ہے کہ وہ نہ صرف عام لوگوں کے دکھوں کو برقرار رکھیں بلکہ انھیں مزید غلام بنائیں۔ عشروں سے انتظار ہے کہ انھیں پہلا دھکا کون دے گا؟ کیا یہ انتظار لامتناہی ہوگا؟ افسوس، ایسا ہی دکھائی دیتا ہے۔

تازہ ترین