بشریٰ ودود
’’اچھے بھیّا ‘‘صرف نام کے نہیں، اخلاق کے بھی اچھے تھے۔ ہر ایک کے کام آنا، دُکھ درد میں ساتھ دینا، اُن کا وصف تھا۔ محلّے کا ہر شخص ان کی اچھائیوں کا معترف نظر آتا۔ کہنے کو تو دنیا میں ان کا کوئی سگا رشتے دار نہیں تھا، لیکن وہ سارے محلّے کو اپنا مانتے تھے۔ اچھے بھیّا کی گزر بسر اُن کے ابّا کی وراثت میں چھوڑی کریانےکی دُکان سے ہوتی تھی، گھر بھی اپنا تھا، تو کوئی مالی پریشانی بھی نہ تھی۔ چھوٹی آپا، اچھے بھیّا کی منہ بولی بہن تھیں۔ اس لیے وہ ان کا خاص خیال رکھتے۔
چھوٹی آپا کے دونوں بچّے، سکینہ اور کامران اُنہیں اچھے ماموں کہتے تھے۔ چھوٹی آپا کے شوہر، انور مستری تھے۔ ویسے تو ان کے مالی حالات کچھ زیادہ اچھے نہیں تھے، لیکن گزر بسر اچھی ہو رہی تھی کہ اچانک جان لیوا وائرس کورونا نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اور انور کی لگی بندھی نوکری چُھوٹ گئی۔
لیکن انور محنت کش تھا، تو روز صبح دیگر مزدوروں کے ساتھ محنت مزدوری کے لیے نکل کھڑا ہوتا، پر چوک پر بیٹھ کر مزدوری کی راہ دیکھ دیکھ کر واپس آجاتا۔آخر ایک دن چھوٹی آپا نے فیصلہ کیا کہ وہ بھی محلّے والی امّاں زلیخا کے ساتھ گھروں میں کام کرنے جائیں گی۔ اُس روزانور اور وہ رات دیر تک ایک دوسرے کو ہمّت دلاتے رہے۔ دُعائیں کرتے رہے کہ دونوں میاں بیوی کا روزگار لگ جائے۔اگلے روز چھوٹی آپا کو باجی نجمہ کے گھر کام مل گیا۔
دونوں میاں بیوی روز بچّوں کو سمجھا بُجھا کر جاتے کہ باہر نہ جانا، کسی اَن جان آدمی کے لیے گھر کا دروازہ نہیں کھولنا۔ چھوٹی آپا اور انور کی غیر موجودگی میں اچھے بھیّا سودا سلف لادیتے، کبھی کبھار اپنی طرف سے پھل وغیرہ بھی لے آتے۔ انور اور چھوٹی آپا انہیں دُعائیں دیتے نہ تھکتے تھے۔
دن اسی طرح گزر رہے تھے کہ کورونا کا زور ٹوٹ گیا اور انور کو ایک فیکٹری میں ملازمت مل گئی۔ مگر چھوٹی آپا نے کام کرنا نہیں چھوڑا کہ وقت کا کوئی بھروسا نہیں ہوتا۔ دونوں میاں بیوی مل جُل کر کام کرتے رہے۔ انور کو ملازمت ملنے کی سب سے زیادہ خوشی دونوں بچّوں کو تھی کہ اُنہیں لگا کہ اب بابا بہت سارے پیسے لے آئیں گے، تو اس بقرعید پر ان کا بھی بکرا آجائے گا۔
بقر عید میں ابھی بیس، پچّیس دن باقی تھےکہ کامران نے ضد پکڑ لی کہ ’’ابّا! مجھے بکرا چاہیے، ہمیں نئے کپڑے نہیں چاہئیں، بس بکرا دلوا دیں۔‘‘’’بس کر کامران، بس کر!! بیٹا، منہگائی اس قدر ہوگئی ہے کہ اگر مَیں اپنی سائیکل بھی بیچ دوں، تب بھی بکرے کے پیسے پورے نہیں ہو سکیں گے۔‘‘انور نے کہا، تو کامران کا دل بیٹھنے لگا۔’’ امّاں، امّاں!کل رات تو خواب میں بھی آیا تھا۔‘‘ کامران نے ناشتا کرتے ہوئے کہا۔ ’’کون بیٹا، کون آیا تھا تمہارے خواب میں؟‘‘چھوٹی آپا نے پوچھا۔ ’’وہ…وہی بکرا، جو ہم خریدیں گے۔‘‘
کامران نے جواب دیا۔ ’’اچھا، کیا کہہ رہا تھا؟‘‘ سکینہ نے مذاق اُڑاتے ہوئے پوچھا۔’’کہہ رہا تھا،باجی کا سر پھوڑ دو‘‘ کامران نے منہ چڑاتے ہوئے جواب دیا۔ ’’ہائے امّاں! پھر تو کبھی بکرا نہیں لانا۔‘‘ سکینہ نے ماں سے کہا اور بھاگ گئی۔بہن کی یہ بات سُن کر کامران اُسے مارنے بھاگا۔ جیسے جیسے عید کے دن قریب آتے جا رہے تھے، کامران کی دعاؤں میں بھی شدّت آتی جا رہی تھی۔ اب تو اسے روز ہی خواب میں بکرے نظر آتے۔ اور پھر بس اللہ نے اس کی سُن لی کہ باجی نجمہ نے اپنا ایک چھوٹا سا بکرا چھوٹی آپا کو یہ کہہ کر دے دیا کہ ’’ہمارے یہاں تو ویسے ہی دو گائیں اور چار بکرے آگئےہیں، یہ ایک بکرا تم لے جاؤکہ تمہارے بچّے خوش ہوجائیں گے۔ اس کی قربانی بھی تم ہی لوگ کرنا اور گوشت بھی خود ہی تقسیم کر دینا۔‘‘
جب انور اور اس کی بیوی بکرا لے کر گھر آئے تو دونوں بچّوں کی خوشی دیدنی تھی۔ دونوں بہن بھائی سارا دن اُسے کھلانے پلانے، گھمانے پھرانے میں لگے رہتے۔ سکینہ تو اس کا ایسے خیال رکھتی، جیسے کامران کی طرح وہ بھی اس کا چھوٹا بھائی ہو۔ نہ صرف اُس کے چارے ،پانی کا خیال رکھتی بلکہ اُس سے آہستہ آہستہ ڈھیروں باتیں بھی کرتی۔ ایک روز جب وہ کامران کے ساتھ بکرے کو گھمانے نکلی، تو ان کے اچھے ماموں بھی ساتھ تھے۔ معصوم سکینہ اور کامران بکرے کے ساتھ بھاگتے چلے جارہے تھے۔
موسم ابر آلود تھا۔ ’’کامران! اگر بارش ہوگئی تو…؟‘‘ سکینہ نے کہا۔ ’’باجی! بارش میں تو ہمارا بکرا بھیگ جائے گا۔تم یہیں رُکو، مَیں ایسا کرتا ہوں کہ گھر سے چھتری اور بکرے کی گھاس لے آتا ہوں۔اچھے ماموں! آپ دونوں یہیں میرا انتظار کیجیے گا۔‘‘ یہ کہہ کر کامران نے بکرے کی رسّی اچھے بھیا کو پکڑائی اور خود بھاگتا ہوا گھر چلا گیا۔ ’’تمہیں بکرے کو ٹہلاناہے؟‘‘ اچھے بھیّا نے سکینہ سے پوچھا۔ ’’آپ مجھے اسے ٹہلانے دیں گے ماموں؟‘‘’’ہاں کیوں نہیں۔‘‘ یہ کہتے ہوئے انہیں لمحے بھر میں جانے کیاہوا کہ انہوں نے آگے بڑھ کر بکرے کی رسّی سکینہ کو پکڑائی اور ساتھ ہی اس کا ہاتھ بھی پکڑکر گھسیٹالیا، تو سکینہ ان پر سوار شیطانیت سے یک سَراَن جان بالکل ہی ہونّق ہوگئی۔
اُس نے گھبرا کر بکرے کی رسّی چھوڑ دی، مگر بھیّا نے اس کا ہاتھ نہ چھوڑا،تو وہ چیخنے لگی ’’ہاتھ چھوڑیں اچھے ماموں، مجھے درد ہو رہا ہے۔‘‘ مگر اچھے ماموں کو کچھ سُنائی ہی کہاں دے رہا تھا کہ اچانک ہی بکرا مَیں مَیں کرتا اُن کے سر پہ آن کھڑا ہوا۔ اس سے قبل کہ اچھے بھیّا سکینہ سے کوئی زبر دستی کرتے، بکرے نے پوری قوّت سے انہیں ایک ٹکّر دے ماری۔ بکرے کی ٹکر اتنی اچانک تھی کہ بھیا سنبھل ہی نہ سکے اورمنہ کے بل نیچے گرے۔ اب بکرا سکینہ کے پاس کھڑا زور زور سے ’’مَیں مَیں‘‘ کر رہا تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ اچھا شیطان اُٹھ کھڑا ہوتا، کامران بھی وہاں آن پہنچا۔ ’’باجی! تم یہاں ہو، مَیں اتنی دیر سے تم لوگوں کو ڈھونڈ رہاہوں۔‘‘ کامران نے سکینہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
بکرا اب بھی سکینہ کے گرد کسی ڈھال کی طرح کھڑا تھا۔ بھائی کو دیکھ کر سکینہ نےجلدی سے بھاگ کر اُس کا ہاتھ پکڑ لیا، مگر اچھے بھیّا بدستور زخمی حالت میںوہیں پڑے تھے۔ کامران کو قریب آتا دیکھ کر بکرا اور زور زور سے چلّانے لگا۔ سکینہ کا رنگ زرد، آنکھوں میں آنسو تھے۔ اُس نے ایک حقارت بھری نظر اچھے ماموں پر ڈالی، بہت پیار سے مَیں مَیں کرتے معصوم بکرے کو دیکھااور بھائی کے ہاتھ پر اپنی گرفت مزید مضبوط کرکے گھر کی طرف پلٹی۔
کامران نے بکرے کی رسّی پکڑ کر اُسے سہلانے کی کوشش کی، مگر وہ چُپ نہ ہوا۔ لگتا تھا، جیسے کہہ رہا ہو، ’’تم انسان، جانور کیسے بن جاتے ہو؟ ہم تو بھوکے بھی ہوں، تب بھی کسی کے ساتھ زیادتی کرتے ہیں، نہ کسی کا حق مارتے ہیں۔ ہمیں تو جو ایک بار اپنا مان لے، ساری زندگی اسی کے وفادار رہتے ہیں، اپنے مالک کے لیے جان تک قربان کر دیتے ہیں، تو تم اپنوں کے لیے غیر کیسے بن جاتے ہو، کیا تم میں خوفِ خدا نام کو بھی نہیں، کیا تمہارا کوئی مالک نہیں۔ہو سکے، تو اس بقر عید صرف جانور نہیں، اپنے ربّ کی خاطر اپنا نفس بھی قربان کرنا سیکھنا۔‘‘