• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

احساسِ تشکّر سےچند لمحوں کے لیےبند ہوئیں اور آنسو جاری ہوگئے۔ ’’میرے مالک! تُو نے مجھ گناہ گار کو اس قدر خُوب صُورت مسجد دیکھنا، یہاں سجدہ کرنا نصیب کیا۔‘‘سچّی بات ہے ہم توجیسے روحانی کیفیت میں مبتلا ہوگئے تھے۔ مولانا کی انگریزی اچھی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ ’’مسجد کے قیام کا واقعہ انتہائی دل چسپ ہے۔تاجروں کا ایک گروہ شاہ راہ کنارے ظہر کی نماز ادا کر رہا تھا کہ وہاں سے بادشاہ کی سواری گزری۔اس نے حیرت سے لوگوں کو دیکھتے ہوئے پوچھا کہ ’’یہ یہاں کیا کر رہے ہیں؟‘‘ اور حقیقت معلوم ہونے پراس جگہ مسجد بنانے کا حکم دیا۔‘‘شی آن میں اسلامی تاریخ کے ڈانڈے تانگ سلطنت کے زمانے سے جڑتے ہیں۔ 

پہلی تعمیر تانگ دَور میں ہوئی، جو 742بعد مسیح کا ہے۔ البتہ منگ سلطنت کے دَور میں اس کی وسعت اور حُسن و خُوب صُورتی میں چار چاند لگے۔ان علاقوں میں مسلمان تاجر وںہی کی بدولت اسلام پھیلا۔ وہ سچّے کھرے،ناپ تول اور قول و فعل میں سونے کی طرح خالص تھے۔ تاجر شاہ راہِ ریشم کے ذریعے ہی یہاں آتے تھے۔ یہی وہ دَور تھا، جب مسلمانوں نے یہاں بسنا شروع کیا اور ان کا ایک قبیلہ ’’ہوئی‘‘ بہت مشہور ہوا۔ انہوں نے یہاں کی مقامی عورتوں کے ساتھ شادیاں کیں اور اپنے دین کی ترویج کے ساتھ مقامی آبادی کا بھی حصّہ بن گئے۔سونگ اور یوان حکم رانوں نے تعمیراتی کام بھی کروائے اور تعمیر شُدہ عمارات کی مرمّت بھی کروائی۔‘‘

ایک پریشان حال خاتون کو دیکھ کر ہم نے وجہ پوچھی تو اس نے بتایا کہ وہ بھی ہماری طرح جائے وضو کی تلاش میں ہے۔ شُکر ہے اسے انگریزی آتی تھی۔ بات چیت کا سلسلہ چل نکلا، تو پتا چلا کہ وہ تنزانیہ سے تھی۔ابھی ہم دونوں گو مگو کی کیفیت میں تھے کہ حجاب میں لپٹی ایک معمّر خاتون ہمارا ہاتھ پکڑ کر گھسیٹنے لگیں اور ہم ہکّابکا سے اُنہیں دیکھنے لگے۔ وہ تو جیسے ہوا کے گھوڑے پر سوار تھیں، ہمیں گھسیٹتی ہوئی تیسرے صحن سے دوسرے، پہلے اور پھر داخلی دروازے سے گزار کر باہر گلی میں لے آئیں اورسعدیہ ہم دونوں کے پیچھے بھاگی بھاگی آرہی تھی کہ اس کی ماں کو کہاں لے جایا جا رہا ہے۔

داخلی دروازے پہ پہنچ کر جب ہم حیران پریشان سے رُکے، تو انہوںنے میرے چہرے پر پھیلے اضطراری تاثرات محسوس کرتے ہوئے دونوں ہاتھوں کو کانوں کے پاس لے جا کر نماز کی تمثیلی صورت کا اشارہ کیا۔یہ مناسب سی کشادگی والی گلی تھی۔دستی ریڑھیاں، ایک دو چنگ چی اور رکشے جیسی سواریاں بھی نظر آئیں۔ مکان سہ اور چار منزلہ ضرور تھے، مگر تناسب اور حُسن کی کمی کاشکار ۔ سڑک پر چلتے پھرتے لوگ بھی بس ماٹھے ہی سے تھے۔ میرا ہاتھ ابھی بھی اُس مہربان سی نظر آنے والی خاتون کے ہاتھ میں تھا۔ 

وہ گلی میں مُڑی، بمشکل پانچ مرلے کے دو منزلہ گھر میں داخل ہوئی، تو اندر روح کی گہرائیوں میں اُتر جانے والا ایک مسحور کُن منظر تھا۔یہ خواتین کی مسجد تھی۔نیچے کا حصّہ وضو کے لیے تھا، جہاں کتنے ہی اجنبی چہرے ماربل کی سلیب پر بیٹھے وضو کررہےتھے، تو چند مَن مو ہنی سی لڑکیاں موزے پہن ، ہاتھوں میں کولڈ کریم لگا رہی تھیں۔ برآمدے میں جتنی خواتین تھیں، انہوں نے ہمیں دیکھتے ہی پیار بھری مسکراہٹ ہونٹوں پر بکھیرتے ہوئے خوش آمدید کہا۔ ہم نے کوٹ اُتارا، وضو کیا۔

ایک پیاری سی لڑکی نے تولیا پیش کیا،تو دوسری نے کریم دی۔ اوپر کی طرف جانے والی سیڑھیاں چڑھے، تو سامنے ایک اور ایمان افروز منظر تھا۔ کمرے میں ہر عُمر کی قریباً پچیس، تیس خواتین نظر آئیں،جن میں سے چند نماز کی اقامت و سجدے کی حالتوں میں تھیں، تو کچھ اذکارمیں مشغول ۔ انہوں نے میٹھی سی مُسکان آنکھوں اور چہروں پر بکھیر کر ہمیں دیکھا۔وہ مسجد اور مناظر دیکھ کر پیٹرز برگ کی نیلی مسجد یاد آرہی تھی کہ وہاں بھی اس سے ملتا جلتا ہی منظر تھا۔’’اللہ اکبر‘‘ کہہ کر ہم وحدانیت کے اُس دھارے میں شامل ہوگئے، جو وہاں بہہ رہا تھا۔

آنسوئوں کی یلغار جو گالوں پر تھی۔ممتا اگر بچّوں کی سلامتی کے لیے دُعاگو تھی، تو حبّ الوطنی وطن کی زبوں حالی پرشکوہ و گریہ کناں تھی۔بات چیت کا کوئی ماحول نہیں تھا کہ ’’زبانِ یارمَن ترکی و من ترکی نمی دانم‘‘ والی بات تھی۔وہاں موجود خواتین کو ہم غیروں کی زبان سے رتی برابر آشنائی نہ تھی، بس مسکراہٹیں تھیں یا آنکھوں سے پھوٹتے کچھ پیار بھرے پیغام۔ درود کی محفل سجی، تو اس میں بھی شامل ہوگئے۔

اتنے میں عمران کا فون آگیا۔ وہ پوچھ رہا تھا کہ ہم کہاں ہیں، بتانے پر مسجد کے مرکزی دروازے پہ آنے کو کہا۔ مسجد سے نکل کر جب سڑک پر آئے، تو دھوپ خدا حافظ کہہ رہی تھی۔ سوچا ’’ہائے! مغرب بھی پڑھ لیتے۔‘‘وہاں کھڑکیوں پر اتنے دبیز پردے تھے اور موبائل پر وقت دیکھنے کا ہمیں خیال ہی نہیں آیا۔ بہرحال ،چلو خیر اِس بات کی بےحد خوشی اور سکون تھا کہ اس اجنبی سرزمین پر اپنے ربّ کو سجدہ کرنے کی توفیق تو نصیب ہوئی۔ چلو اب مسلم کوارٹر کی رنگینیوں سے قلب و نظر کی تسکین اور دہن کی تواضع کرتے ہیں۔ اُف…!!رات کی روشنیوں میں یہاں کے مناظر کی دل کشی بڑی جداگانہ تھی۔ ایسا لگا، جیسے کائنات بُقعہ نور بنی ہوئی ہے۔

کہیں اُمڈتے،کہیں سیدھے کھڑے درختوں کی ٹنڈ منڈ شاخیں، جو بہار کے نئے پتّوں اور شگوفوں کو خوش آمد ید کہتی ایک ہوش رُبا منظر کی گواہ تھیں۔چہل پہل والی آوازوں، رنگا رنگ پکوانوں کی خوشبوئوں،چینی چہروں کی مسکراہٹوں اور زور و شور سے بلاوے ’’حلال حلال… مسلمان… الحمد للہ!!‘‘ جیسی آوازیں بڑی مسحور کُن تھیں۔ بانس سے بنی ٹوکریوں میں خشک میوے سجے تھے، شیشے کے مرتبانوں میں جانے کیا کیا کچھ رکھا تھا۔ تِلوں والے گرما گرم نان، شعلے اُگلتے چولھوں پر چڑھی کڑاھیاں، جن میں طرح طرح کی چیزیں تلی جا رہی تھیں۔ فاطمہ ،خدیجہ، مریم نامی بھرے بھرے چہروں والی نوجوان لڑکیاں سروں پر شیف ٹوپیاں اوڑھے لوازمات بیچ رہی تھیں، تو کہیں باحجاب لڑکیاں چولھوں پر جُھکی مزےدار پکوان بنانے میں مصروف تھیں۔ بھئی سچّی بات ہے، بڑے بڑے پتھروں والی گلیوں میں چلنا ہمیں بڑا مزہ دے رہا تھا۔ 

مسلم کوارٹر کی رونقوں، کھانے پینے کے اسٹالز کی ایک جھلک
مسلم کوارٹر کی رونقوں، کھانے پینے کے اسٹالز کی ایک جھلک

 موسم بہت ٹھنڈا تھا، مگر ہنستے بولتے لوگوں کا ہجوم، بازار کی چکاچوند، روشنیاں اور لذیذ پکوانوں کی خوشبوئیں پاگل کر رہی تھیں۔ دفعتاً ہمیں اسی مسلم کوارٹر پر لکھا ایک مضمون یاد آگیا، جو ہم نے یہاں آنے سے کچھ دن قبل ہی پڑھا تھا۔ اس میں لکھا تھا کہ ’’ایک ہزار سال پرانےہوئی قبیلے کے لوگ، جو یہاں آئے اور پھر یہیں بس گئے۔اُن کی اولاد آج بھی اسی مارکیٹ میں سوینیئرز بنانے کے کام سے وابستہ ہیں۔‘‘ نیز، بنیامین اسٹریٹ کے بارے میں بھی بہت کچھ لکھا تھا۔ ہم نے سوچا کہ جب یہاں تک آئے ہیں، تو ہوئی لوگوں کی دُکانیں بھی دیکھتے جائیں، لیکن بد قسمتی سے ہمیں ان کی ایک بھی دُکان نہ ملی۔ ہاں، البتہ جب ہم گلیوں میں گھوم پھر رہے تھے، تو انگریزی میں ایک بورڈ پر جلی حروف میں ’’Welcome to B Islamic Street‘‘ لکھا نظر آیا۔

وہاں داخل ہوئے توایسا لگا، جیسےاپنا انارکلی والا بانو بازار ۔ اب تو بھئی، بھوک نے بھی غل غپاڑاشروع کردیاتھا۔’’کیا کھانا ہے؟‘‘ ہم تینوں چلتے جا رہے تھے اور ایک دوسرے سے پوچھتے جا رہے تھے۔ ’’بھئی، کچھ کھائیں، نہ کھائیں، لیکن کباب تو ضرور کھائیں گے۔‘‘ ہم نے اپنی خواہش بتائی، جب کہ عمران ہم لوگوں کو قیمہ بھرابن(Rojiamo) کھانے اور کھلانے کا شدید خواہش مند تھا۔ ’’نسرین نے تاکید کی تھی کہ لیانگ پی(چاول کے آٹے کے نوڈلز) کھانا مت بھولنا۔‘‘

مسلم کوارٹر کی رونقوں، کھانے پینے کے اسٹالز کی ایک جھلک
مسلم کوارٹر کی رونقوں، کھانے پینے کے اسٹالز کی ایک جھلک 

سعدیہ نے کہا۔ وہاں بہت رش تھا، جیسے تِل دھرنے کی جگہ نہ ہو، ہم کافی دیر تک بیٹھنے کی جگہ ڈھونڈتے رہے، بالآخر ہم نے ایک میز پر فی الفور قبضہ کرنے کی کوشش کی، جو ہمارے ہی سامنے خالی ہوئی تھی۔پھر کھانا آرڈر کیا، کباب بس ٹھیک تھے، مگر نان ذائقے میں لذیذ اور دیکھنے میں بھی اچھے تھے۔ کھانے سے لطف اندوز ہوتے ہوئے میرے دل میں ایک خیال آیا کہ ’’کل ہفتہ ہے اور عمران کی چُھٹی ہے، تو کیا ہی اچھا ہو، اگر ہم آج رات یہیں کسی ہوٹل میں قیام کرلیں کہ ایک تو تھکن بہت زیادہ ہوگئی ہے اور نیند بھی آرہی ہے۔ اناج نے پیٹ میں جاتے ہی خمار چڑھا دیا ہے۔ جی چاہتا ہے یہیں کہیں لم لیٹ ہو جائیں۔

پھر صبح وہاں جائیں اور اس جگہ کو دیکھیں، جہاں سے شاہ راہِ ریشم کا آغاز ہوا تھا، وہ صحرا دیکھیں، جن کی آج تک صرف تصویریں ہی دیکھی ہیں۔‘‘، مگر سب کچھ دل ہی میں رہا، کہہ نہیں پائے کہ پہلے ہی داماد کا بہت خرچہ ہورہا تھا۔ جب وہاں سے اُٹھے تو مارے تھکن کے اب چلنے کو جی نہیں چاہ رہا تھا۔تاہم، ہمارے پاس اب بھی تین گھنٹے تھے۔دل کہیں اُس پرانے وقتوں کی ’’سِلک مِل‘‘ جانے کا بھی متمنّی تھا۔اسکارف، اسٹول یا کوئی سوینیئر ہی لے لیں۔ ذہن میں کئی پیاروں کے نام اُبھر رہے تھے کہ جن کے لیے ہم تحائف لینا چاہتے تھے۔ سچ تو یہ ہے کہ دیگر خواتین کی طرح شاپنگ کبھی بھی ہمارا شوق نہیں رہا۔

مقامی مسجد میں بعد از نماز دُعا کرتے ہوئے
مقامی مسجد میں بعد از نماز دُعا کرتے ہوئے

مگر یہ چِین تھا، سَستا ترین اور منہگا ترین بھی۔ جب بازار میں خریداری کے ارادے سےگھومے پھرے تو احساس ہوا کہ شی آن بہت سستا شہر ہے۔دیوارِ چِین کا جو سوینیئر پچاس یوان کا بیجنگ سے خریدا تھا، وہ یہاں 35کا ملا، تو ہم نے بھی جھٹ دو خرید لیے، ساتھ کچھ چھوٹی موٹی چیزیں اور لیں۔پھر وقت کیسے بھاگا، کچھ پتا ہی نہیں چلا اور دس بجے ہم اسٹیشن پر تھے۔رَش کا وہی عالم تھا۔ ٹرین میں بیٹھے اورسیٹ پر سر رکھتے ہی نیند کی وادی میں اُتر گئے، وہ وادی، جہاں کہیں دن بھر کے دیکھے گئے مناظر تھے، جہاں تصوراتی اور خیالی دنیا کے وہ پیکر تھے، جنہیں پچھلے چند دنوں سے دیکھ رہے تھے۔ قدیم تاریخ سے لبالب بھرا ماحول، جس نے جپھی ڈالی ہوئی تھی۔

دھان کے کھیتوں کے سلسلے سورج کی کرنوں میں چمکتے، نگاہوں کو لبھاتے، چمکتے سبزے سے ڈھکی پہاڑیوں پر اُگے بانسوں کے جُھنڈ بھرے جنگل، سورج کی سنہری رنگت سے مشابہ گاؤں کی مٹی اور تنکوں کی آمیزش سے ایک اپنایت بھرے تاثر کا حامل ماحول… بڑا مانوس سا منظر تھا، جو اکثر و بیش تر یادوں اور خیالوں میں ابھرتا تھا۔ کبھی ہم صحرائوں میں بھٹکتے نظر آتے، تو کبھی حیرت زدہ سے قافلوں کے اونٹوں کی گھنٹیوں کی مترنّم آوازیں سُنتے۔ انہی حسین وادیوں میں گُم، کب سارا رستہ کٹ گیا، پتا ہی نہ چلا۔ ’’امّی، امّی!! اُٹھیں بیجنگ آگیا…‘‘ سعدیہ نے آواز دی، جھنجھوڑ کر اُٹھایا اور ہم نیند سے بیدار ہوئے، تو پتا چلا کہ ہم واپس پہنچ چُکے ہیں۔ (جاری ہے)

سنڈے میگزین سے مزید