• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

عید الاضحی... ہزار رنگِ طرب، تیرے روئے خنداں پر

تحریر: نرجس ملک

مہمانانِ گرامی: عالیہ بخاری، مریم رانا، الائیہ خان، مہ وش، سہیل بٹ، عمران خان، چوہدری عاطف، عدیل خان۔

ملبوسات: ہاؤس آف حمّاد اشرف، wove

آرایش: بیلا ڈونا لائونج، رِسی سیلون

عکّاسی و اہتمام: ایم۔ کاشف

لے آؤٹ: نوید رشید

انسان خوش ہونے، خوش رہنے کے لیے کیا کیا بہانے نہیں تراشتا، خصوصاً نسلِ نو تو محض اِک ’’خوشی‘‘ کی تلاش میں کسی حد تک بھی جانے کو تیار رہتی ہے۔ یہ خطرناک ترین مہم جوئیاں، ون وہیلنگ، کار ریسنگ، محض ایک اچھی سیلفی یا پوسٹ شیئر کرکے چند لائکس حاصل کرنے کی خواہش میں الٹے لٹک جانا، موت تک کو گلے لگالینا.....یہ سب کیا ہے، دل کا رانجھا راضی کرنے، کچھ وقتی خوشیاں حاصل کرنے ہی کے تو بہانے ہیں۔ 

اور کس قدر افسوس کی بات ہے کہ خالقِ کائنات نے خاص طور پر امّتِ مسلمہ کو خود اپنی جناب سے ذہنی و قلبی، سَچّی و سُچّی، حقیقی و خالص اور مثالی و لافانی خوشی کے حصول کے جو دو خُوب صُورت مواقع عیدین کی (عیدالفطر اور عید الاضحی) صُورت عطا کیے ہیں، اُن کی غرض و غایت، حکمت و فضیلت سے نہ ہم واقف ہیں اور نہ ہی اُنھیں اُن کی اصل روح، فلسفے اور مقصد و مفہوم کے مطابق منانے کی سعی کرتے ہیں۔ 

یاد رہے، رسول اکرمؐ کی مدنی زندگی کے ابتدائی دَور سے عیدین مبارک کے اہتمام کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔ اس ضمن میں حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ ’’اہلِ مدینہ دو دن بطور تہوار منایا کرتے تھے، جن میں وہ مختلف طرح کے کھیل تماشے کیا کرتے، ہنستے بولتے، خوش ہوتے۔ رسول اکرمؐ نے اُن سے(اہلِ مدینہ) پوچھا، ’’یہ دو دن جو تم مناتے ہو، ان کی حقیقت اور حیثیت کیا ہے؟‘‘ (ان تہواروں کی اصلیت اور تاریخی پس منظر کیا ہے؟) انہوں نے عرض کیا، ہم عہدِ جاہلیت میں (اسلام سے پہلے) یہ تہوار اِسی طرح منایا کرتے تھے۔ رسول اکرمؐ نے فرمایا ’’اللہ تعالیٰ نے تمہارے ان دونوں تہواروں کے بدلے، تمہارے لیے ان سے بہت بہتر دو دن مقرر فرمادیئے ہیں۔ 

یومِ عیدالاضحی اور یومِ عید الفطر۔‘‘ (سنن ابودائود) یہ سچ ہے کہ انسان فطری طور پر خوش ہونے، خوش رہنے کی خواہش رکھتا ہے، خصوصاً اجتماعی طور پر کسی تقریب کا انعقاد اُسے سرشاری کی سی کیفیت میں مبتلا کردیتا ہے۔ اور چوں کہ اسلام، عین دینِ فطرت ہے، تو بھلا کیسے ممکن تھا کہ انسان کی ایک فطری و جبلّی تمنّا و خواہش کی آب یاری نہ کرتا۔ سو، ہمیں یہ دو عظیم تہوار ذہنی و عقلی، قلبی و روحانی خوشی سے بہرہ مند و سرشار رکھنے ہی کو عنایت کیے گئے ہیں۔

’’عیدالفطر‘‘ بہت میٹھی سہی، لیکن بہرحال ’’چھوٹی عید‘‘ ہے۔ جب کہ ’’عیدالاضحی‘‘ چوں کہ ایک بہت ہی اہم، عظیم اور یادگار واقعے سے منسوب ہے۔ یہ فریضۂ حج کی تکمیل کے بعد منائی جاتی ہے اور پھر اس تہوار پر کُل امّتِ مسلمہ باقاعدہ تین ایّام تک اللہ کی راہ میں فریضۂ قربانی ادا کرکے جذبۂ عبودیت کے اظہار کے ساتھ یک جائی و سماجی یگانگت کا بھی مظاہرہ کرتی ہے، تو یہ دونوں عیدوں میں بڑی اور افضل و محترم عید ہے۔ نبی اکرمؐ کا فرمان ہے، ’’یقیناً یوم النحر (عیدالاضحی کا دن) اللہ تعالیٰ کے یہاں بہترین دن ہے۔‘‘ آپؐ نے ایک اور جگہ فرمایا، ’’یومِ عرفہ، یوم النحر اور ایّامِ تشریق (عیدالاضحی کے بعد والے تین روز) ہم اہلِ اسلام کے عید کے دن ہیں اور یہ سب کھانے پینے کے دن ہیں۔‘‘ تو اندازہ لگائیے، عیدالاضحی (بڑی عید) درحقیقت کتنی بڑی عید ہے۔ 

اب سوال یہ ہے کہ ہم اس بڑی عید کے بڑے تقاضے پورے کرکے ایک بڑی، سچّی اور دائمی خوشی حاصل کرنے کے بجائے عارضی خوشیوں کی تلاش میں مارے مارے کیوں بھٹک رہے ہیں۔ ذرا اس بار، اس ’’عیدِ قرباں‘‘ کو اس کے اصل معنی و مفہوم، مقصد و روح کے ساتھ (جیسا کہ فرمانِ الٰہی ہے، ’’اللہ تعالیٰ کو نہ تو قربانی کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ خون بلکہ اسے تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔‘‘) منانے کی ایک سعی تو کیجیے۔ اپنے تقویٰ کی بدولت آپ غریبوں، ناداروں، مسکینوں، یتیموں اور بیوائوں کے چہروں پر فرحت و انبساط، تشکّر و ممنونیت کے جو اَن گنت رنگ بکھرے دیکھیں گے، بخدا وہ آپ کو اگلی عیدِ قرباں تک مسرور و مسحور رکھیں گے۔

بڑی عید کے کچھ لوازمات، حقیقی خوشی کے رنگوں سے مزّین یہ ’’عیدالاضحیٰ اسپیشل بزم‘‘ آپ کے لیے ہے۔ ہماری جانب سے ’’عیدالاضحی‘‘ کے عنوان سے لکھی گئی اِس فکر انگیز نظم کے ساتھ کہ ؎ ’’ہزار جشنِ مسّرت تِرے گلستاں میں.....ہزار رنگِ طرب، تیرے روئے خنداں پر.....جُھکی ہے شوکتِ کونین تیرے قدموں میں.....پڑا ہے سایہ تِرا اوجِ سربلنداں پر.....تِری حیات کا مسلک، تِرے عمل کا طریق.....اساس اس کی ہے کیشِ وفا پسنداں پر.....تجھے عزیز تو ہے سنّتِ براہیمیؑ تِری چُھری تو ہے حلقومِ گو سفنداں پر.....مگر تجھے اس بات کا خیال آیا.....تِری نگاہ نہیں، دردِ درد منداں پر۔‘‘ آپ سب کو تہہ دل سے بڑی عید کی بڑی بڑی خوشیاں  مبارک ہوں۔