• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسلام کے مقدس نام پر بننے کے دعویداراس اسلامی جمہوریہ میں امارت وغربت میں عرش وفرش سے بھی بڑھ کر فرق وامتیاز نے درحقیقت یہاں شاعرِمشرق کے تصورکے قطعی برعکس دو پاکستان کا عملی ثبوت فراہم کیا ہے۔ قیام ِپاکستان سے قبل جو جو نعرے تھے اُسے آپ یہاں اُلٹ دیکھ سکتے ہیں ،نام تو اسلام کاہے یا پھر بڑے تفاخر سے اسے اسلام کاقلعہ کہاجاتاہے لیکن عملی اعتبارسے اس ’’قلعے‘‘ میں صرف طاقتور ہی محفوظ ومامون ہیں ،وہ بلاروک ٹوک غریبوں کا خون نچوڑ کرہر روز نئی شان ونئی آن سے توانا اور مزید سیم وزرکے مالک ہورہے ہیں، جہاں زرداروں کے اس پاکستان میں ہر طرف عیش وعشرت وشادیانے ہیں وہاں دوسری طرف غریبوں پر تنگ ہوتی اس سرزمین میں جو پاکستان سامنے ہے اُس کی تصویر ذیل کے اس لرزہ خیز واقعہ سے آسانی سے واضح ہوسکتی ہے۔ 

گزشتہ روز ایک مسجد سے کئے جانے والے اعلان سے کلیجہ مسل کر رہ گیا۔ایک صاحب جن کاانتقال ہوا تھا،اُس کے گھروالوں کے پاس کفن دفن کیلئے پیسے نہیں تھے،لوگوں سے مدد کی اپیل کی جارہی تھی۔وطن عزیز میں ایک طرف یہ عالم ہے تو دوسری طرف ایک نجی ایئرلائن کے دوست بتارہے تھے کہ 6لاکھ روپے کا ٹکٹ لینےوالے ایک پاکستانی نے مجھےدس بارہ ممالک کے نام گنوائے،اورمجھے مدعوکرتےہوئےبتایا کہ ان تمام ممالک میں اُن کی رہائش گاہیں ہیں۔ باالفاظ دیگر جہاں ایسے پاکستانی ہیں کہ ملک کے ہر بڑے شہر کے علاوہ بیرون ملک بھی اُن کی کوٹھیاں اوربینک بیلنس ہیں وہاں غالب اکثریت کے پاس دووقت کی روٹی اورعلاج کیلئے بھی پیسے نہیں ہیں۔ فرعونوں کا یہ دلچسپ عقیدہ تھا کہ مرنے کے بعد جب وہ دوبارہ زندہ کئے جائیں گے تو انہیں دنیا ہی کی طرح مال و اسباب کی ضرورت پیش آئے گی، اس لئے قبروں میں میت کے ساتھ ان کی ہر ضرورت و آسائش کا پورا پورا انتظام کر دیا جاتا تھا۔ یہاں تک کہ ما ل دار دوشیزائوں کیلئے سامان حُسن مثلاً غازہ، اُبٹن، کنگھی، آئینہ وغیرہ تک رکھ دیا جاتا، جیسے مرنے کے بعد بھی جی اٹھنے پر انہوں نے وہی کچھ کرنا تھا جو دارِ فانی میں کرتے تھے!

غلہ اور پکا ہوا کھانا بھی رکھ دیا جاتا تھا، پوشاک، سواری، شکار کا سامان، غرض یہ کہ اس قدر ساز و سامان کہ اس پر ایک ضخیم کتاب لکھی گئی ہے۔ فرعونوں کےبرآمد شدہ ایسے سامان کی تفصیل ایک با تصویر کتاب موسومہ ’’طوت النخ عامون کی زندگی اور موت‘‘ میں موجود ہے ’’طوت النخ عامون کا خزانہ‘‘ میں بھی دلچسپ معلومات موجودہیں۔ایلیٹ اسمتھ نے پہلی مرتبہ فرعونوں کی حنوط شدہ لاشوں پر ایک تحقیقی کتاب لکھی ، اہرامِ مصر کے نام سے مشہور یہ قبریں دراصل مصر کے بادشاہوں (فراعین)، ان کے قرابت داروں ، زرداروںاور طاقتوروں کی ہیں، فرعونوں کی لاشوں پر مسالہ لگا کر تابوت میں رکھ دیا جاتا تھا، مصری باشندے لاشوں کو محفوظ بنانے کا فن جانتے تھے، متعدد فرعونوں کی لاشیں آج لندن کے عجائب گھر میں محفوظ ہیں۔ آج سے 6ہزار سال قبل کے تعمیر شدہ ’’فرعون خوفو‘‘ کے اہرام سے متعلق نپولین کا اندازہ تھاکہ ’’اگر اس ہرم کے پتھروں کو نکالا جائے تو ان پتھروں سے دس فٹ اونچی اور ایک فٹ چوڑی ایسی دیوار بنائی جا سکتی ہے جو پورے فرانس پر محیط ہو گی۔‘‘اس ہرم میں 25لاکھ پتھر لگائے گئے، ہر پتھر کا وزن 50من تھا بعض کا وزن420من بھی تھا، اس زمانے میں مشینیں وغیرہ نہیں تھیں، ہر پتھر کو بنی اسرائیل کے’’بیگاری مزدور‘‘ گھسیٹ کر لے جاتے تھے یوں ایک فرعون کی تدفین کے دوران ہزاروں مزدور جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے۔

مسلمانوں کا عقیدہ ظاہر ہے وہ تو نہیں ہے جو فرعونوں کا تھا کہ دوبارہ جی اٹھ کر پھر یہی خزانے کام آئیں گےلیکن موجودہ دو پاکستان میں ایک پاکستان کے ارب پتیوں کے استحصال سےنجات کی بہرصورت یہی عملی صورت موجود ہے! سیم وزر پر سانپ بنے بیٹھےایسے شخص کے متعلق مگر قرآن عظیم میںرب العالمین کا یہ ضرور فرماناہے ’’وہ خیال کر رہا ہے کہ اس کا مال اس کے پاس سدا رہے گا‘‘مگر ساتھ ہی ساتھ اس خیال کو باطل قرار دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی تنبیہ یہ ہے، ’’ہرگز نہیں، وہ شخص ایسی آگ میں ڈالا جائے گا جس میں جو کچھ پڑے وہ اس کو توڑ پھوڑ دے۔‘‘ (سورہ ہمزہ)جب جب میں وطن عزیز میں انسانی استحصال کی نت نئی شکلیں دیکھتاہوں تو سوچتا رہ جا تاہوں کہ ہم کیونکر یہ دعویٰ کرسکتے ہیں کہ ہم بہتر مسلمان ہیں، سوال تو یہ ہے کہ کیاہم مسلمان بھی ہیں؟

تازہ ترین