ڈاکٹر امان اللہ اچکزئی
’’حج ‘‘اسلامی عبادات میں بنیادی اہمیت کا حامل ایک مقدس دینی فریضہ اور عظیم رکن ہے۔ اس کے لفظی معنی ’’قصدوارادہ ‘‘کے ہیں، اسلام میں یہ لفظ خانۂ کعبہ کے قصد وارادے کے لیے استعمال ہوتا ہے، تاکہ مکہ مکرمہ جاکر بیت اللہ کا طواف اور مکہ مکرمہ کے مقدس مقامات پر حاضر ہوکر حج کے جو مناسک ہیں اور جو عبادات، اعمال اور آداب ہیں عبدیت ِ الہٰی کے طور پر بیک وقت، ایک مقام، ایک آواز اور ایک لباس میں ملبوس ہوکر پورے عالم ِاسلام کے مسلمان خواہ وہ مشرق کے رہنے والے ہوں یا مغرب کے، خواہ وہ شمال کے ہوں یا جنوب کے، خواہ وہ عرب ہوں یا عجم ،خواہ وہ کالے ہوں یاگورے۔
دنیا کے کسی بھی کونے کے مسلمان ہوں، وہ اپنے رب کے سامنے عجز وانکساری کا اظہار کرتے ہوئے یہ عظیم عبادت بجالاتے ہیں۔ اس موقع پرتمام عالم کے مسلمان بارگاہِ ایز دی میں حاضر ہوکر باہمی اخوت کا مظاہرہ کرتے ہیں، عالم اسلام کے مسلمان حجاز ِ مقدس کی سرزمین پر لبیک اللّٰھم لبّیک کی صدائیں بلند کرتے نظر آتے ہیں۔ مسلمانانِ عالم کواس مساویانہ اجتماع سے پیداشدہ عملی مساوات کے نمونے کو سامنے رکھ کر اپنی پوری زندگی میں اسی مساوات اور باہمی برابری کا درس ملتا ہے۔
اسی بناء پر شریعت ِاسلامی نے کعبۃ اللہ کو سارے انسانوں کا قبلہ قراردیا، چناںچہ حدیث سے ثابت ہے کہ کوئی نبی دنیا میں ایسے نہیں گزرے کہ انہوں نے اس قبلے کا طواف نہ کیا ہو اور ظاہر ہے کہ جب سارے انبیاءؑ بیت اللہ کی عظمت اور اس سے عشق ومحبت کرتے نظر آتے ہیں اور اسے اپنا قبلہ تسلیم کرچکے ہیں تو قدرتی طور پر ان کے ماننے والی قوموں کا قبلہ بھی یہی بیت اللہ ثابت ہوتا ہے۔ قرآن ِ کریم نے بھی یہی درس دیا ہے کہ قبلے کی وضع دنیا کے سارے انسانوں کے لیے ہوئی ہے۔
حج قرآن ِ کریم کی رو سے اس دنیا میں ایک عالمی اجتماع ہے جس میں پوری دنیا کے چپے چپے سے لوگ یکسانیت کے ساتھ اس عظیم عبادت میں حصہ لیتے ہیں، اس مقدس عمل کے نتیجے میں قدرتی طور پر تمام عالم ِاسلام کے لوگوں میں باہمی اخوت، بھائی چارہ اور مساوات کاجذبہ ابھرتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ حج کے عظیم الشان اجتماع میں پوری دنیا کے لوگوں کی صورتوں میں مساوات بھی نظر آتی ہے، صرف اسی پر قناعت نہیں رکھی گئی کہ اقوام ِعالم ہی یکساں رہیں، بلکہ آنے والے افراد میں بھی باہم یکسانی رونما ہو، لباس سب کا ایک ہو، وضع ایک، افعال ایک اور یکساں ہوں ،امیر غریب، بادشاہ وگدا، خواص وعوام ایک ہی لباس میں ،ایک ہی احرام میں ،ننگے سر یکساں فقیرانہ انداز سے اس بیت ِکریم کے ارد گرد جمع ہوں، احرام بندھا ہوا ہے اور ایک وضع، ایک رخ ہوکر اس بیتِ کریم کے ارد گرد پروانوں کی طرح چکر لگائیں ،طواف کریں اوراس پر جاں نثاری کا ثبوت دیں۔
ارشاد ِباری تعالیٰ ہے ۔’’اگر حج میں کچھ اسباب ِ تجارت ہمراہ لے جانا، مصلحت سمجھو تو تمہیں اس میں ذرا بھی گناہ نہیں کہ حج میں معاش کی تلاش کرو۔ (جو تمہاری قسمت میں) تمہارے پروردگار کی طرف سے (لکھا) ہے۔‘‘ (سورۃ البقرہ) ایک اور مقام پر قرآن ِ حکیم میں اللہ تعالیٰ نے اسی عنوان سے اس اجازت کو کچھ اس طرح دہرایا کہ اس میں ترغیب دینے کی شان بھی پیداہوگئی ،جہاں حضرت ابراہیم ؑ کو حج کا اعلان عام کردینے کا امر فرمایا گیا، وہیں یہ بھی ارشاد فرمایا گیا جس کا مفہوم ہے ۔’’تاکہ وہ اپنے فوائد کے لیے آموجود ہوں ۔‘‘(سورۃالحج)
اس اعلان سے لوگ پیدل اور دبلی پتلی اونٹنیوں پر جو دور دراز راستوں سے پہنچی ہوں گی، چلے آئیں گے۔ مذکورہ بالاآیت سے معلوم ہوتا ہے کہ منافع کا لفظ عام ہے جس میں اولیت کے ساتھ حج کے اخروی منافع جیسے رضا ئے الٰہی، اجروثواب اور آخرت کی ترقی درجات بھی شامل ہیں اور ثانویت کے ساتھ دنیوی منافع جیسے قربانی کا گوشت کھانا و کھلانا، تجارت، معیشت یا علاج معالجہ وغیرہ سے مال کمانابھی شامل ہیں۔
حج میں حسن ِسلوک بھی ہے ،قرآن ِ کریم نے حج کی قربانی میں غرباء اور ضرورت مندوں کی رعایت فرمائی اور اس حسن ِ سلوک کا سلسلہ بھی عالمی بنادیا، چنانچہ ارشاد ِباری تعالیٰ ہے: سو ان قربانیوں کے جانوروں میں سے خود بھی کھاؤ اور مصیبت زدہ محتاجوں کو بھی کھلاؤ ۔‘‘(سورۃالحج) غرض حج میں جیسے عالمی اخوت ومساوات رکھی گئی ہے، ویسے ہی مالی تعاون کو بھی بین الاقوامی وعالمی بنادیا گیا ہے۔