چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللّٰہ نے کہا ہے کہ اسلام آباد کے رہائشیوں سے 50 سال پہلے زمینیں چھین لی گئیں، ان کی زمینوں پر بڑے بڑے محل تو بن گئے لیکن ان کو معاوضہ نہیں ملا۔
وفاقی دارالحکوت میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ کوئی شک نہیں کہ ایک موثر عدالتی نظام ہونا انتہائی ضروری ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پٹوار خانے اور تھانے کی ناانصافیوں سے متاثرہ شخص عدالت آتا ہے، عدالتوں کے سائلین ہی نہیں بلکہ ججز کے بھی حقوق پامال ہوتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ میرے پاس ایک ایسا کیس آیا جو 50 سال پہلے سے زیر التواء ہے، جو درخواست گزار تھا، وہ اور اس کی بیوی دونوں فوت ہو چکے۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ اس بات سے انکار نہیں کہ عدلیہ میں بھی ناانصافی موجود ہے، جو 12 سال جیل میں رہا اور بری ہو گیا، اس کے وہ سال اسے کون لوٹائے گا؟
ان کا کہنا تھا کہ عدلیہ ریاست کی کبھی ترجیح ہی نہیں رہی، اسلام آباد کی ضلعی عدالتیں کمرشل پلازوں میں بنی رہی ہیں۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ گزشتہ حکومت نے ہماری بات سمجھی، اب نیا کمپلیکس تیار ہونے کے قریب ہے۔
انہوں نے کہا کہ جو ہائی کورٹ تک رسائی کی استطاعت نہیں رکھتے، یہ پراجیکٹ ان کے لیے ہے، یہ پراجیکٹ اصل اسٹیک ہولڈرز سائلین کے لیے ہے جس کا تصور ہمیں آئین سے ملا۔