مولانا حافظ عبد الرحمٰن سلفی
فرمان باری تعالیٰ ہے: ہم نے آپ کو کوثر عطا کیا ہے ،پس اپنے رب کے لئے نماز پڑھیے اور قربانی کیجئے، یقیناً آپ کا دشمن ہی بے نام و نشان رہے گا۔(سورۃ الکوثر)
کسی بھی بخشش اور فیاضی کا انتہائی بڑا درجہ ایثار ہے کہ ایک شخص دوسروں کو آرام و راحت یا خوشی پہنچانے کی خاطر اپنے عیش و آرام کو چھوڑ دے، یعنی خود بھوکا رہ کر دوسروں کو کھلائے، خود پیاسا رہ کر دوسروں کو پلائے یا خود تکلیف برداشت کرکے دوسروں کے آرام و راحت کا سامان مہیا کرے، غرض یہ کہ دوسروں کی ضروریات کو اپنی ضرورت پر مقدم رکھنے کو ایثار یا قربانی کہتے ہیں۔ یہ انسانی شرافت کا بہترین وصف و جوہر ہے، جیسا کہ اہل ایمان کے بارے میں مالک کائنات قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: ترجمہ: اپنے اوپر(اہل ایمان) دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں، گوخود ہی ضرورت مند کیوں نہ ہوں۔ (سورۃ الحشر)
اسلام میں اس عالی و صف کی بے شمار مثالیں موجود ہیں، لیکن اس ایثار سے بڑھ کر فیاضی و بخشش کا سب سے بڑا اور سب سے آخری درجہ قربانی ہے کہ بندہ دوسروں کی خاطر اپنی جان تک قربان کردے۔
قربانی کے معنی یہ ہیں کہ ہر وہ کام جس سے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی ،قربت اور نزدیکی حاصل ہوتی ہو ،خواہ وہ نماز ہو، زکوٰۃ ہو، روزہ حج ہو یا اللہ کی مرضی کے مطابق جہاد کے ذریعے اپنی جان تک لٹادینا ہو، یہ سب کام اگر اللہ کی رضا کے حصول کے جذبے کے تحت کئے جائیں تو قربانی ہی کہلائیں گے۔
البتہ سب سے عظیم قربانی اپنی جان کی فداکاری ہے جو اللہ کے راستے میں کی جائے۔ قربانی میں اخلاص و نیت کی درستی کو بڑا دخل حاصل ہے۔ اللہ کے نزدیک وہی قربانی حاصل ستائش ہے جو حصول رضائے الٰہی کے جذبے کے تحت کی گئی ہو، جیسا کہ قرآن مجید میں آدم علیہ السلام کے دونوں بیٹوں کے بارے میں آیا : ترجمہ: دونوں نے اپنی اپنی قربانیاں پیش کیں ایک کی قربانی مقبول ہوئی ،دوسرے کی قبول نہیں ہوئی۔ گویا قربانی کی مقبولیت کا دارومدار نیت کی درستی پر ہے اور سب سے بڑھ کر اللہ رب العالمین کی رضا پر منحصر ہے۔
فلسفہ قربانی ابتدائے آفرنیش سے ہی انسانیت میں مختلف انداز میں موجود رہا ہے۔ یہودیت و عیسائیت میں بھی قربانی کا وجود ملتا ہے۔ ان کے علاوہ دیگر الہامی وغیرالہامی مذاہب میں بھی قربانی کا فلسفہ کسی نہ کسی انداز میں موجود ہے۔ اسلام میں قربانی کی بہت عظمت و اہمیت ہے۔ بالخصوص جاں نثاری کی تو بہت ہی فضیلت ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ ترجمہ: جو اللہ کے راستے میں شہید ہوگئے ہیں ،انہیں تم مردہ مت کہو ،بلکہ وہ زندہ ہیں، لیکن تمہیں اس کا شعور نہیں۔(سورۃ البقرہ)
گویا قربانی جان و مال دونوں طرح سے اللہ کے ہاں مقبول ہے۔ قربانی سنت ابراہیمی ؑ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سے جان و مال کی قربانی کا تقاضا کرتا ہے اور اس نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام سے اپنے لخت جگر کی قربانی کا تقاضا کیا اور انہوں نے اس حکم کو بجالاکر رہتی دنیا تک کے لئے مثال قائم فرمادی۔ ترجمہ:’’ اور ابراہیم ؑنے کہا، میں اپنے رب کی طرف جارہا ہوں ،وہ میری رہنمائی فرمائے گا۔ اے میرے رب، تو مجھے نیک اولاد عطا فرما۔ ہم نے اسے نیک لڑکے کی بشارت دی۔
چنانچہ وہ حلیم لڑکا پیدا ہوا، جب وہ ابراہیم ؑ کے ساتھ چلنے پھرنے اور دوڑنے کے لائق ہوگیا تو ابراہیم ؑنے کہا کہ بیٹے میں نے خواب دیکھا ہے کہ میں تمہیں ذبح کررہا ہوں۔ بیٹا تمہارا کیا خیال ہے؟ بیٹے نے کہا ،ابا جان جو آپ کو حکم دیا گیا ہے، وہ کرڈالیے۔ اللہ نے چاہا تو آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے، جب باپ بیٹے دونوں اس کام کے لئے مستعد ہوگئے اور باپ بیٹے کو ذبح کرنے کے لئے پیشانی کے بل پچھاڑنے لگے‘ تو ہم نے ابراہیم ؑ کو پکارا‘ تم نے اپنے خواب کو سچا کر دکھایا۔ ہم نیکو کاروں کو اسی طرح بدلہ دیتے ہیں۔ یقیناً یہ کھلی آزمائش تھی اور ہم نے اس کے بدلے ایک بڑی قربانی دی اور ہم نے ان کا ذکر خیر پچھلے لوگوں میں باقی رکھا ۔ ابراہیم ؑ پر سلامتی ہو ،ہم نیکوں کاروں کو اسی طرح بدلہ دیتے ہیں۔(سورۃ الصّف)
اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے پیغمبرؑ کو ان کے ایثار و قربانی کا یہ صلہ دیا کہ رہتی دنیا تک کے لئے ان کی قربانی کو اُمت مسلمہ میں یادگار کے طور پر زندہ رکھا، جب تک مسلمان روئے زمین پر موجود ہیں، وہ آقا ﷺ کی پیروی اور سنت ابراہیمی ؑ پر عمل کرتے رہیں گے۔ اس طرح تاقیامت یہ قربانی یادگار کے طور پر باقی رہے گی۔
دراصل جانوروں کی قربانی کرانے کا مقصد بھی یہی ہے، اُمت اپنے رب کے ہر فرمان پر فداکاری کا مظاہرہ کرے، یہاں تک کہ اگر جان بھی دینی پڑجائے تو گریز نہ کیا جائے، حالانکہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام ،سیدہ ہاجرہ اور سیدنا اسماعیل علیہ السلام کو ورغلانے کے لئے شیطان نے ہر حربہ استعمال کیا، لیکن ان پاکباز ہستیوں نے اس کے تمام حربے ناکام بنا کر اپنے رب کے فرمان کو مقدم رکھا اور اللہ کی رضا کے حصول میں مشغول ہوگئے۔
چنانچہ قربانی کا فلسفہ یہی ہے کہ ہم جانوروں کی قربانی کرتے ہوئے ان جذبات کو اپنے دلوں میں بسالیں کہ اگر اللہ کے فرمان کی بجا آوری کے لئے ہمیں اپنی جانیں بھی لٹانی پڑیں تو دریغ نہیں کریں گے۔ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: یوم الخر قربانی کے دن کوئی عمل انسان کا اللہ کے نزدیک قربانی سے زیادہ محبوب نہیں ہے اور قربانی کا جانور قیامت کے دن اپنے سینگوں، بالوں اور کھروں سمیت آئے گا اور قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ کے نزدیک قبولیت کے درجے کو پہنچ جاتا ہے، پس چاہئے کہ قربانی بہت خوشی سے کرو۔ (ترغیب و ترہیب)
ہمیں بھی اللہ کی رضا کے حصول اور سنت مصطفوی ﷺ کی پیروی کے پاکیزہ جذبات کے ساتھ قربانی کی سنت ابراہیمی ؑ ادا کرنی چاہئے، تاکہ ہم سے ہمارا رب راضی ہو اور ہمیں جنت کی لازوال نعمتوں سے سرفراز فرمائے ۔(آمین یا رب العالمین)