ڈاکٹر امان اللہ اچکزئی
اسلامی تقویم (کلینڈر)کے مطابق ماہ ِذوالحجہ ہر سال کی طرح اس سال بھی اپنے جلو میں اسلام کی دو اہم عبادتیں لے کر آیا ہے، ایک حج اور دوسرا قربانی، اطراف عالم میں چہار سُو بکھرے ہوئے مسلمانوں کی ایک اچھی خاصی تعداد ایک طرف حجاز مقدس کی سرزمین پر ’’لبیّک اللھم لبیّک‘‘ کہتے ہوئے حرمِ محترم کی طرف بڑھ رہی ہے ، دوسری طرف پورے عالمِ اسلام میں امتِ مسلمہ سنت ابراہیمی کی پیروی میں مصروفِ عمل ہے۔
ابوالانبیاء سیدنا حضرت ابراہیمؑ خلیل اللہ نے آج سے ہزاروں سال پیش تر عظیم قربانی کی صورت میں حکمِ خداوندی کی جو صدا بلندفرمائی تھی، وہ مسلسل خالقِ کائنات کی تخلیق شدہ کائنات کی فضاؤں میں آج بھی برابر گونجتی رہتی نظرآرہی ہے، بعد میں ہر آنے والے دیگر حضرات انبیائے کرام علیہم السلام کی جہدِ مسلسل اور محنتوں نے اس تسلسل کو مزید قوت عطا کی، یہاں تک کہ امام الانبیاء، خاتم النبیین، سیدناحضرت محمد مصطفیٰ احمد مجتبیٰ ﷺکی قربانیوں، آپ ﷺ کی مسلسل محنت وکاوش اور جذبۂ تبلیغ کی بےتابی نے اس آواز کو وہ تسلسل، جماؤاور قوت عطاکی جوعصرِ حاضر میں ہمیں جابجا نظر آتی ہے۔
اللہ تعالیٰ کے حکم کی اطاعت اور حضرات ِانبیائے کرام ؑکے اسوۂ حسنہ کی پیروی کایہی جذبہ ہے جس کامظہر آج بھی اس پُرآشوب اور پُرفتن دور میں عالمِ اسلام کے مسلمانوں میں زندہ وتابندہ ہے۔ سیدنا حضرت ابراہیم ؑ نے اللہ تعالیٰ کے حکم کی اطاعت کرتے ہوئے وہ کام کرنے کا عزمِ مصمم کرلیا ،جسے سوچ کر بھی عصرِ حاضر میں صرف مسلمان نہیں، بلکہ ایک عام انسان کے ہاتھ پیر کانپ جاتے ہیں، اکلوتے فرزندِارجمند (حضرت اسمٰعیل علیہ السلام)کی قربانی کا حکم کوئی معمولی حکم نہ تھا، مگر حضرت ابراہیمؑ کاایمان کامل ومکمل اور قوی تھا،انہوں نے وہ حکم بھی خالقِ ارض وسماء کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے رب کی توفیق سے پورا کرکے دکھایا جو بطورِوحی خواب کے اندر انہیں دیکھایا گیا۔
قرآن ِکریم میں ارشاد ہے:"ہم نے انہیں آواز دی کہ ابراہیمؑ! تم نے خواب کو سچ کر دکھایا، ہم مخلصین کو ایساہی صلہ دیا کرتے ہیں، حقیقت میں یہ تھا بھی بڑا امتحان، اور ہم نے ایک بڑا ذبیحہ اس کے عوض میں دیا اور ہم نے بعد میں آنے والوں میں یہ بات ان کے لیے رہنے دی کہ ابراہیم پر سلام ہو،ہم مخلصین کو ایساہی صلہ دیا کرتے ہیں۔ (سورۃالصافات)یہ وہی قربانی ہے جس کا ہجرت کے بعد ہر صاحبِ حیثیت مسلمان (مردعورت) کوحکم دیا گیا تھا اور جسے محمد رسول ﷺ اپنی حیاتِ طبیہ میں مسلسل اداکرتے رہے ہیں، چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے مروی ہے:"رسول اللہ ﷺ مدینہ منورہ میں دس سال رہے تو قربانی کرتے رہے۔" (ترمذی) قربانی کے مناظرومظاہر عیدالاضحی کے تین دنوں میں ہمیں مختلف مقامات، علاقوں، گھروں، بستیوں، شہروں اور ملکوں میں جگہ جگہ نظر آتے ہیں اور مسلمان بڑھ چڑھ کر اس عبادت میں حصہ لیتے ہیں تن من دھن کی قربانی کا یہی جذبہ ہے جو مسلمان قوم کو زندہ رکھتاہے، اس کے اندر اطاعت کی روح پھونکتا ہے اور اسے ان جلیل القدر انبیائےکرام علیہم السلام کے نقشِ قدم پر چلاتاہے،جن کاوہ نام لیوا ہے۔
ذوالحجہ کا مہینہ حج وقربانی کے انہیں دلآویز مناظرِ محبت کا مہینہ ہے، یہ مہینہ ہمیں سبق سکھاتا ہے کہ ہمہ وقت اپنے پروردگارکی اطاعت اوراس کے لیے تیار رہنا چاہئے ،گھر بار، مال ودولت یہ سب اللہ تعالیٰ کی عطاکردہ نعمتیں ہیں جو انسان کو عطا ہوئی ہیں، یہ تمام چیزیں ایک معین مدت کے لیے امانت ہیں اور ان نعمتوں کی قدر دانی کرتے ہوئے اور ان پر شکرِخداوندی بجا لاتے ہوئے اس بات کے لئے ہمہ وقت تیار رہےکہ ان سب چیزوں کو زندگی میں اللہ تعالیٰ کے حکم پر قربان کرسکے، اپنے جذبات واحساسات کو ہمیشہ احکامِ شریعت کے تابع رکھے، ہر صورت اپنے احساسات اور جذبات کوقربان کرکے اللہ تعالیٰ کے حکم کی مکمل اطاعت کرنا ہی ایک کامل مسلمان کاشیوہ ہے،جس کا بہترین مظاہرہ حج وقربانی میں ہوتا ہے اور جس کا عملی نمونہ انبیائے کرامؑ کے اسوۂ حسنہ کی شکل میں ہمارے سامنے موجود ہے۔
قربانی سے ہمیں یہ بھی سبق ملتا ہے کہ مال ومتاع ، آل واولاد ،آرام وراحت اور نفس وجان کی قربانی کایہ جذبہ بھی حدودِ شریعت کا پابند ہونا چاہئے جس طرح اللہ کے ہاں مقبول حج وہی ہے جو حدودِ شریعت کے دائرے میں کیا جائے اور جس میں قدم قدم پر اتباعِ سنت کوملحوظ رکھا گیا ہو بعینہٖ قربانی بھی وہی مقبول اور درست ہے جو طریقہ رسول اللہ ﷺنے متعین فرمایا ہے۔
نبی کریم ﷺ کی سنت کے مطابق اس کی ادائیگی ہی جنت کی ضامن ہے جس کی بشارت رسول اللہ ﷺ نے ہمیں دی ہے ۔اللہ تعالیٰ ہمیں آرام وراحت اور تن من دھن کی قربانی کاوہ جذبہ عطا کرے جو ایک مسلمان کو سچاوپکا مسلمان بنا دیتا ہے اور پھر اسی جذبےکے لیے وہ طریقہ اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے جو رسول اللہﷺ نے ہمارے لیے تجویز فرمایا اور جس میں دنیا وآخرت کی فلاح و کامیابی کا راز پوشیدہ ہے۔ (آمین)