’’آہ! میرا تو دِل ہی ٹوٹ گیا ‘‘،’’آپ نے میرا دِل توڑ دیا‘‘، ’’مجھے اس بات سے دِلی تکلیف پہنچی ہے‘‘ اس طرح کے جملے عمومی طور پر علامتی معنوں یا بطور محاورات استعمال کیے جاتے ہیں، لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ طویل تحقیق کے بعد 1990ء میں ’’ٹوٹا ہوا دِل‘‘ ایک عارضہ تسلیم کرلیا گیا ہے، جسے طبّی اصطلاح میں بروکن ہارٹ سینڈروم، اسٹریس کارڈیو مایوپیتھی یا ٹی سی ایم (Takotsubo Cardiomyopathy) بھی کہا جاتا ہے۔
دراصل، جاپان میں آکٹوپس پکڑنے کے لیے ایک چوڑے، مگر تنگ گردن والے آلے یا برتن کوTakotsubo کہا جاتا ہے اور چوں کہ اس سینڈروم میں دِل کے بائیں وینٹریکل کی شکل اس آلے سے مشابہت رکھتی ہے، تو اسی وجہ سے اسے Takotsubo کا نام دیا گیا ہے۔
بروکن ہارٹ سینڈرم ایک عارضی اور ٹھیک ہو جانے والی دِل کی حالت کا نام ہے۔ اگرچہ اس سینڈروم کی علامات دِل کے دورے جیسی ہی ہوتی ہیں، جیسے سانس لینے میں تکلیف اور سینے میں درد وغیرہ، لیکن یہ علامات تب ہی ظاہر ہوتی ہیں، جب اچانک ہی کوئی جسمانی یا ذہنی دباؤ دِل کے پٹّھوں کے تیزی سے کم زور ہونے کا سبب بنے۔ اس حالت میں دِل کی زیادہ تر شریانوں میں خون کی فراہمی معطل نہیں ہوتی، اس لیے دِل کو مستقل طور پر کوئی نقصان نہیں پہنچتا اور زیادہ تر مریض جلد ہی مکمل طور پر صحت یاب ہو جاتے ہیں۔
بروکن ہارٹ سینڈروم کے ذہنی دباؤ کے اسباب میں کسی عزیز کی موت، کوئی گہرا صدمہ یا دُکھ مثلاً، طلاق، رشتہ ختم ہوجانا، نوکری سے نکال دیا جانا، روپے پیسے کی تنگی، پالتو جانور کا مرجانا، اچانک ہی کوئی اچھی یا بُری خبر سُن لینا، شدید خوف مثلاً ڈکیتی، کار حادثہ، شدید غصّہ وغیرہ شامل ہیں، جب کہ جسمانی دباؤ میں شدید درد، تھکا دینے والی جسمانی مشقّت، دَمے کا اٹیک، سانس لینے میں دشواری، فالج، تیز بخار، خون میں شکر کی کمی، اینیمیا اور کوئی میجر سرجری وجہ بن سکتے ہیں۔
بروکن ہارٹ سینڈروم کے نتیجے میں ہلاکت کے امکانات بہت کم تقریباً ایک فی صد تک ہوتے ہیں۔ اس سینڈروم کی شرح مَرودں کی نسبت خواتین میں بُلند ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق تقریباً88 فی صد، خاص طور پر درمیانی عُمر کی خواتین (بعد ازمینو پاز) اس سینڈروم کا شکار ہوجاتی ہیں۔ دراصل، فی میل ہارمون، ایسٹروجن کا ایک کام، تناؤ کے ردِّعمل میں جاری ہونے والے ہارمونز کے کسی بھی قسم کے مضر اثرات سے دِل کو محفوظ رکھنا ہے، لیکن چوں کہ عُمر کے ساتھ بتدریج ایسٹروجن کی مقدار میں کمی واقع ہوتی چلی جاتی ہے، تو خواتین اچانک دباؤ کے اثرات سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں۔
یہ سینڈروم کس قدر عام ہے ،اس کا اندزاہ لگانا ذرا مشکل ہے، کیوں کہ اسے بہرحال باقاعدہ مرض تسلیم نہیں کیا جاتا۔ ایک تحقیق کے مطابق بروکن ہارٹ سینڈروم تقریباً 2 فی صد افراد میں پایا جاتا ہے۔ اصل میں جب ہم کسی جسمانی یا ذہنی تناؤپر ردِّعمل ظاہر کرتے ہیں، تو ہمارا جسم قدرتی طور پرخون میں تناؤ کے ہارمونز پیدا کرتا ہے، جیسے ایڈرینالیں، نوراڈرینالین، ایپی نیفرین اور نورپائنیفرین وغیرہ۔ ماہرینِ امراضِ قلب کے مطابق یہ ہارمونز دِل کے افعال میں عارضی طور پر مداخلت کا سبب بنتے ہیں، جس کے نتیجے میں دِل کی نارمل دھڑکن، غیر مستحکم ہونے کے ساتھ دِل کے بائیں وینٹریکل کا حجم عارضی طور پر بڑھ جاتا ہے۔ نیز، دِل کے دیگر حصّے بھی متاثر ہوجاتے ہیں۔
واضح رہے،یہ تمام ترعلامات دِل کے پٹّھوں کی عارضی کم زوری کا سبب بنتی ہیں۔اس کے علاوہ بعض مخصوص ادویہ اور منشیات بھی اس سینڈرورم کا باعث بن سکتی ہیں، جب کہ بعض کیسز میں کچھ جینز بھی اس کی وجہ بن سکتے ہیں۔ علامات کی بات کی جائے تو شدید جسمانی یا ذہنی دباؤ سہنے کے چند منٹ بعد ہی علامات ظاہر ہونے لگتی ہیں، جن میں سینے میں اچانک شدید درد، سانس لینے میں دشواری اور دِل کا بایاں وینٹرکل کم زور ہوجانا شامل ہیں، جب کہ پھیپھڑوں میں سیال مادّہ جمع ہونا، دِل کی بے ترتیب دھڑکن اور لو بلڈپریشر جیسی علامات بھی ظاہر ہوسکتی ہیں۔
بروکن ہارٹ سینڈروم کی پیچیدگیاں بہت کم ہیں، لیکن فی الحال جو رپورٹ کی گئی ہیں، اُن میں دِل کے بائیں وینٹریکل کا پھٹ جانا، والوز کو نقصان پہنچنا، وینٹرکل سے خون کے بہاؤ میں رکاوٹ، دِل فیل ہوجانا (اس حالت میں دِل جسمانی ضروریات پوری کرنے کے لیے خون پمپ نہیں کر سکتا)، بائیں وینٹریکل کی دیوار میں خون جمنا یا خون کے اخراج کی شریان میں رکاوٹ، کارڈیوجینک شاک اور آٹیرئیل وینٹریکولر سرِفہرست ہیں۔ بروکن ہارٹ سینڈروم کے رسک فیکٹر زمیں خاتون ہونا، 50سال سے زائد عُمر، سَر پرچوٹ ، مرگی، اضطراب یا افسردگی جیسے دیگر نفسیاتی عوارض شامل ہیں۔
یاد رکھیے، اگر کوئی فرد پہلے ہی سے عارضۂ قلب کا شکار ہو، تو اس میں بروکن ہارٹ سینڈروم کے امکانات کم پائے جاتے ہیں۔ عمومی طور پر تشخیص کے لیے مریض کی میڈیکل ہسٹری لی جاتی ہے اور طبّی معائنے کے بعد اُسی مناسبت سے ٹیسٹس تجویز کیے جاتے ہیں۔ مثلاً ای سی جی، دِل کی انجیوگرافی، ایکو کارڈیوگرافی، سینے کا ایکس رے، کارڈیک ایم آر آئی اور ventriculogram جو دِل کے چیمبرز کا حجم اور پمپنگ کارکردگی کی نشان دہی کرتا ہے۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ہارٹ اٹیک اور بروکن ہارٹ سینڈروم کی علامات ملتی جلتی ہیں، تو ان میں فرق کیسے محسوس کیا جاسکتا ہے، تو ہارٹ اٹیک کے برعکس بروکن ہارٹ سینڈروم میں دِل کے پٹّھوں کو مستقل طور پر نقصان پہنچتا ہے، نہ دِل کی شریانیں بلاک ہوتی ہیں۔ پھر دِل کے مختلف ٹیسٹس کے ذریعے بھی اس سینڈروم کی حتمی تشخیص ممکن ہے کہ آیا یہ علامات ہارت اٹیک کی ہیں یا بروکن ہارٹ سینڈروم کی۔
یاد رکھیے، اگر علامات جسمانی یا کسی ذہنی دباؤ کے بعد اچانک ظاہر ہوں، ای سی جی کی رپورٹ غیر معمولی ہو، خون میں کارڈیک انزائمز کی مقدار میں اضافہ ہو، دِل کو خون فراہم کرنے والی شریانیں بلاک نہ ہوں، دِل میں کوئی مُردہ ٹشو نہ پایا جائے، بائیں وینٹریکل کے نچلے حصّے کا حجم بڑھا ہوا ہو اور پٹّھوں کی دیوار کی حرکت غیر معمولی ہو، تو یہ بروکن ہارٹ سینڈروم ہے۔
اس سینڈروم کےعلاج کا انحصار علامات کی شدّت پر ہوتا ہے اور اسی مناسبت سے ادویہ تجویز کی جاتی ہیں، جن میں بلڈ پریشر کنٹرول کرنے کے لیے طویل اور دِل کی دھڑکن مستحکم رکھنے کے لیے مختصر عرصے تک ادویہ استعمال کی جاتی ہیں۔ نیز، پیشاب آور اور ذہنی تناؤ پر کنٹرول پانے کے لیے اینٹی اینزائٹی ادویہ بھی تجویز کی جاسکتی ہیں۔ اس کے علاوہ علاج کا دارومدار اس امر پر بھی منحصر ہے کہ دِل کے عضلات کس حد تک کم زور ہو چُکے ہیں۔
علاوہ ازیں، یوگا، مراقبہ اور ذہنی و جسمانی آرام کے مختلف طریقے بھی مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ بروکن ہارٹ سینڈروم سے تحفّظ کا کوئی طریقہ نہیں، البتہ بعض مشقیں جسمانی یا ذہنی تناؤ برداشت کرنے میں معاون ثابت ہوتی ہیں۔ جیسے یوگا، مراقبہ، ذہن سازی کی مشق، نیم گرم پانی سے نہانا، خوشبو والی موم بتیاں روشن کرنا، گہرا لمبا سانس لے کر آہستہ آہستہ خارج کرنا وغیرہ۔ اس کے علاوہ واٹس ایپ پر ایک سپورٹ گروپ بھی بنایا جاسکتا ہے، جس میں مریض ذہنی تناؤ سے متعلق ایک دوسرے سے بات چیت کرسکتے ہیں۔ مزید براں، کسی پیشہ ور کی مدد لینے پر بھی غور کیا جا سکتا ہے۔
نیز، صحت بخش عادات اختیار کرکے بھی جسمانی یا ذہنی تناؤ پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ مثلاً متوازن غذا کا استعمال، باقاعدگی سے ورزش (ہفتے میں کم از کم پانچ بار، 30منٹ تک)، بَھرپور نیند(7سے 9گھنٹے)، خاندان ،عزیز و اقارب اور دوستوں کے ساتھ وقت گزارنا اور طبّی فالو اَپ وغیرہ، کیوں کہ صحت سے متعلقہ مسائل کا بروقت علاج ہی طویل اور صحت مند زندگی کا ضامن ہے۔ نیز، تمباکو نوشی، الکحل اور دیگر نشہ آور اشیاء کے استعمال سے اجتناب برتا جائے۔
یہ سینڈروم بہت ہی کم کیسز میں خطرناک ثابت ہوتا ہے، زیادہ تر مریض جلد صحت یاب ہوجاتے ہیں۔البتہ مریض کو چاہیے کہ شفا یابی کے چار سے چھے ہفتے بعد معالج کے مشورے سے ایکو کارڈیوگرام لازماً کروائے، تاکہ یہ جانچا جاسکے کہ دِل کی کارکردگی میں کوئی گڑبڑ تو نہیں اور دِل کا بایاں وینٹریکل معمول کے افعال انجام دے رہا ہے۔ اگر بروکن ہارٹ سینڈروم کی علامات ظاہر ہوں تو فوری طور پر ماہرِ امراضِ قلب سے رابطہ کیا جائے اور وہ جو ٹیسٹس تجویز کرے، فوراً کروالیے جائیں کہ ضروری نہیں کہ یہ بروکن ہارٹ سینڈروم ہو، ہارٹ اٹیک بھی ہوسکتا ہے یا پھر کوئی اور طبّی مسئلہ بھی۔ واضح رہے، بروکن ہارٹ سینڈروم کا موروثی ہوناتاحال ثابت نہیں ہوا۔
اکثر افرادکے ذہنوں میں یہ سوال آتا ہے کہ’’ کیا عام زندگی میں روزانہ کا تناؤ بروکن ہارٹ سینڈروم کا سبب بن سکتا ہے؟‘‘ تو اس کے امکانات تقریباً صفر ہیں، لیکن یاد رہے کہ اس سینڈروم کی علامات اچانک یا انتہائی دباؤ والے واقعے پر ظاہر ہوتی ہیں۔ اگر آپ کو روزانہ تناؤکا سامنا کرتے ہوئے بار بار سینے میں درد یا سانس لینے میں تکلیف محسوس ہو، تو بہتر ہوگا کہ فوری طبّی معائنہ کروالیا جائے۔ اگرچہ یہ سینڈروم جان لیوا نہیں، لیکن مستند معالج آپ کو ذہنی یا جسمانی تناؤ کی کیفیت پر قابو پانےکے طریقے بتا سکتا ہے۔
نیز، اضطراب سے نجات کے لیے ادویہ تجویز کرسکتا ہے۔ بروکن ہارٹ سینڈروم سے صحت یابی کے بعد اس کے دوبارہ ہونے کے امکانات بہت کم پائے جاتے ہیں۔ یعنی صرف 5 فی صد افراد دوبارہ متاثر ہو سکتے ہیں۔ چوں کہ اس سینڈروم کی علامات دِل کے دورے جیسی ہیں، تو خدارا! اپنا مرض کبھی بھی خود تشخیص کرنے کی کوشش نہ کریں، جس قدر جلد ہو سکے، ایمرجینسی کیئر سینٹر سے رابطہ کریں۔