• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آئی ایم ایف کے مطالبے پر حکومت پاکستان کو ڈیفالٹ سے بچنے کیلئے تمام بنیادی ضرورت کی اشیاء پر دی گئی سبسڈی واپس لینا پڑی ،جس سے نہ صرف تیل ،گیس اور بجلی کی قیمتیں آسمان پر پہنچ گئیں بلکہ مہنگائی نے عام آدمی کی کمر توڑ کر رکھ دی ،عمران خان کی حکومت نے چالاکی دکھاتے ہوئے آنے والی حکومتوں کے لیے بارودی سرنگیں بچھا دیں مگر یہ بھول گئے کہ اس کا سارا بوجھ غریب عوام پر پڑے گا۔اس وقت دنیا میں دو بڑے مالیاتی ادارے ہیں جو تیسری دنیا کو اقتصادی اور ٹیکنیکل مدد فراہم کرتے ہیں۔ ان میں سے ایک ورلڈ بینک ہے اور دوسرا آئی ایم ایف ۔عالمی بینک غربت کے خاتمے کے لیے امداد دیتا ہے تو آئی ایم معیشت و معاشی استحکام کے لیے مدد فراہم کرتا ہے۔آج دنیا کے نوے سے زیادہ ممالک آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے رکن ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ سوویت یونین کی تحلیل سے پہلے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کو تیسری دنیا کو نچوڑنے کے ایسے مواقع حاصل نہیں تھے،جیسے آج حاصل ہیں۔ سویت یونین کے خاتمے سے پہلے اقوام متحدہ نے ساٹھ اور ستر کی دہائی میں ایسے اداروں کو ترویج دی ، جن کا بنیادی مقصد تیسری دنیا کے ممالک میں صنعتوں کا قیام اور ٹیکنالوجی منتقل کرنا تھا۔ اقوام متحدہ کے تحت کام کرنے والے ان اداروں میں UNIDO،WIPOاورUNCTAD اہم تھے۔ صرفUNIDOکے ادارے نے نومبر 1966ء میں بھرپور طریقے سے تیسری دنیا کے ممالک کو صنعتی طور پر مضبوط کرنے میں انتہائی اہم کردار ادا کیا۔اس کا ہیڈ کوارٹر آسٹریا میں تھا،اس ادارے نے 1975ء میں اعلان کیا کہ 2000ء تک تیسری دنیا کے ممالک کا صنعتی ترقی میں حصہ پچیس فیصد ہو گا۔1979ء میں اقوام متحدہ نے اس اعلامیے کو اپنے ادارے کا حصہ بنا لیا۔تاہم، سوویت یونین کے خاتمے کے تیسری دنیا پر جو اثرات مرتب ہوئے اس میں پہلے تو انہیں تجارتی معاہدوں کی مد میں بہت نقصان ہوا اور دوسرا بڑے پیمانے پر جو تیسری دنیا میں پبلک سیکٹر انڈسٹری لگ رہی تھی اس کی جگہ گلوبلائزیشن اور ڈی ریگولیشن نے لے لی۔یوں ایک طرف امریکہ کو تیسری دنیا کے ممالک میں اپنا سرمایہ بے جھجک لے جانے کا موقع ملاتو دوسری طرف تیسری دنیا کی ریاستوں نے اپنے لوگوں کے ساتھ جو رشتہ قائم کیا تھا جس کے تحت تمام سماجی سہولیات کی ذمہ داری ریاست کی ہوتی تھی، اس کا بھی ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہو گیا۔ پاکستان،سری لنکا اورتیسری دنیا کے کئی ممالک کو آج انہی حالات کا سامنا ہے۔ ان ریاستی ذمہ داریوں کی جگہ لبرل اکنامک آئیڈیالوجی نے لے لی جس نظریے کو جی سیون ممالک،ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی پشت پناہی حاصل تھی اورآج یہ پشت پناہی اپنے عروج پر پہنچ گئی ہے جس سے نہ صرف پاکستان کے عوام بلکہ تیسری دنیا کے غریب عوام بھی پس رہے ہیں۔اس گلوبلائزیشن کے عمل، جو آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی پشت پناہی سے شروع ہوا تھا ،نے تیسری دنیا میں نابرابری کو اتنا بڑھاوا دیا کہ آج اگرایڈم اسمتھ بھی زندہ ہوتے تو ایسی سرمایہ داری سے پناہ مانگتے۔پوری دنیا کی دولت کا ارتکاز ایک فیصد اشرافیہ کے ہاتھ میں آ گیا ہے۔

آئی ایم ایف کی امداد سے تیسری دنیا کے ممالک میں مختلف نتائج برآمد ہوئے مثلاً بھارت اور بنگلہ دیش بھی اس کے مقروض رہے لیکن ان پر اس طرح کے منفی اثرات دیکھنے کو نہیں ملتے جس طرح کے پاکستان پر مرتب ہوئے۔بنگلہ دیش نے آئی ایم ایف سے امداد لے کر اپنی معیشت کو ،جو ایک پروڈکٹ پٹ سن پر مبنی تھی اور جس کی ستر فیصد سے زیادہ آبادی غربت کی لکیر سے نیچے رہ رہی تھی ، اس امداد کی بدولت اپنی معیشت اپنے پائوں پر کھڑی کر لی۔ صنعتوں کے قیام پر خصوصی توجہ دی اور اس عمل کو انتہائی آسان بنا دیا جس کی بدولت پاکستان کے بھی بہت سارے صنعت کاروں نے اپنی صنعتیں بنگلہ دیش شفٹ کر دیں۔ بنگلہ دیش اس خطے کا واحد ملک ہے جو اپنے دفاع پر سب سے کم خرچ کر رہا ہے جب کہ تعلیم اور صحت پر اچھی خاصی رقم خرچ کر رہا ہے۔ اس لیے پاکستان کو بھی سارک ممالک کے ساتھ مل کر نہ صرف اپنے علاقائی ثمرات سے فائدہ اٹھانا چاہئے بلکہ ایسے دوررَس معاہدے کرنے چاہئیں جن سے دفاعی اخراجات میں خاطر خواہ کمی لائی جا سکے۔اس کے ساتھ ساتھ اقوامِ متحدہ پر زور دینا چاہئے کہ وہ UNCTAD، UNIDOاور WIPOجیسے ادارے دوبارہ فعال کرے تاکہ تیسری دنیا کے ممالک میں نہ صرف انڈسٹریلائزیشن کو فروغ ملے بلکہ جدید ٹرانسفر آف ٹیکنالوجی کو بھی ممکن بنائے جیسا کہ ساٹھ اور ستر کی دہائی میں یہ ترقیاتی عمل ارتقاء پذیر ہو رہا تھا۔ جب تک تیسری دنیا کے ممالک نیو لبرل اکانومی کے سامنے بند نہیں باندھیں گے ترقی کی راہیں مخدوش ہی رہیں گی اور ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف انہیں اپنا تابع ہی بنا کر رکھے گا۔ پاکستان کو ان عوامل کا بغور مشاہدہ کرنا ہو گا جن کی بدولت لاطینی امریکہ کے ممالک نے اپنے آپ کو امریکہ کے تسلط سے بہت حد تک آزاد کرا لیا ہے تاکہ کسی نہ کسی طرح پاکستان بھی آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے تسلط سے باہر آ سکے اور اپنے عوام کے ساتھ مضبوط رشتہ استوار کر سکے۔

تازہ ترین