مفتی احمد میاں برکاتی
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو صحابۂ کرامؓ میں جو فضیلت اور عظمت حاصل ہے ،وہ اظہر من الشمس ہے، فہم و فراست، ادراک امور اور فقہ الواقع میں الہامی سوچ کے حامل تھے۔ حافظ ابو الفضل الکنانیؒ کے قول کے مطابق آپ واقعہ فیل کے چھ سال بعد پیدا ہوئے (الاصابہ فی تمیز الصحابہ)آپ کا نام عثمان بن عفان، کنیت ابوعبداللہ اور ابو عمرو ہے۔ صاحب الہجرتین، ذوالنورین، غنی، جامع القرآن،امین، جیسے القاب سے مشہور ہیں، آپ کا مشہور لقب ذوالنورین ہے ۔
اللہ تعالیٰ نے تخلیق آدم سے قیامت قائم ہونے تک کسی نبی کی دو بیٹیوں کو (ایک شخص کے نکاح میں) جمع نہیں کیا ،سوائے عثمان بن عفان ؓ کے، چناںچہ اسی وجہ سے آپ کو ذوالنورین کہا جاتا ہے۔ ( السنن الکبریٰ)امام عبد الرحمن بن محمدؒ نے آپ کا سلسلہ نسب یوں بیان کیا ہے، عثمان بن عفان بن ابوالعاص بن امیہ بن عبد شمس بن عبد مناف ، (کتاب الجرح والتعدیل) پانچویں پشت میں نبی کریم ﷺ سے جا کر ملتا ہے۔
ایک روز حسب معمول حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے پاس آئے اور اسلام کے متعلق گفتگو شروع کی، حضرت ابوبکر صدیقؓ کی گفتگو سے آپ اتنے متاثر ہوئے کہ بارگاہِ نبوت میں حاضر ہوکر اسلام قبول کرنے پر آمادہ ہوگئے، ابھی دونوں جانے کا خیال ہی کررہے تھے کہ سرور کائناتﷺ تشریف لے آئے اور حضرت عثمان ؓ کو دیکھ کر فرمایا ’’عثمان! خدا کی جنت قبول کر‘‘ میں تیری اور تمام خلق کی ہدایت کے لئے مبعوث ہوا ہوں۔حضرت عثمان ؓ کا بیان ہے کہ زبان نبوت کے ان سادہ جملوں میں خدا جانے کیا تاثیر تھی کہ میں بے اختیار کلمہ شہادت پڑھنے لگا اور آپ ﷺکے دست مبارک میں ہاتھ دے کر حلقہ بگوش اسلام ہوگیا۔
ابن اسحاق کے قول کے مطابق حضرت ابوبکر صدیق، حضرت علیؓ اور حضرت زیدبن حارثہ ؓکے بعد مردوں میں چوتھے آپؓ ہیں جو مشرف بہ اسلام ہوئے۔ پیشے کے اعتبار سے تجارت کو ذریعہ معاش بنایا، آپ قریش میں نہایت معزز و محترم تھے۔ سیدنا عثمان غنی ؓ منکسر المزاج، حلیم و بردبار عالیٰ ظرف، فراخ دل، نرم خو، خاموش طبع، صبر و استقامت کا پہاڑ، شجاعت و بہادری کا نمونہ، شرم و حیا کا پیکر، جود و سخا کا خوگر، رحم دل، حسن صورت اور حسن سیرت کا شاہ کار تھے، حضرت عثمان غنی ؓ بڑے نیک، راست باز اور ایمان دار تھے۔
آپ ﷺ نے فرمایا ’’بے شک عثمانؓ میرے صحابہ ؓ میں سے خُلق کے اعتبار سے سب سے زیادہ میرے مشابہ ہے۔‘‘ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ میری امت میں سے سب سے زیادہ حیا دار عثمان بن عفان ؓہے۔(ابونعیم فی الحلیۃ، و ابن ابی عاصم فی السنۃ1281)
صلح حدیبیہ کے موقع پر اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر سفارتی فرائض انجام دینے والے ہیں اور بیعت رضوان ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے اپنے دائیں ہاتھ کو عثمان ؓ کا ہاتھ قرار دے کر اسے اپنے بائیں ہاتھ کے اوپر رکھا اور فرمایا:’’یہ عثمان کی بیعت ہے‘‘۔ (بخاری شریف) ہجرت مدینہ کے بعد شہر مدینہ میں میٹھے پانی کا صرف ایک ہی ’’بئر رومہ‘‘ نامی کنواں تھا جو ایک یہودی کی ملکیت تھا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ،جس نے رومہ کا کنواں خریدا، اس کے لئے جنت ہے‘‘۔
لہٰذا آپ نے کنواں خرید کر وقف کردیا۔ ابن حبان کی روایت کے مطابق جب مسجد نبوی میں جگہ کم پڑنے لگی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص فلاں خاندان کا کھلیان خریدے گا، اللہ تعالیٰ اسے بخش دے گا تو یہ حضرت عثمان ہی تھے جنہوں نے بیس یا پچیس ہزار درہم میں خرید کر اسے وقف کردیا۔ غزوۂ تبوک میں جب رسول ﷺنے مالی اعانت کی اپیل فرمائی تو سیدناعثمان غنیؓ نے تیس ہزار فوج کے ایک تہائی اخراجات کی ذمہ داری لے لی،اس موقع پرآپ ﷺاتنا خوش اور راضی ہوئے کہ اسی وقت کئی مرتبہ آپﷺ نے سیدنا عثمانؓ کو جنت کی خوشخبری دی۔
لوگوں نے حضرت عمر ؓ کی شہادت سے پہلے آپ سے درخواست کی کہ اپنے بعد کسی کو خلیفہ مقرر کردیں۔ پہلے تو آپ تیار نہ ہوئے، مگر لوگوں کے اصرار پر آپ نے چھ آدمیوں کی ایک کمیٹی بنادی۔ چناں چہ ان حضرات نے حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ کو یہ اختیار دیا کہ وہ جسے چاہیں خلیفہ مقرر کردیں، انہوں نے حضرت عثمانؓ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ اس طرح حضرت عثمانؓ خلیفہ مقرر ہوئے۔ آپ کا دور حکومت تاریخ اسلام کا ایک تابناک اور روشن باب ہے، آپ کے عہد زریں میں عظیم الشان فتوحات کی بدولت اسلامی سلطنت کی حدود اطراف عالم تک پھیل گئیں اور آپ نے اس دور کی بڑی بڑی ایمپائرز روم، فارس اور مصر کے بیشتر علاقوں میں پرچم اسلام بلند کرتے ہوئے عہد فاروقی کی عظمت و ہیبت کو برقرار رکھا اور باطل نظام کو ختم کرکے ایک مضبوط، مستحکم اور عظیم الشان اسلامی مملکت کو استوار کیا۔ دینی معاملات پر آپ کی رہنمائی کو پوری اہمیت دی جاتی۔
سیدناعثمان ؓ صرف کاتب وحی ہی نہیں تھے، بلکہ قرآن مجید آپ کے سینے میں محفوظ تھا۔ آیات قرآنی کے شان نزول سے خوب واقف تھے۔ اپنے دور خلافت میں آپ نے قرآن کے متعدد نسخے تیار کرکے مختلف صوبوں میں بھیجے اور امت کو ایک مصحف پر جمع کرنے کا تاریخ ساز کارنامہ انجام دیا ، اس کارنامے کی بدولت آپ کو ’’جامع القرآن‘‘ کا لقب دیا گیا ہے۔ اپنے عہد خلافت میں خوب ترقیاتی کام انجام دیے، جگہ جگہ ضرورت کے تحت سڑکیں اور پل تعمیر کرائے۔ مفتوحہ علاقوں اور ملکوں میں مساجد اور دینی مدارس قائم کئے۔ ملک شام میں سمندری جہازوں کے بنانے کا کارخانہ قائم کیا۔ مدینہ کو سیلاب سے بچانے کے لیے ایک بند تعمیر کرایا۔ جگہ جگہ پانی کی نہریں نکلوائیں۔ مدینہ اور دوسرے شہروں میں نئے کنویں کھدوائے۔ غرض تعمیرات عامہ کے پیش نظر دوسرے شہروں میں بھی سرکاری عمارتیں، سڑکیں وغیرہ تعمیر کرائیں۔
آپؓ نے رفاہ عامہ کے بہت کام کرائے۔ سیدنا عثمان ذوالنورینؓ بارہ سال تک امت ِمسلمہ کے خلیفہ رہے اور کئی ممالک فتح کرکے خلافت اسلامیہ میں شامل کیے۔ آپ کے عہد خلافت میں اسلامی ریاست دور دراز علاقوں تک پھیل گئی اور کئی فتنے بھی جنم لینے لگے، 35ھ میں ذی قعدہ کے عشرہ میں باغیوں نے سیدناعثمان ذوالنورین ؓکے گھر کا محاصرہ کیا اور آپ نے اسلام کو فتنوں سے محفوظ کرنے کے لئے صبر اوراستقامت کا دامن نہیں چھوڑا، محاصرے کے دوران آپ کا کھانا اور پانی بند کردیاگیا 88 سالہ مظلوم مدینہ سیدناعثمان ذوالنورینؓ کو جمعۃ المبارک 18ذو الحجہ کو روزے کی حالت میں قرآن پاک کی تلاوت کرتے ہوئے شہید کردیا ، (معرفۃ الصحابہ 1/65) شہادت سے کچھ پہلے آپ کو خواب میں رسول ِ اکرمﷺ کی زیارت بھی ہوئی۔
آپؓ کے جسم اطہر سے نکلنے والے خون کے پہلے قطرے کو قرآن مجید نے اپنے اندر جذب کیا اور اس آیت پر آپ کا لہو مبارک گرا (اور اللہ تعالیٰ تم لوگوں کے لیے کافی ہوجائے گا) حضرت زبیرؓ بن عوامؓنے نماز جنازہ پڑھائی اور جنت البقیع میں تدفین عمل میں آئی۔(مسند احمد 1/84) اللہ تبارک وتعالیٰ آپ کے درجات بلند فرمائے، اور ہمیں صحابۂ کرامؓ کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔( آمین)