ڈاکٹر سعید احمد صدیقی
سرور عالم، پیغمبر آخر و اعظم حضرت محمدﷺ کا ارشادِ گرامی جسے نامور محدّث امام بخاری ؒنے حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کے حوالے سے نقل فرمایا ہے کہ میں رسول اللہﷺ کے ساتھ مدینے کے ایک باغ میں تھا، اتنے میں ایک شخص آیا اور اس نے دروازہ کھلوانا چاہا، نبی کریم ﷺ نے فرمایا ’’دروازہ کھول دو اور داخل ہونے والے کو جنت کی بشارت دو‘‘ دروازہ کھلا تو دیکھنے والے نے دیکھا کہ آنے والے سیدنا ابوبکر صدیقؓ ہیں، راوی کہتے ہیں کہ میں نے انہیں جنت کی بشارت سنائی۔ انہوں نے اللہ کی حمدو ثنا بیان فرمائی، پھر ایک اور شخص نے دروازہ کھلوانا چاہا، رسول اللہﷺ نے فرمایا: دروازہ کھول دو اور انہیں بھی جنت کی بشارت سنا دو، میں نے دروازہ کھولا تو دیکھتا ہوں، سیدنا عمرفاروقؓ ہیں۔
نبی کریم ﷺنے جو فرمایا تھا، میں نے اس سے انہیں آگاہ کیا تو انہوں نے اللہ کی حمدو ثنا بیان کی۔ پھر ایک اور صاحب نے دروازہ کھلوانا چاہا۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا، دروازہ کھول دو اور انہیں جنت کی بشارت سنا دو اور یہ کہ یہ ایک آزمائش سے دوچار ہوں گے ‘‘راوی کہتے ہیں کہ میں نے دروازہ کھولا تو دیکھا دروازے پر آنے والے حضرت عثمان ؓ ہیں ،میں نے انہیں بھی جو رسول اللہﷺ نے فرمایا تھا ،اس سے آگاہ کیا آپ نے اللہ کی حمدو ثنا بیان فرمائی، پھر فرمایا اللہ ہی مدد کرنے والا ہے۔ (صحیح بخاری ، رقم الحدیث 3695)
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ ایک موقع پر رسول اللہﷺ اُحد پہاڑ پر چڑھے، آپﷺ کے ساتھ حضرت ابوبکر ؓ ،حضرت عمرؓاورحضرت عثمانؓتھے، اس دوران اُحد پہاڑہلنے لگا، آپﷺ نے فرمایا: ’’اُحد ٹھہر جا، تیرے اوپر اللہ کا نبی، صدیق اور دو شہید ہیں۔ ‘‘(صحیح مسلم، رقم الحدیث2417)ابو سلمہ بن عبید الرحمٰن ؓسے روایت ہے کہ سیدہ عائشہ صدیقہؓ نے فرمایا: رسول اللہﷺ میرے گھر میں آرام فرما تھے ،اس دوران آپﷺ کی پنڈلیاں کھلی ہوئی تھیں، اس اثناء میں ابوبکرؓ نے آنے کی اجازت طلب کی، آپ ﷺ نے انہیں اجازت دے دی اور آپﷺ اسی حالت میں رہے، ابوبکرؓ نے آپﷺ سے گفتگو کی اور چلے گئے۔
پھر عمر ؓ نے آنے کی اجازت طلب کی ،انہیں بھی آپ ﷺ نےاجازت دے دی اور آپﷺ اسی حالت میں رہے، انہوں نے بھی آپﷺ سے گفتگو کی ،پھر عثمان ؓ نے آنے کی اجازت طلب کی تو رسول اللہ ﷺاٹھ کر بیٹھ گئے اور اپنے کپڑے درست کر لئے۔ پھر آپﷺ نے اجازت دی۔ عثمان ؓ آئے اور آپﷺ سے گفتگو کی، جب عثمان ؓ چلے گئے تو سیدہ عائشہ ؓ نے عرض کیا ، یا رسول اللہﷺ،حضرت ابوبکر ؓ آئے تو آپﷺ نے پروا نہ کی، پھر عمرؓ آئے تو آپ ﷺ نے پروانہ کی، پھر عثمانؓ آئے تو آپﷺ اٹھ کر بیٹھ گئے اور آپﷺ نے اپنے کپڑے درست کرلئے تو رسول اللہﷺ نے فرمایا :’’ کیا میں ایسے شخص سے حیا نہ کروں جس سے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں۔ ‘‘(صحیح مسلم، رقم الحدیث 2401)
حضرت انس ؓبن مالک ؓ نے رسول اللہﷺ کا یہ فرمان مبارک بھی نقل فرمایا ہے۔ ’’میری امت میں سب سےسچے، حیادار عثمان ہیں۔ ‘‘(مسند احمد )حضرت عبدالرحمٰن بن سمرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عثمان بن عفان ؓ اپنی جیب میں ہزار دینار لے کر نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، جب نبی کریمﷺ غزوۂ تبوک کے لئے لشکر کی تیاری فرما رہے تھے تو انہوں نے وہ دینار آپﷺ کی گود میں بکھیر دیے۔ آپﷺ دیناروں کو ہاتھ سے الٹتے پلٹتے ہوئے فرما رہے تھے، ’’آج کے بعد عثمان بن عفانؓ جو بھی عمل کریں، انہیں وہ عمل (جنت میں داخل ہونے میں ) کچھ نقصان نہیں پہنچائے گا ۔یہ بات آپﷺ بار بار دہرا رہے تھے۔ (ترمذی،ابواب المناقب، رقم الحدیث 3701)
سیدنا حضرت عثمان بن عفان ؓ اپنی قوم کے افضل ترین لوگوں میں سے تھے، بڑی جاہ و حشمت کے مالک، مال دار ، شرم و حیا کے پیکر ،شیریں کلام ، آپ کی قوم آپ سے بڑی محبت کرتی تھی اور آپ کی تعظیم و توقیر اور احترام کرتی تھی، زمانۂ جاہلیت میں بھی آپ نے نہ شراب پی، نہ کبھی بدکلامی کی۔ چونتیس برس کی عمر میں سیدنا ابوبکر صدیق ؓ کی دعوت پر بغیر کسی لیت و لعل کے اسلام قبول کیا ،آپ ؓ کا شمار سابقین اولین میں ہوتا ہے۔
حضرت عثمان ؓ نے مکے میں اسلام لانے کے بعد آپ ﷺ کی صحبت کو لازم پکڑا اور اسی طرح ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں آپﷺ کی صحبت اور خدمت سے وابستہ رہے۔ اپنے نفس کو منظم کیا، مدرسہ نبوت میں علوم و معارف کے مختلف حلقوں میں معلم انسانیتﷺ کے سامنے زانوئے تلمذطے کیے۔
حضرت عثمان ؓ نے اپنے مال و دولت کو اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کی اطاعت میں صرف کیا، ہرکار خیر میں سبقت کرتے اور بے دریغ مال راہ خدا میں خرچ کرتے، فقر و محتاجی کا ذرا بھی خوف نہ کھاتے۔ جب رسول اللہ ﷺنے مسجد نبوی کی تعمیر فرمائی تو مسلمان پنج وقتہ نماز اور خطبہ جمعہ سننے کے لیے جمع ہونے لگے۔ یہاں انہیں دین کی تعلیم دی جاتی تھی، یہیں سے لشکر غزوات کے لیے تیار ہوتے ،آخرکار یہ مسجد لوگوں کے لیے تنگ ہونےلگی۔
نبی کریم ﷺ نے صحابہ کرام ؓکو رغبت دلائی کہ کوئی مسجد سے متصل قطعہ زمین خرید کر مسجد کے لیے وقف کر دے، تاکہ اس کی توسیع کر دی جائے۔اس موقع پرآپ ﷺنے فرمایا ’’کون ہے جویہ زمین خرید کر مسجد کو وسیع کر دے،اسے جنت میں اس سے بہترین جگہ ملےگی ‘‘ حضرت عثمان ؓ نے اپنے مال میں سے خطیر رقم دے کر اسے خریدا ،پھر یہ جگہ مسجد نبوی میں شامل کر دی گئی۔
سیدنا حضرت عثمان غنیؓ کے عظیم تر ین مفاخر میں سے امت کو ایک مصحف اور ایک قرأت پر جمع کرنا ہے۔ حضرت انس بن مالک ؓکا بیان ہے کہ حذیفہ بن یمان ؓ حضرت عثمان غنی ؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے، آرمینیہ اور آذربائی جان میں اہل شام اور اہل عراق کی اسلامی فوجیں ایک ساتھ جنگ میں مصروف تھیں، اس دوران ان میں قرآن کی قرأت میں اختلاف رونما ہوا، جس سے حضرت حذیفہ ؓ بے حد پریشان ہوئے اور حضرت عثمانؓ سے عرض کیا ، یہود و نصاریٰ کی طرح کتاب الٰہی میں اختلاف رونما ہونے سے قبل امت کی خبر لیجئے۔
حضرت عثمان ؓنے حضرت حفصہؓ سے قرآن پاک کا وہ نسخہ منگوایا جو حضرت ابو بکر صدیقؓ کے عہد مبارک میں حضرت زید بن ثابتؓ کی سربراہی میں مرتب کیا گیا تھا، آپ نےحضرت زید بن ثابت ؓ ،عبداللہ بن زبیر ؓ، سعید بن العاص ؓ اور عبدالرحمٰن بن حارث بن ہشامؓ کو حکم دیا اور انہوں نے اس کے مختلف نسخے تیار کئے۔ حضرت عثمانؓ نے تینوں قریشی حضرات ( عبداللہ ؓ،سعیدؓ، عبدالرحمٰنؓ) سے فرمایا، جب تمہارا قرآن کے کسی لفظ کے طرز تحریر میں زید بن ثابت ؓ سے اختلاف ہو تو اسے قریش کی زبان میں لکھو ،کیوں کہ قرآن ان ہی کی زبان میں نازل ہوا ہے، چناںچہ انہوں نے ایسا ہی کیا اور جب یہ حضرات قرآن کو مختلف مصاحف میں منتقل کر چکے تو قرآن کریم کا ایک ایک نسخہ، خلافت اسلامیہ کے مختلف علاقوں میں بھیج دیاگیا۔
حضرت عثمان غنیؓ نے جمع قرآن کا کارنامہ مہاجرین و انصار مسلمانوں کو جمع کر کے اور ان کے مشورے کے بعد انجام دیا اور ان تمام حضرات نے اس بات پر اتفاق کیا کہ نبی کریمﷺ سے جو قرأت ثابت ہے، اس کے مطابق قرآن کو جمع کیا جائے، اس کے ماسوا قرأتوں کو نظر انداز کر دیا جائے، سب نے آپ کی رائے کو صحیح قرار دیا۔
اگر ہم مختصر الفاظ میں شان عثمانی پر روشنی ڈالیں تو یہی کہیں گے کہ سیدنا عثمان غنیؓ صبرو رضا ،حلم و بردباری کے ایسے پیکر تھے کہ شاید دنیا کے الفاظ میں ایسے الفاظ ملنا مشکل ہوں جو ان کے شایان شان ہوں، امت اوروحدت کی بقا کے پیش نظر آپؓ نے کلمہ گو منادیوں کے خلاف تلوار نہ اٹھائی۔ خود پیکر صدق و صفا، صبرو رضا اور امام عزم و استقامت بنے رہے، ملک کی سیاست اور عدلیہ کو اپنے پیش رو خلفا ء سیدنا ابوبکر صدیق ؓ اورسیدنا عمر فاروق ؓ کے اصول و عمل پر باقی رکھا۔
امت مسلمہ کو ایک مصحف پر اکٹھا کر کے اور خود اس کی تلاوت کرتے ہوئے اس دنیائے فانی سے جام شہادت نوش فرمایا ،آپ ؓ دامادِ رسولؐ، خلیفۂ سوم اور شہیدِ مظلوم ہیں، اہل ایمان کےدلوں میں ہمیشہ ادب و احترام اور وقار سے بسنے والے ہیں ،یہ رسول اللہﷺ سے محبت فرماتے اور خود اللہ کے رسول ﷺ آپ سے محبت فرماتے تھے، آپﷺ نے بیعت رضوان کے موقع پر اپنے ہاتھ کو عثمانؓ کا ہاتھ قرار دے کر اس قرب اور تعلق کو ظاہر فرمایا۔