• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جاوید میرا بچپن کا دوست تھا، انتہائی ہنس مکھ اور متحرک ۔ اسے فوج میں جانے کا بڑا شوق تھا۔ اسکول میںوہ ہر وقت ایسی ایکٹیویٹی میں مصروف رہتاتھا جو اسے فوج میں شمولیت کےلئے تیار کر سکتی تھیں۔ اسکے والد ایک اعلیٰ عہدے پر فائز تھے اور اس وقت کے حالات اور رواج کے مطابق اپنے ہونہار بیٹے کو ڈاکٹر یا انجینئر بنانا چاہتے تھے مگر بیٹے کے جذبے اور جنون کو دیکھتے ہوئے انہوں نے اسے بخوشی پاک فوج میں شمولیت کی اجازت دے دی۔ فوج کی جونیئر کیڈٹ کورس میں کمیشن حاصل کرنے کے بعد ہماری ملاقاتیں بہت کم رہ گئیں۔ چار سال کا کورس کرنے کے بعد وہ اعزازی تلوار لیکر اپنے کورس میں پہلی پوزیشن لیکر پاس آؤٹ ہوا اور بطور لیفٹیننٹ اپنی یونٹ میں تعینات ہوا۔ میں اس دوران تعلیم کے سلسلے میں بیرون ملک جا چکا تھا تاہم اس لائق فائق اور محب وطن افسر کی کامیابیوں کی خبریں ملتی رہتی تھیں۔ بھارت نے سیا چین گلیشئر کی برف پوش چوٹیوں پر اچانک قبضہ کر لیا تو کیپٹن جاوید ان چند اولین فوجیوں میں تھے جو ضروری سازو سامان اور خصوصی تربیت کے بغیر دنیا کے بلند ترین میدان جنگ میںمقابلہ کرنے پہنچے۔ ایک مشن پر جاتے ہو ئے کیپٹن جاوید اور انکے چند ساتھی برفانی تودوں کی زد میں آکر شہید ہو گئے۔ ان شہدا کی قربانیوں کے نتیجے میں آج سیا چین پر ہماری افواج بہتر پوزیشن میں ہیں جبکہ بھارت کا بہت زیادہ جانی و مالی نقصان ہو رہاہے اور ان نقصانات کے سبب بھارتی فوج سیاچین کو دوبارہ غیر فوجی علاقہ بنانے پر آمادہ نظر آتی ہے۔ سیاچین کے بعد کارگل میںبھارت اور پاکستان کے درمیان ہونے والی محدود جنگ میں سخت موسمی حالات اور بغیر کسی سپلائی یا لاجسٹک سپورٹ کے پاکستان کے نیم فوجی دستوں اور والنٹیئرز نے جس بے جگری ، عزم و حوصلے سے جدید ترین اسلحے سے لیس بھارتی فوج کا مقابلہ کیا اسکی مثال جنگی تاریخ میں بہت کم ملتی ہے۔ بھارتی فوج پاکستانیوں کے عزم ،کرنل شیر خان اور لالک جان جیسے

سر فروشوں کے آگے بے بس ہو گئی تو جدید بوفور توپوں اور ملٹی بیرل راکٹ لانچروں کے گولوں کی برسات کر دی جبکہ بھارتی فضایہ کے جدید میراج طیاروں نے بموں کی بارش کر دی۔ بھارت بظاہر یہ محدود یک طرفہ جنگ جیت گیا لیکن برفیلی پہاڑی چوٹیوں پر موجود چند سو پاکستانیوں کی شجاعت اور قربانیوں کی داستان دنیا کی ملٹری ہسٹری میں ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔ آزاد کشمیر میں سنہ 2005میں آنے والے تباہ کن زلزلے میں بے شمار لوگ لقمہ اجل بن گئے اور ہزاروں لوگ شدید زخمی ہوئے۔ لائن آف کنٹرول پر تعینات پاک فوج کے افسران اور جوانوں کی بڑی تعداد بھی اپنے بنکروں میں دب کر شہید ہو گئی۔ ایسے مخدوش حالات میں پاک فوج اور ائیر فورس نے دن رات اپنے تمام تر وسائل کےساتھ امدادی کارروائیاں کیں ، زمینی اور ہوائی راستوں سے زخمیوں کو ہسپتالوں میں پہنچایا اور امدادی سامان کی ترسیل یقینی بنائی۔ دہشت گردی کےخلاف جنگ ہو یا قدرتی آفات ،پاکستان کی افواج ہمیشہ اپنے ملک اور اسکے شہریوں کیلئےجان نچھاور کرنے کو تیار ہوتی ہے۔ سیلاب ہوں، طوفان ہوں یا مختلف وبائیں پاک فوج کے افسر اور جوان ہمیشہ ہماری حفاظت کیلئے موجود ہوتے ہیں۔ نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی کو ،سوات میں چہرے پر گولی لگنے کے بعد، فوجی ہیلی کاپٹر پر پشاور شفٹ کیا گیا تو اسکی حالت نازک تھی چنانچہ ملٹری ہسپتال پشاور میں ڈاکٹروں نے رات گئے انتہائی پیچیدہ سرجری کی اور گولی اسکے سر سے نکالی گئی جسکی وجہ سے اسکی جان بچ گئی۔ اس وقت کے ملٹری کمانڈر نے خصوصی طور پر تمام تر انتظامات کی نگرانی کی۔ اقوام متحدہ کے امن مشن میں پاکستان آرمی کی خدمات کو پوری دنیا میں سراہا جاتا ہے اسکے علاوہ عالمی فوجی مقابلوں میں پاکستان آرمی کا دستہ ہمیشہ پوزیشن ہولڈر رہا ہے۔ پاکستان کی فضائیہ کے پائلٹ دنیا کے بہترین ہوا باز تسلیم کئے جاتے ہیں ۔ پاکستان کی افواج ڈسپلن ، مہارت اور جذبے کےساتھ ملک کی حفاظت کےلئے لڑنے اور شہادتیں دینے کےلئے ہر وقت تیار رہتی ہیں ۔ روس یوکرین جنگ کے بعد یہ چیز واضع ہو گئی ہے کہ ایک مضبوط فوج ہی ملک کی سالمیت اور خود مختاری کا تحفظ کر سکتی ہے۔

(صاحب مضمون سابق وزیر اطلاعات پنجاب ہیں)

تازہ ترین