امریکی صدر جوبائیڈن مشرق وسطیٰ کا اپناپہلادورہ مکمل کرکے واپس ہوچکے ہیں ،انہوں نے اپنے دورے کا آغاز اسرائیل سے کیا ،ا نہوں نے اسرائیل کے ساتھ ایک ایسے سیکورٹی معاہدے پر دستخط بھی کئے ، جس میں ایک بار پھر ایران کے خلاف امریکہ اور اسرائیل کے مشترکہ محاذکو فعال کرنے پر زور دیا گیا تھا، تاہم میری نظر میں بڑی پیش رفت اسرائیلی دورے کے دوران علاقائی اتحاد آئی ٹو یو ٹو کے چاروں ممبرممالک بھارت، اسرائیل، امریکہ اور متحدہ عرب امارات کے سربراہان کا ویڈیو لنک پر اعلیٰ سطحی اجلاس کا انعقاد تھا، میڈیا رپورٹس کے مطابق اجلاس میں مڈل ایسٹ کی تازہ صورتحال بالخصوص امریکہ دشمن عناصرکے خطے میں بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کا مقابلہ کرنے کیلئے باہمی تعاون کو زیربحث لایا گیا ۔ امریکی صدرکا تل ابیب سے براہ راست سعودی عرب کے دارالحکومت جدہ پہنچنا بھی اپنی نوعیت کا ایک منفرد واقعہ ہے، خطے میں ایران کا ایک اور بڑا حریف ملک سعودی عرب اسرائیل کو تسلیم کرنے سے انکاری ہے لیکن سعودی حکومت نے جوبائیڈن کے حالیہ دورے کے دوران اسرائیل پر سے فضائی پابندیاں اٹھانے کا اعلان کردیا ہے، مذکورہ اقدام سے اسرائیل کے شہریوں کا بھارت اور مشرق بعید کیلئے ہوائی جہاز کے سفرکا دورانیہ بہت مختصر ہوجائے گا۔ جوبائیڈن نے جدہ میںمنعقدہ سیکورٹی اینڈ ڈویلپمنٹ سمٹ کے دوران اظہارِ خیال کرتے ہوئے امریکہ مخالف قوتوں کو خوب آڑے ہاتھ لیا، اس سمٹ میں صدر بائیڈن کے علاوہ خلیجی تعاون کونسل کے چھ رکن ممالک اور مصر، اردن اور عراق کے رہنما ء بھی شریک تھے۔ امریکی صدر نے اپنے خطاب میں کہا کہ امریکہ کسی بھی ملک کی طرف سے ایسی کوئی کوشش بالکل برداشت نہیں کرے گاجسکا مقصد عسکری طاقت یا دھونس دھمکی کے ذریعے خطے کے کسی بھی دوسرے ملک پر غلبہ حاصل کرنا ہو۔علاوہ ازیں صدر بائیڈن کا واشگاف الفاظ میں کہنا تھا کہ امریکہ اس خطے میں موجود ہے اور کہیں نہیں جا رہا، بلکہ امریکہ مشرق وسطیٰ میں رہنے ہی کیلئے موجود ہے،ہم یہاں سے نکل کر کوئی ایسا خلا پیدا نہیں کریں گے، جسے ہمارے بعد چین، روس یا ایران پُر کریں۔ دوسری طرف ایران نے امریکی صدر کی جانب سے مشرق وسطیٰ ممالک کو ایران کے خلاف متحد کرنے کے مبینہ اقداما ت کو ایران فوبیا قرار دے دیاہے، تہران میں وزارت خارجہ کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا کہ واشنگٹن ایک بار پھر اپنی اسی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے، جس سے وہ ایران کے خلاف علاقے میں خوف کی فضا پیدا کرتا ہے اور ایک بار پھرخطے میں مختلف بحرانوں کو ہوا دے رہا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ امریکی صدر نے مشرق وسطیٰ کا اپنا یہ دورہ ایک ایسے وقت پر کیاہے جب خطے میں امریکہ کے اثرورسوخ کو شدید دھچکا لگ چکا ہے۔بیس سال بعد امریکہ کی اٖفغانستان سے واپسی، طالبان کا دوبارہ اقتدار میں آنا اور یوکرائین پر روس کے حملے نے امریکہ کی بطور واحد سپرپاور حیثیت پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔قبل ازیں، روس مخالف عسکری اتحاد نیٹو نے اسپین کے شہر میڈرڈ میں امریکی صدر جوبائیڈن کی موجودگی میں اپنے دس سالہ اسٹریٹیجک پلان کا خاکہ پیش کرتے ہوئے روس اور چین کومغرب کا کھُلا دشمن قرار دے دیا ہے، فن لینڈ اور سویڈن کی نیٹو میں شمولیت کی راہ ہموار کرنے کے اقدام نے روس کو مزید مشتعل کردیا ہے، روس نے گذشتہ چند مہینوں کے دوران یورپ کو گیس کی ترسیل میں کمی کرنا شروع کر دی ہے، جسکی وجہ سے وہاں ایندھن کی قیمتوں میں اضافہ ہورہا ہے، امریکہ اور مغربی اداروں کی جانب سے روس پر عائد اقتصادی پابندیوں کے حوالے سے عالمی ادارے پہلے ہی خبردار کرچکے ہیں کہ اگر روس نے تیل کی برآمدات کو مکمل طور پر روک دیا تو عالمی منڈی میں تیل کی قیمت 400 ڈالر فی بیرل سے بھی تجاوز کرجائے گی،کمزور معیشت کے حامل ممالک سری لنکا کی طرح ڈیفالٹ کرجائیں گے اور مدد کیلئے روس کی جانب دیکھیں گے، اس حوالے سے گزشتہ دنوں روس نے پہلے سے شیڈول معمول کی دیکھ بھال کے نام پر یورپ کو قدرتی گیس کی پائپ لائن عارضی طور پر بند کرکے ایک جھلک دکھا دی ہے۔امریکی صدر جوبائیڈن کا دورہ مشرق وسطیٰ تو اختتام پذیر ہوگیا ہے لیکن اب دنیا کی نظریں روسی صدر ولادی میر پوتن کے دورہ ایران کی جانب مرکوز ہوچکی ہیں جہاں وہ اپنے ایرانی منصب ابراہیم رئیسی اور ترک صدر طیب اردگان کے ساتھ جنگ زدہ ملک شام کی تازہ صورتحال پر تبادلہ خیال کریں گے، اس موقع پر لازمی طور پر امریکی صدر کا حالیہ دورہ مشرق وسطیٰ بھی زیربحث آئے گا۔ امریکی صدر کے حالیہ دورے کے اثرات لامحالہ طور پر پاکستان پر بھی پڑیں گے، تاہم اس وقت جبکہ خطے میں نئی صف بندیاں ہورہی ہیں، بدلتے ہوئے زمینی حقائق نے برسوں سے رائج دقیانوسی پالیسیوں کو بدل دیا ہے،افسوس کا مقام ہے کہ پاکستان خطے میں اپنا کلیدی کردار ادا کرنے کی بجائے اندرونی سیاسی چپقلش میں مبتلا ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کی قیادت ملک وقوم کی خاطر خالصتاََ پاکستان کی بہتری کا سوچے، الزام تراشی اور تکبر سے گریز کرے اور عالمی منظرنامہ میں پاکستان کو اس کا کھویا ہوا مقام دلانے کیلئے باہمی کوششیں کرے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)