• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انسان نے جوں جوں ترقی کی ،مختلف شعبہ ہائے زندگی میں آگے بڑھنے کی دوڑ شدت اختیار کرتی چلی گئی ۔ کامیابی کے حصول کیلئے جدوجہد کرنا انسان کی فطری خواہش ہے اور کچھ ایسی بُری بھی نہیں لیکن کامیابی کے معیارات انتہائی مبہم اور غیر واضح ہو گئے ہیں۔ ایک دوسرے سے آگے بڑھنے یا یوں کہیے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کیلئےمقابلے کی فضا نے زندگی کے ہر شعبے کواپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ کوئی شخص دنیا کے کسی بھی خطے میں ،کسی بھی معاشرے یا مذہب سے تعلق رکھتا ہے نا چاہتے ہوئے بھی خود کو اس دوڑ میں شامل پاتا ہے۔ اس مقابلے کی دوڑ نے مثبت رجحانات کے ساتھ ساتھ انتہائی مہلک رجحانات کو بھی پرموٹ کیا ہے۔ آج سائنس ٹیکنالوجی اور انسان کی ترقی کے ساتھ ساتھ نیوکلیئر ٹیکنالوجی بھی اس حد تک ترقی کر چکی ہےکہ انسانیت کی بقاء خطرے میں ہے ۔

ہر شخص دوسرے سے ایک قدم آگے رہنا چاہتا ہے۔لیکن کامیابی کی واضح اور قابلِ فہم تشریح سے لا علم ہے۔ آسائشات ،سہولتیں اور بے تحاشا مال و دولت کے حصول کو کامیابی سمجھاجانے لگا ہے۔ آگے بڑھنے کے شوق نے جنون کی شکل اختیار کر لی ہے آگے بڑھتے ہوئے کون روندا جا رہا ہے کس کی حق تلفی ہو رہی ہے کیا صحیح ہے کیا غلط کسی کو ان باتوں سےکوئی غرض نہیں رہی۔یہ دوڑ اخلاقی رویوں کی تنزلی اور معاشرتی بگاڑ کا باعث بن چکی ہے۔ ڈپریشن اور سٹریس میں انتہائی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور دنیا اب سٹریس مینجمنٹ کیلئےمختلف حربے اورٹیکنیکس استعمال کر رہی ہے لیکن اس کی وجوہات جاننا ہی نہیں چاہتی ۔ سٹریس ہے کیا اور اس کی بنیادی وجوہات کیا ہیں ان کے بارے میں سوچنے کیلئے ترقی کی تیز رفتاردوڑ میں وقت ہی نہیں نکل پاتا ۔ عموماًانسان خود سے جڑی اپنی قیمتی اشیاء مثلاًاولاد ، کاروبار ، پیسے ،جائیداد اور اقربا ء کی دیکھ بھال کے لیے سنجیدہ کوششیں کرتا ہے لیکن اب جب ہم سٹریس مینجمنٹ کی باتیں کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ ہم سٹریس کو اپنی ذات اورمعمولاتِ زندگی کا لازمی حصہ تسلیم کر چکے ہیں۔اسے بڑھاوا بھی خود دے رہے ہیں جس کے باعث دنیا بھر میں ذہنی امراض میں بڑی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ فکری و اخلاقی پستی اور خود غرضانہ رجحانات بڑھتے جا رہے ہیں۔ہم بچوں کو ابتداء سے ہی مقابلے کے جہنم میں خود اپنے ہاتھوں سے جھونک کر اسے کامیابی کے سفر کی شروعات قرار دیتے ہیں۔ابتدائی تعلیم کے دوران ہی ان کی ذہنی استعداد اور رجحانات کو فراموش کر کے طلباء کوایک دوسرے سے سبقت لے جانے کیلئے دوڑا دیا جاتا ہے جب بالآخر انہیں رزلٹ کارڈ تھمایا جا تا ہے تو مسابقت کی دوڑکئی ننھے ذہنوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو افزائش سے قبل ہی نِگل چکی ہوتی ہے۔اس پر والدین کے ردِ عمل سے جنم لینے والی کشمکش بچوں کی مثبت سوچ اور صلاحیتوں کا گلا گھونٹ دیتی ہے لیکن ہم نام نہاد کامیابی کیلئے بچوں سے ان کی معصومیت تک چھیننے سے گریز نہیں کرتے اور اسے زندگی کی دوڑ میں شمولیت سے تعبیر کرکے معاشرتی بگاڑ کی بنیاد رکھ دیتے ہیں۔ مقابلہ ایک مثبت عمل تھا جسے ہماری برتری کی بے جاخواہش نے منفی بنا دیا ہے۔بچوں کی اجتماعی سطح پر تربیت اور ان کی قابلیتوں کو پروان چڑھانے کی بجائے ان کو انفرادی سطح پر جانچا جاتا ہے یہیں سے بگاڑ کی شروعات ہوتی ہے۔ آج دنیا بھر کے آپس کے معاملات ظاہری یا مخفی کشیدگی کو اجاگر کر رہے ہیں۔سیلف انٹرسٹ اور سیلفش نیس میں بہت معمولی فرق ہوتاہے سیلف انٹرسٹ قدرت کی طرف سے انسان کے خمیر میں شامل ہے جو ہر انسان کا بنیادی حق اور مثبت مقابلے کا باعث ہے لیکن جب یہ سیلف انٹرسٹ سیلفش نیس میں ڈھلتا ہے تو دوسروں کی حق تلفی جیسے قبیح عمل کی بنیاد بنتا ہے۔یہی عمل قناعت کی بیخ کنی اور انسان کو ہوّس پرستی کی راہ دکھاتا ہے،احساسِ برتری احساس کمتری کی بدترین شکل اختیار کر لیتا ہے۔دوسروں سے خود کو برتر اور بہتر ثابت کرنے کا یہ رجحان ذہنی بیماری کے مترادف ہے۔اگر ہم کوئی پودا لگائیں تو اُسے محض ہماری توجہ کی ضرورت ہوتی ہے، اس کے بعد ماحول مٹی موسم اور اجزائے ضروریہ اسے پروان چڑھاتے ہیں ہمارا اس کی پرورش میں عملاً کوئی خاص کردار نہیں ہوتا ،ہم اپنے بچوں کو صحت مند اور خالص فطری ماحول مہیا کرنے میں ناکام رہے ہیں جس کے باعث ان میں ابتداء سے ہی منفی رویے پنپناشروع ہو جاتے ہیں۔

آج دنیا بھر کے طاقت ور ممالک مقابلے کی دوڑ میں کمزور ممالک کو روندتے چلے جا رہے ہیں اور اسے اخلاقی برائی یا معاشرتی بگاڑ نہیں سمجھ رہے ۔ملکوں کو حکومتیں چلاتی ہیں اور ان حکومتوں کو انسان ، یہی انسان اپنی فطرت کے مطابق ملکوں کے سیلف انٹرسٹ کے نام پر سیلفش بن کر فیصلے کرتے ہیں جبھی دنیا عدم توازن کا شکار ہو رہی ہے۔ اجتماعیت کا نظریہ دم توڑ رہا ہے ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر ترقی کے زینے طے کرنے کی بجائے دوسروں کو دھکیل کر راستہ بنانے کی روش انسانیت کشی کی طرف لیے جا رہی ہے۔خود غرضی پر مبنی کامیابی کی اس دوڑ نے عالمی سطح پر بے چینی مایوسی لالچ اور ہوس کو فروغ دے کر دیگر معاشرتی برائیوں کو جنم دیا ہے۔ہمیں اپنے اس بدترین دشمن کی پہچان کر کے اپنی آنے والی نسلوں کو اس سے محفوظ بنانا ہو گا ،مثبت مقابلے کا ماحول پیدا کر کے خود پرستی اور خود غرضی کا راستہ روکنا ہو گا ورنہ ہم دوسروں کے لیے تو مہلک ہوں گے ہی اپنوں کے لیے بھی برادرانِ یوسف ثابت ہوں گے۔

(مصنف جناح رفیع فائونڈیشن کے چیئرمین ہیں)

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین