معروف وکیل سلمان اکرم راجہ کا کہنا ہے کہ فل کورٹ ضروری نہیں، لارجر بینچ ہونا چاہیے، لارجر بینچ میری نظر میں ایک اچھا قدم ہو گا۔
سلمان اکرم راجہ نے میڈیا سے گفتگو میں کہا ہے کہ نظرِثانی کی اپیل انہی جج صاحبان کے پاس جائے گی، جب تک نظرِثانی کی باری آئے گی اس وقت تک ہو سکتا ہے کوئی فیصلہ ہو جائے، پھر اس فیصلے کے خلاف بھی ریویو میں جانا ہو گا، یہ ہو سکتا ہے کہ دونوں نظرِثانی کی اپیلوں کو لارجر بینچ ایک ساتھ سن لے، یہ بات تو ٹھیک نہیں کہ فل کورٹ کے لیے معاملے کو ستمبر تک لٹکا دیں۔
انہوں نے کہا ہے کہ یہ ہوسکتا تھا کہ لارجر بینچ بنا دیتے، 9 رکنی اور 11 رکنی بینچ بنانا تو چھٹیوں میں بھی ممکن تھا۔
سلمان اکرم راجہ کا کہنا ہے کہ میں نے کہا تھا کہ 9 جج بیٹھ جائیں تو بات مناسب ہو گی۔
انہوں نے کہا کہ اپنی بات پر قائم ہوں کہ چوہدری شجاعت کے خط کی کوئی وقعت نہیں ہے، پارلیمانی پارٹی کا فیصلہ ہونا چاہیے تھا، جو ووٹ پڑے ان کے مطابق فیصلہ ہونا چاہیے تھا۔
سلمان اکرم راجہ نے کہا ہے کہ اسد عمر کے خط کی بھی کوئی آئینی حیثیت نہیں ہے، حیثیت پارلیمانی پارٹی سربراہ کی ہے، پارٹی سربراہ کی نہیں، ڈپٹی اسپیکر نے پارٹی ہیڈ کے لیٹر کو ترجیح دے کر غلط کیا، ڈپٹی اسپیکر کو پارلیمانی پارٹی کے ہیڈ کے خط کو ترجیح دینا چاہیے تھی، پارٹی ہیڈ کا آئین میں کوئی کردار نہیں ہے، پارٹی ہیڈ پارٹی کے اندرونی معاملات دیکھ سکتا ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ پارٹی ہیڈ پارٹی کے اندرونی معاملات دیکھ سکتا ہے، ڈپٹی اسپیکر کے 10 ووٹ مسترد کرنے کا کوئی قانونی جواز نہیں، کسی قانون میں نہیں لکھا کہ پارلیمانی پارٹی نے کیسے کام کرنا ہے، آئین کہتا ہے کہ فیصلہ پارلیمانی پارٹی کا ہونا چاہیے۔