• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عمران خان کی نیب ترامیم کیخلاف درخواست، حکومت کو نوٹس جاری

پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان —فائل فوٹو
پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان —فائل فوٹو

سپریم کورٹ آف پاکستان نے نیب ترامیم کے خلاف پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے حکومت کو نوٹس جاری کر دیا۔

چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے درخواست کی سماعت کرتے ہوئے کہا کہ نیب ترامیم کو چیلنج کرنے پر مزید وضاحت کی ضرورت ہے، بے نامی دار ایشو پر بھی وضاحت کریں۔

انہوں نے پی ٹی آئی کے وکیل خواجہ حارث سے مخاطب ہو کر کہا کہ اگر خواجہ صاحب آپ اپنی گزارشات کا مختصر چارٹ بنا لیں تو بہتر رہے گا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ نیب ترامیم کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں بھی چیلنج کیا گیا ہے، آرٹیکل 199 کی درخواست میں ہائی کورٹ بنیادی حقوق سے آگے نہیں جا سکتی، بہتر رہے گا کہ معاملے پر اسلام آباد ہائی کورٹ کا وزڈم پہلے آ جائے، اگر حکومت نیب قانون ختم کر دیتی تو آپ کی درخواست کی بنیاد کیا ہوتی؟

پی ٹی آئی کے وکیل خواجہ حارث نے جواب دیا کہ اسلام اور آئین دونوں میں احتساب پر زور دیا گیا ہے، عدلیہ کی آزادی اور عوامی عہدے داروں کا احتساب آئین کے بنیادی جزو ہیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا عدالت ختم کیا گیا نیب قانون بحال کر سکتی ہے؟

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آپ آئین کی اسلامی دفعات کا حوالہ دے رہے ہیں، چیک اینڈ بیلنس ہونا جمہوریت کے لیے بہت ضروری ہے، کرپشن یہ ہے کہ آپ غیر قانونی کام کریں اور اس کا کسی کو فائدہ پہنچائیں، کرپشن بنیادی طور پر اختیارات کا ناجائز استعمال اور خزانے کو نقصان پہنچانا ہے۔

چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ اگر کہیں ڈیم بن رہا ہو اور کوئی لابی اس کی مخالفت کرے تو وہ قومی اثاثے کی مخالفت ہو گی، سابق جج مظہر عالم کہتے رہے کہ ڈی آئی خان کو ڈیم کی ضرورت ہے، احتساب گورننس اور حکومت چلانے کے لیے بہت ضروری ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے پی ٹی آئی کے وکیل سے کہا کہ آپ نے لکھا ہے کہ ترامیم پارلیمانی جمہوریت کے منافی ہیں، آپ نے لکھا ہے کہ کئی ترامیم آئین کے بنیادی ڈھانچے کے برعکس ہیں، آپ بتائیں کہ کونسی ترمیم آئین کے برخلاف ہے؟ ہمارا کام یہ نہیں کہ آپ کو درخواست مزید سخت بنانے کا کہیں، آپ کا کام ہے ہمیں بتانا کہ کونسی ترمیم کس طرح بنیادی حقوق اور آئین سے متصادم ہے۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ کوئی ترمیم اگر مخصوص ملزمان کو فائدہ پہنچانے کے لیے ہے تو وہ بتائیں، کیا آپ چاہتے ہیں کہ عدالت پارلیمنٹ کو قانون میں بہتری کا کہے؟

پی ٹی آئی کے وکیل خواجہ حارث نے جواب دیا کہ جو ترامیم آئین سے متصادم ہیں انہیں کالعدم قرار دیا جائے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ کیا یہ دلائل قابلِ قبول ہیں کہ کوئی قانون پارلیمانی جمہوریت کے خلاف ہونے پر کالعدم کیا جائے؟ نیب ترامیم کے پیچھے عدالتی فیصلے نظر آتے ہیں، کیا پارلیمنٹ بین الاقوامی معاہدوں کے مطابق قانون بنانے کی پابند ہے؟

پی ٹی آئی کے وکیل نے استدعا کی کہ ترامیم کے تحت ریلیف کو درخواست پر فیصلے سے مشروط کیا جائے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اگر ریلیف کے حوالے سے کوئی بہت ایمرجنسی ہے تو اس حوالے سے بتائیں، یہ بھی بتائیں کہ کیا بہت زیادہ زیرِ التواء مقدمات ترامیم سے متاثر ہوں گے؟

خواجہ حارث نے کہا کہ حکمِ امتناع نہیں مانگ رہا لیکن ترامیم کے تحت ملنے والا ریلیف مشروط کیا جائے۔

عدالت نے ترامیم کے تحت نیب قوانین سے ملنے والے ریلیف کو عدالت کے حتمی فیصلے سے مشروط کرنے کی درخواست پر حکومت کو نوٹس جاری کر دیا۔

چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ آئین کے تحت عدالت نے اپنا کام کرنا ہے، اپنے حلف کے تحت شفاف انداز میں کام جاری رکھیں گے، جمعہ پُرامن ہوتا ہے اس لیے آئندہ جمعے کو دوبارہ سماعت کریں گے، عام دنوں میں تو شام کو بھی کچھ نہ کچھ ہوتا رہتا ہے۔

چیف جسٹس نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے مخاطب ہو کر کہا کہ ہم رات 9 بجے تک بیٹھتے ہیں، کبھی آپ کو بھی زحمت دیں گے۔

سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کے خلاف عمران خان کی آئینی درخواست کی سماعت آئندہ جمعے تک ملتوی کر دی۔

قومی خبریں سے مزید