محمد عبدالمتعالی نعمان
امیر المومنین،خلیفہ ٔ دوم ،مرادِ رسولؐ ، عشرۂ مبشرہؓ کے بزم نشین، امام عادل، فاروق اعظم ، سیدنا حضرت عمر ؓ بن خطاب قریش کی مشہور شاخ بنو عدی سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ کا نام عمرؓ، لقب فاروق اور کنیت ابو حفص تھی۔ والد کا نام خطاب بن نفیل اور آپ کی والدہ کا نام خنتمہ تھا۔ یہ عرب کے مشہور سردار ہشام بن مغیرہ کی بیٹی تھیں۔ آپؓ کا سلسلہ نسب آٹھویں پشت پر آنحضرت ﷺ سے مل جاتا ہے۔ قریش کی سفارت اور مقدمات کی ثالثی کا عہدہ آپؓ کے خاندان سے مخصوص و متعلق تھا۔
آغازشباب ہوا تو نسب دانی، تیر اندازی ،سپہ گری ،پہلوانی اور خطابت میں خصوصی مہارت حاصل کی۔ انتہائی نڈر اور بہادر تھے اور اکثر عکاظ کے میلے میں اپنے کمالات کا مظاہرہ کرتے تھے، آپ ؓ کا شمار عرب کے ان چند افراد میں ہوتا تھا، جو لکھنا پڑھنا جانتے تھے۔ ذریعۂ معاش تجارت تھا،چناں چہ اس ضمن میں حضرت عمرؓ نے عراق، شام اور مصر کے متعدد سفر کئے جن سے آپؓ میں تجربہ کاری اور معاملہ فہمی کے اوصاف میں نکھار پیدا ہوا۔نبوت کے چھٹے برس مشرف بہ اسلام ہوئے اور دربارِ رسالت سے ’’فاروق‘‘کا خطاب حاصل کر کے تاریخ عالم کی فقید المثال شخصیات میں داخل ہو گئے،جنہیں انگلیوں پر گنا جا سکے۔
حضرت عمرؓ کے اسلام لانے سے قبل تقریباً چالیس افراد دولتِ اسلام سے فیض یاب ہوچکے تھے۔ آپؓ کے اسلام قبول کرنے کے بعد مسلمانوں نےعلانیہ خانہ کعبہ میں نماز ادا کی۔حضرت عمرؓ کو اسی جرأت پر ’’فاروق‘‘ کا لقب عطا ہوا۔تاریخ شاہد ہے کہ فاروق اعظمؓ کو سید عرب و عجم، رحمتِ دو عالم، خاتم النبیین، نبی کریم حضرت محمد ﷺ نے اپنے رب کریم سے دامن دعا پھیلا کر مانگا تھا۔آپ کے قبول اسلام کے بعد اسلام کی شوکت و سطوت کا آغاز ہوا اور زمین و آسمان کے اہلِ حق شاداں و فرحاں تھے۔
جو اپنے مرشد کریم ﷺکی نگاہِ لطف و کرم کا تارا تھا، جسے آغوشِ نبوت نے بڑے اہتمام اور ناز سے سنوارا تھا۔ جس کی ہجرت علانیہ اور نصرتِ الٰہی سے معمور تھی۔جس کی زبان سے، حق گویا تھا۔ جس کے دل پر انوار الٰہی کا نزول ہوا کرتا تھا۔جس کا شمار عالم ، محدث ،مفسر اور مجتہد اکابر صحابہ ؓ میں تھا۔ جس کی نیکیاں آسمان کے ستاروں کے برابر اور جو چراغ اہلِ جنت ہے، جس کا وقار آسمان دنیا کا ہر فرشتہ کرتا ہو۔
اپنے آقا و مولیٰ سے جس کے ادب و نیاز نے عشق کو نیا ذوق جمال بخشا تھا جس کے درّے کی ہیبت سے باطل ہر وقت لرزہ بر اندام رہتا تھا، جس کے پیوند لگے لباس کے رعب سے شاہانِ عالم پر کپکپی طاری رہتی تھی۔ جس گلی سے وہ گزرتا، وہاں سے ابلیس بھاگ جاتا تھا،جس کی وسیع و عریض سلطنت میں کوئی بھوکا نہیں سوتا تھا، جس کی رعایا رات کو آرام کرتی اور وہ خود ’’راتوں‘‘ کو جاگ کررعایا کی خبر گیری کیا کرتا تھا۔ جس کی درویشی اور فقر غیور نے انسانوں کو عزت نفس اورخودداری کا درس دیا ۔ حق گوئی، وبیباکی جس کی سرشت تھی۔ وہ خود بھی حق گو تھا اور دوسروں کی حق گوئی سے خوش ہوتا تھا۔ جس کا نام نامی آج بھی عدل و انصاف،دیانت و امانت ،حق گوئی و بیباکی اور جرأت و استقامت کا جلی عنوان بن کر چمک رہا ہے۔
حضرت عمر ؓ بن خطاب سابقون الاولون ؓ اور عشرہ مبشرہؓ میں شامل ہیں۔500 پانچ سو سے زائد احادیث مبارکہ آپؓ سے مروی ہیں۔آپ ایک عظیم عادل حکمراں ،فاتح سیاست داں ومدبر اور منتظم بھی تھے۔ پیچیدہ فقہی مسائل میں آپ ؓ کی مجتہدانہ رائے تمام عقدے کھول دیا کرتی، یہ حرف آخر کی حیثیت رکھتی تھی۔
آپؓ فصیح و بلیغ خطیب تھے اور سخن فہمی کا عمدہ ذوق رکھنے کے ساتھ ساتھ شعرا ئے عرب کے کلام پر تنقیدی نگاہ رکھتے تھے۔ آپؓ کے حکیمانہ مقولے آج بھی عربی ادب کی جان ہیں۔سیدنا حضرت عمرؓ کے فضائل و مناقب بے شمار ہیں۔آپ کی فضیلت و برتری اور عظمتِ شان سے متعلق بہت سی احادیث مبارکہ وارد ہیں، آپؓ مرادِ رسولؐ ہیں۔آپﷺ نے فرمایا :(ترجمہ) ’’اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر ؓ ہوتے ‘‘۔(ترمذی)
آنحضرت ﷺاور آپﷺ کے اہل بیت اطہارؓ سے سیدنا عمرؓ والہانہ عقیدت و محبت رکھتے تھے۔ جس کے ان گنت واقعات تاریخ و کتب سیرت کی زینت ہیں۔ آنحضرت ﷺ کی حیاتِ مبارکہ میں آپ خاتم النبیین ﷺ کے انتہائی قریب اور مشیر خاص رہے اور تمام معرکوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور تمام غزوات میں نبی کریم ﷺ کے شانہ بشانہ رہے۔ سیدنا حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے عہد خلافت میں بھی ان کے دستِ راست، مشیر اور قاضی رہے۔ خلیفۂ رسول ،افضل البشر بعد ازانبیاء سیدنا حضرت ابو بکر صدیقؓ کے وصال کے بعد خلافت راشدہ کی باگ ڈور سنبھالی اور زندگی کے ہرشعبے میں اصلاحات کیں ۔ جن سے اقوام عالم ہمیشہ فیض یاب ہوتی رہیں گی۔
فاروقِ اعظم ؓنے اپنے مبارک دور میں بہت سی سیاسی، انتظامی، معاشی ، معاشرتی اور تمدنی اصلاحات ایجاد فرمائیں ان کو اولیات عمر ؓ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔جن میں سے کچھ یہ ہیں۔ بیت المال کا قیام، سن ہجری کا آغاز، امیرالمومنین کا لقب اختیار کیا، عدالتیں قائم کیں اور قاضی مقرر کئے۔ فوجی دفتر ترتیب دیئے اور فوجی چھائونیاں قائم کیں۔ مردم شماری کرائی ،ملک کی پیمائش کا قاعدہ جاری کیا۔ جیل خانہ جات اور پولیس کا محکمہ قائم کیا۔ نہریں کھدوائیں، کئی شہر آباد کرائے، مثلاً کوفہ، بصرہ، فسطاط (قاہرہ) وغیرہ، رضا کاروں کی تنخواہیں مقرر کیں۔
دیگر ملکوں کے تاجروں کو ملک میں آنے اور تجارت کی اجازت دی، راتوں کو گشت کرکے رعایا کا حال معلوم کرنے کا طریقہ نکالا، پرچہ نویس مقر ر کئے، مسافروں کے لئے کنویں اور سرائے تعمیر کئے، ریاست کو باقاعدہ صوبوں میں تقسیم کیا، وظائف کا اجراء کیا۔ مفلوک الحال غیرمسلموں کے لئے روزینے مقرر کئے۔ ہجو اشعار کہنے والوں کے لئے تعزیر مقرر کی۔
نماز تراویح باجماعت پڑھنے کا اہتمام کیا۔ نماز جنازہ میں چار تکبیروں پر سب کا اجماع کیا۔ مساجد کےاماموں اور موذنوں کی تنخواہیں مقرر کیں وغیرہ وغیرہ۔اپنے ہی دورِ خلافت میں اس وقت کی سپرپاورز روم و ایران کو شکست فاش دی اور یوں قیصر و کسریٰ کی شہنشاہیت کے تاریک دور کا خاتمہ ہوا۔ آپؓ نے نظم حکومت کو ایسا انصاف عطا کیا کہ جس پر انسانیت کو ہمیشہ ناز رہے گا۔
امیر المومنین سیدنا فاروق اعظمؓ نے اپنے دورِ خلافت میں ایک ہزار سے زائد شہر مع ان کے مضافات اپنے حسن تدبّر سے فتح کئے اور وہاں قرآن و سنت کا حقیقی نظام نافذ فرمایا۔
خلیفۂ ثانی ، مراد رسولؐ سیدنا عمر فاروقؓ نے اپنے عہد زریں میں یوں تو اسلام اور مسلمانوں کو بڑی عظمت بخشی، مگر انہوں نے اسلامی قلمرو کے ڈانڈے ایک طرف مصر سے ملحق افریقی صحرائوں سے ملادیئے تو دوسری طرف عراق و شام و ایران کے طول و عرض سے گزر کر افغانستان کے شہر کابل تک پہنچ گئے تھے اور ایک ایسی وسیع سلطنت قائم کردی تھی، جس کی مثال تاریخ نے شاید ہی کبھی دیکھی ہو۔سیدنا حضرت عمر فاروقؓ 22لاکھ مربع میل کے مقتدر فرماں روا تھے، لیکن آپؓ کے تقویٰ ، سادگی اور زہد و قناعت کا یہ عالم تھا کہ آپؓ کے کرتے پر کئی پیوند لگے ہوتے اور غذا میں خشک روٹی اور کھجور کھا کر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے تھے۔
آپؓ کی خلافت اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ اور رحمتِ واسعہ کا ایک عجیب نمونہ تھی جو کمالات رسول خداﷺ کی تعلیم و تربیت نے آپؓ کی ذاتِ مبارکہ میںپیدا کردیئے تھے ان کے ظہور کا پورا موقع زمانہ خلافت ہی میں ظاہر ہوا ۔جو وعدے حق تعالیٰ نے پیغمبر اعظم و آخرﷺ سے کئے تھے اور جو پیش گوئیاں قرآن مجید اور احادیثِ مبارکہ میں غلبۂ دین ، ظہور ہدایت اور فتوحات کی مذکورہیں ،وہ بہ حسن وخوبی آپؓ کی خلافت میں مکمل ہوئیں۔حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرمایا کرتے تھے ’’حضرت عمرؓ کا اسلام لانا ہمارے لئے فتح مبین تھا۔ آپؓ کی ہجرت ہمارے لئے نصرت الٰہی تھی۔ آپؓ کی خلافت سراپا رحمت تھی۔ (ابن سعد)
اللہ تعالیٰ کے حضور جواب دہی اور احساس ذمہ داری کا احساس اتنا شدید تھا کہ آپؓ فرمایا کرتے تھے۔ اگر ساحل فرات پر کوئی کتا بھی بھوک پیاس سے مرگیا تو مجھے ڈر ہے کہ اللہ تعالیٰ کے دربار میں اس کی جواب دہی کرنی پڑے گی۔آپؓ کی شخصی عظمت کا اعتراف اپنوں کے علاوہ اغیار بھی کرنے پر مجبور ہیں۔ اپنے دورِ خلافت میں حضرت عمرؓ نے اسلامی حکمرانی کا جو نمونہ پیش کیا۔ بڑے بڑے عالموں، مورخوں ،جرنیلوں اور سیاست دانوں نے ہمیشہ اسے خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے دنیا کے حکمرانوں کے لئے لائق تقلید نمونہ قرار دیا ہے۔
شہادت کے بعد آپؓ اپنی آرزو اور تمنا کے مطابق روضہ نبویؐ میں حضرت ابوبکر صدیقؓ کے پہلو میں آسودہ خاک ہوئے۔ اور یوں جس طرح زندگی میں حضورﷺ کی معیت حاصل تھی، بعداز شہادت بھی شافع محشرﷺ کی معیت حاصل ہے۔ حضرت عمر فاروقؓ نہ صرف اسلامی تاریخ بلکہ تاریخ عالم کا روشن ترین اور درخشاں باب ہیں۔ آپؓ کا نام نامی آج بھی جرأت و استقامت، حق گوئی و بیباکی اور عدل و انصاف کا مہکتا استعارہ اور ضرب المثل بنا ہوا ہے۔
سیرتِ فاروقیؓ پر ایک نظر
٭…آپ کا نام عمر، کنیت ابو حفص، جب کہ آپ فاروق اعظم کے لقب سے مشہور ہیں۔
٭…والد کا نام خطاب اور والدہ کا نام خنتمہ تھا۔ سلسلۂ نسب آٹھویں پشت میں رسول اللہ ﷺ سے ملتا ہے۔
٭…عام الفیل کے تیرہ سال بعد پیدا ہوئے۔ستائیس سال کی عمر میں سن ۶ ھ میں دعائے نبوی ﷺکی برکت سے مشرف بہ اسلام ہوئے، اس بناء پر آپ کو دعائے رسولؐ اور مرادِ رسولؐ کہا جاتا ہے۔
٭…آپ کا رنگ گندم گوں،داڑھی گھنی اور مونچھیں (قدرے) بڑی،قد نہایت دراز یہاں تک کہ سیکڑوں کے مجمع میں کھڑے ہوتے تو سب سے سربلند نظر آتے۔
٭… آپ کاشمار سابقین اولین (ابتدائے اسلام میں اسلام لانے والوں )میں ہوتا ہے، اس کے علاوہ آپ عشرۂ مبشرہؓ (جنہیں دنیا ہی میں جنت کی بشارت دی گئی) میں داخل ہیں ۔
٭… خودداری، بلند حوصلگی اور معاملہ فہمی کے پیش نظر قریش میں آپ سفارت کے منصب پر فائز تھے۔
٭… آپ سے رسول اللہ ﷺ کی پانچ سو انتالیس احادیثِ نبوی مروی ہیں۔
٭…آپ کے دورِ خلافت میں اسلامی فتوحات 22لاکھ مربع میل کے رقبے تک پھیل گئی تھیں۔
٭…مجوسی غلام ابو لولو فیروز نے نمازِ فجر میں مسجد نبوی میں آپ پر خنجر سے حملہ کیا، تین جگہ وار کیے، ان حملوں سے جانبر نہ ہوسکے اور جام شہادت نوش کیا۔