’’وادیٔ کشمیر‘‘ قدرت کی اُن بے شمار خُوب صُورت اور فطری حُسن سے مالا مال وادیوں میں سے ایک ہے، جو کارخانۂ قدرت کے لامتناہی سلسلے میں جگہ جگہ پھیلی ہوئی ہیں۔ مغل شہنشاہ جہانگیر اس خطّے کو دیکھ کر دم بخود رہ گیا تھااوربے اختیار پکار اٹھا تھاـ ؎ اگر فردوس بر روئے زمیں است .....ہمیں است و ہمیں است و ہمیں است ۔ بلاشبہ، آزاد جموں وکشمیر اپنے شان دار محل ِوقوع، بے پناہ خُوب صورتی و رعنائی اور لازوال حُسن و دل کشی میں کوئی ثانی نہیں رکھتا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ وادی دنیا بھر کے سیّاحوں کے لیے خاص اہمیت رکھتی ہے۔ یہاں کے پہاڑوں میں بکھرے سرسبز جنگلات، خوش جمال وادیاں، جھرنوں، دریائوں کے بے مثال اور حیران کن قدرتی نظارے اس خطّےکے جنّت نظیر ہونے کی گواہی دیتے ہیں۔
ہمارا سیّاحتی گروپ اس باروادئ کشمیر کی ایک انتہائی خُوب صُورت و دل فریب جھیل، ’’رتی گلی‘‘ کی سیّاحت کے لیے عازمِ سفر ہوا، تو جون کی تپتی گرمی کے باوجود وادی کاموسم انتہائی دل کش تھا۔ سطح سمندر سے بارہ ہزار فٹ کی بلندی پر واقع یہ جھیل سال کے نو ماہ برف سے ڈھکی رہتی ہے۔ جھیل تک پہنچنے کے لیے انتہائی دشوار گزار راستوں سے گزرنا پڑتا ہے کہ ان پُرخطر راستوں کے ایک جانب پہاڑ اور برفانی تودے ہیں، تو دوسری جانب ہزاروں فٹ گہری کھائیاں۔ دس برس قبل جب ہم وادیٔ نیلم پر واقع مقام، تاؤ بٹ گئے تھے، تو مقامی باشندوں سے رتی گلی جھیل کی تعریف سُن کر کئی باروہاں جانے کی کوشش کی، مگر شدید برف باری، تودوں کے گرنے اور جھیل کا راستہ مسدود ہونےکے باعث ہر بارمایوس لوٹنا پڑا۔
بہرحال، رواں برس ماہِ جون میں راستہ کھلنے کا علم ہوتے ہی فوراً رختِ سفر باندھ لیا اوردس سال قبل دیکھے گئے خواب کی تعبیرکے لیے رتی گلی جھیل دیکھنے روانہ ہوگئے۔ ہماری کیری ڈبّا وین دشوار گزار راستوں سے گزرتی ہوئی مظفر آباد کی جانب گام زن تھی۔ سڑک کے ایک طرف تودوں کے گرنے کا خوف اور دوسری جانب ہیبت ناک کھائیاں دیکھ کر دل مسلسل دہل رہا تھا۔ مری سے کوہالہ پُل عبورکرتے ہی تیز بارش شروع ہوگئی اور بارش کے سبب کسی بھی ممکنہ حادثے کا سوچ کر ہی ہمارا خوف دوچند ہوگیا، مگرڈرائیور نے کہیں رکنے کے بجائے سفر جاری رکھنے کو ترجیح دی اور بالآخررات گئے ہمیں بخیر و عافیت مظفر آباد پہنچانے میں کام یاب ہوگیا۔
مظفر آباد، آزاد کشمیر کا صدر مقام ہے۔ پیرچناسی کے دامن اور دریائے جہلم اور نیلم کے سنگم پرواقع اس شہرکے مغرب میں صوبہ خیبرپختون خوا، جب کہ مشرق میں کپواڑہ اور بارہ مولا واقع ہیں۔ اسلام آباد سے 138کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ضلع مظفر آباد کی زیادہ تر آبادی تعلیم یافتہ اور کاروباری افراد پر مشتمل ہے۔ چہار اطراف حسین و جمیل پہاڑوں سے گِھری اس وادی کی سب سے بلند چوٹی ’’بگڑہ‘‘ موسمِ گرما میں بھی برف سے ڈھکی رہتی ہے۔ یہیں سے ایک راستہ پُرفضا مقام پیر چناسی کی طرف نکلتا ہے اور قریب ہی بزرگ ہستی، سائیں سخی سہیلی سرکار ؒ کا مزار واقع ہے۔ کئی گھنٹوں کے دشوار گزار اور تھکادینے والے سفر کے بعد مظفر آباد پہنچتے ہی سب سے پہلے ایک ہوٹل میں کمرے حاصل کیے اور رات کا کھانا کھاتے ہی گہری نیند کی آغوش میں چلے گئے۔
علی الصباح بیدار ہوکر ناشتے کے فوری بعد اپنی پہلی منزل اٹھمقام کی جانب چل پڑے۔ یہاں کے ایک مقامی باشندے کے مطابق، کسی زمانے میں یہاں صرف آٹھ مکانات ہوتے تھے، جس کی بنا پر یہ جگہ آٹھ مکان کے نام سے مشہور ہوگئی، لیکن آبادی اور مکانات میں اضافے کے بعد یہ علاقہ ’’آٹھ مکان‘‘ سے ’’اٹھمقام‘‘ ہوگیا۔ اٹھمقام کا مظفر آباد سے فاصلہ84 کلومیٹر ہے۔ یہ ڈسٹرکٹ نیلم کا ہیڈ کوارٹر ہے۔
یہاں بازار، پوسٹ آفس، اسپتال، ہوٹلز، ریسٹ ہاؤسز اور ٹیلی فون ایکسچینج کے علاوہ ضروریاتِ زندگی کی ہر شئے دست یاب ہے۔ بانڈی چیک پوسٹ اور چلہانہ چیک پوسٹ سے آگے دریائے نیلم کے کنارے کیرن گائوں آجاتا ہے، جب کہ قریب ہی آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر کا بارڈر بھی ہے۔ یہیں سے ایک سڑک اپَر نیلم تک جاتی ہے، جہاں سے آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیرکا نظارہ کیا جا سکتا ہے۔
یہاں کچھ دیر ٹھہرنے اور سستانے کے بعد ہم نے رتی گلی جھیل جانے کے لیے دواڑیاں کا انتخاب کیا۔ رَتی گلی تک کا سفر جیپ یا فور وہیل ہی سے ممکن ہے، عام گاڑی سے وہاں جانے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ دواڑیاں میں ہم سے پہلے ہی بہت سے سیّاح جیپیں بُک کرواکر جھیل کی جانب جاچکے تھے، تو مزید کوئی جیپ دست یاب نہیں تھی۔
بہرحال، کافی تگ و دو کے بعد آخرکار ہمیں ایک چھوٹی پراڈو گاڑی مل ہی گئی۔ پراڈو کے ڈرائیور سے سفری اخراجات کے معاملات طے ہونے کے بعد جھیل کی جانب ہمارا سفر شروع ہوگیا۔ دواڑیاں سے رَتی گلی تک کا فاصلہ اٹھارہ کلومیٹر ہے اور یہ انتہائی دشوار گزار راستوں پر محیط ہے، جس کا اندازہ ہمیں کچھ ہی دیر میں ہونا شروع ہوگیا۔ چھوٹی پراڈو ہچکولے کھاتی ہوئی ہمیں رَتی گلی کی جانب لے جا رہی تھی۔ جیپ ٹریک بہت دشوار تھا اور ٹریک پر جا بجا بڑے بڑے پتھر بھی پڑے تھے۔ ایک جھٹکے سے جسم کبھی دائیں، تو کبھی بائیں جانب ہوجاتا۔
کبھی آگے کبھی پیچھے، یہ سلسلہ بیس کیمپ تک جاری رہا۔ جگہ جگہ پہاڑی چشموں کا پانی تیزی سے بہتا ہوا راہ میں آیا، مگرپراڈو چشمے کے پانیوں اور رکاوٹوں کو عبور کرتی، ہچکولے کھاتی اپنی منزل کی جانب رواں دواں تھی۔ پانچ کلومیٹر کے سفر کے بعد ہی پہلے گلیشیئر اور پھر فوری بعد دوسرے، تیسرے اور پھر ایک کے بعد ایک گلیشیئر کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے، جب کہ ہر گلیشیئر کا راستہ پچھلے سے کچھ مشکل ہی تھا۔ ایک جانب برف کے اونچے ٹیلے اور نیچے شور مچاتا پانی، ڈرائیور کی ذرا سی کوتاہی گاڑی کو ہزاروں فٹ گہری کھائیوں میں گراسکتی تھی۔
ایک موقعے پر گلیشیئر سے گزرتے ہوئے گاڑی پھنس کر کئی بار پھسل کے ریورس ہوئی، تو ڈرائیور نے سب کو گاڑی سے نیچے اترنے حکم دیا اور خود بڑی مشکلوں سے اس خطرناک گلیشیئر سے گاڑی نکالنے میں کام یاب ہوا۔ ایک وقت تو ایسا لگ رہا تھا کہ ہمیں یہیں سے واپس جانا پڑے گا، سب کی زبان پر اللہ اکبر اور استغفار کا ورد جاری ہوچکا تھا۔ بہرحال، گاڑی گلیشیئر سے نکلی، تو ایک بار پھر بیس کیمپ کی جانب سفر شروع ہوگیا۔
ڈرائیور نے ہمیں خوف کے عالم میں دیکھا تو کہا ’’مَیں گزشتہ آٹھ سال سے اس رُوٹ پر گاڑی چلا رہا ہوں، کئی سیّاح تو اس خطرناک سفر کو برداشت ہی نہیں کرپائے اور راستے ہی سے واپس چلے گئے۔ کئی نے تو یہاں تک پیش کش کی کہ ہم سے دُگنے پیسے لے لو، مگر خدارا ہمیں واپس لے چلو۔ آپ لوگ تو ماشاء اللہ جوان ہو، ہمّت سے کام لو۔‘‘ ڈرائیور کی باتوں سے ہماری کچھ ڈھارس بندھی۔ راستے میں جگہ جگہ بہتے چشمے آتے رہے اور گاڑی ان دودھیا پانیوں کو روندتی گزرتی رہی۔ کبھی اس کے انجن کی آواز چٹانوں سے سر ٹکراتی اور کبھی یوں محسوس ہوتا کہ گاڑی ان مناظر کی ہیبت ناکیوں کے آگے سر جھکائے اپنی سانس روکے خاموشی سے رینگتی چلی جارہی ہے۔
گاڑی کی پچھلی نشستوں کے درمیان ہمارا سامان تھا اور سامان کے ساتھ ہم دوست بھی باری باری پچھلی، اگلی نشستوں پر آتے جاتے رہے۔ بہرحال، رَتی گلی جھیل کا سفر جاری تھا۔ آخرکار،گیارہ گلیشیئرز عبور کرنے کے بعد ڈرائیور نے ونڈ اسکرین سے تھوڑا سا جُھک کر سامنے دیکھتے ہوئے خبر سنائی کہ ہم بیس کیمپ کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ سامنے کچھ فاصلے پر جیپوں کا گویا جمعہ بازار نظر آیا۔ لینڈ سلائیڈنگ اور گلیشیئرز کی وجہ سے گاڑی کی رسائی یہیں تک تھی اور سامنے ایک اور بہت بڑا گلیشیئر ہمارا منتظر تھا، جہاں سے ہمیں پیدل ہی گزرنا تھا۔ ہم اپنے اپنے بیگ سنبھال کر گاڑی سے اتر گئے۔
جون کے مہینے میں بھی درجۂ حرارت منفی میں تھا، آسمان پر نگاہ ڈالی، تو سیاہ بادلوں نے پورے علاقے کو گھیرا ہوا تھا، یوں لگ رہا تھا کہ کچھ ہی دیر میں بارش شروع ہوجائے گی، مگر ایسا نہیں ہوا۔ یہ آخری گلیشیئر طویل ترین تھا، جو بلندی سے نیچے کی جانب آرہا تھا اور ہم پیدل اس پر چلے جارہے تھے۔ بائیں طرف نشیب پر کچھ خرگوش اٹکھیلیاں کرتے نظر آئے، پھر کچھ آگے بڑھے تو دُور ہی سے بیس کیمپ نظر آگیا، جہاں درجنوں کی تعداد میں خیمے نظر آرہے تھے۔ راستے میں ہمیں کچھ سیّاح ملے، جو ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے واپس آرہے تھے۔
سلام دُعا کے بعد ہم نے انھیں جھیل تک جانے کے ارادے سے آگاہ کیا، تو انھوں نے سختی سے تلقین کی ’’ہماری مانیں تو جھیل کے سفر پر نہ ہی جائیں تو بہتر ہے، بہت کٹھن، دشوار گزار اور مشکل راستہ ہے۔‘‘ مگر ہم ان کی ہدایت نظرانداز کرکے آگے بڑھتے رہے اور کچھ ہی دیر میں بیس کیمپ پہنچ گئے۔ یہاں ایک طرح سے گہما گہمی کا منظر تھا۔ کچھ سیّاح جھیل سے واپس آکر یہاں گھوم پھر رہے تھے، کچھ جھیل جانے کی تمنّا لیے بیٹھے تھے۔ کہیں چائے اور کافی کا دَور چل رہا تھا، کہیں موسیقی کی تھاپ پر رقص ہو رہا تھا۔ ہم نے اپنا سامان ایک کیمپ میں رکھا اور جھیل کی جانب چل پڑے۔
یہاں سے جھیل تک کا سفر مزید ایک گھنٹے کا تھا، تو ہم نے گھوڑوں پر جانے کا فیصلہ کیا۔ سدھائے ہوئے یہ گھوڑے مالک کے بغیر بھی مسافر کو جھیل تک پہنچا دیتے ہیں، لیکن یہ راستہ بھی بہت کٹھن تھا، جو پیدل طے کرناخاصا مشکل تھا۔ برفانی تودوں نے یہاں بھی ہمارا پیچھا نہ چھوڑا، لیکن گھوڑے ان تودوں سے بآسانی گزرتے چلے جارہے تھے۔ بیش تر جگہوں پر گھوڑوں کے پائوں پھسل بھی جاتے، مگر وہ کمال ہوشیاری سے خود کو بچالیتے۔ بیس منٹ میں گھوڑوں نے ہمیں چھوٹی سی پہاڑی پر پہنچادیا کہ یہاں سے آگے جانا اُن کے لیے بھی ممکن نہیں تھا اور یہ فاصلہ اب ہمیں پیدل ہی طے کرنا تھا۔
سو، چل پڑے، کیچڑ اور پھسلن کی وجہ سے قدم جمانا بہت مشکل ہو رہا تھا، لیکن بالآخر پہاڑی کے ٹاپ پر جاپہنچے۔ اب ایک یخ بستہ، سحر انگیز رَتی گلی جھیل ہمارے سامنے تھی۔ اس کا پہلا ہی منظر اس قدر ہوش رُبا تھا کہ زبان سے بے اختیارفَبِاَيِّ اٰلَآءِ رَبِّكُـمَا تُكَـذِّبَانِ نکلا۔ اور پھر مسلسل سبحان اللہ اور ماشاء اللہ کی گردان جاری رہی۔ ہم بارہ ہزار فٹ کی بلندی پر تھے اور پہاڑوں کے دامن میں گُم ہزاروں سال پرانی جھیل ہمارے سامنے تھی، یوں محسوس ہو رہا تھا گویا ہم جنّت کے کسی حسین گوشے میں داخل ہوگئے ہیں۔
رَتی گلی کی وہ خُوب صُورت جھیل، جسے کبھی ہم تصویروں اور یوٹیوب پر حسرت سے دیکھتے تھے، آج حقیقت کا روپ دھارے تمام تر رعنائیوں کے ساتھ ہمارے سامنے تھی اور اُسے دیکھتے ہی جیسے سفر کی ساری تکان اڑنچھو ہوگئی۔ میری طرح میرے ساتھی بھی محوِ حیرت تھے۔ رَتی گلی جھیل ایک طویل جیتی جاگتی پینٹنگ کی مانند لگ رہی تھی اور ہم اُس وقت اُس پینٹنگ کا حصّہ تھے۔ ہمارے قدم زمین پر جمے تھے، مگر آنکھوں میں بے یقینی کا صحرا تھا۔ وادیٔ نیلم کے بلند ترین مقام پر پہاڑوں کے دامن میں چُھپی جھیل کے مناظر، نیلا شفاف پانی، پہاڑوں کا بارُعب حُسن اور وہاں موجود خُوب صُورت رنگ برنگے پھول، پودے قدرت کی کاری گری کا منہ بولتا ثبوت تھے۔ وہ واقعتاً ایک پُر کشش اور حیرت انگیز مقام تھا۔
بلاشبہ، رَتی گلی میں قدرت نے سبز گھاس کا مخملیں قالین بچھا کر اُس پر نیلے، زرد اور نارنجی رنگوں سے گلکاری کرکے، جھیل کے نیلے پانی کے اطراف ایسے مناظر سجادیے ہیں کہ جنھیں ایک نظر دیکھنے کے لیے سیّاح ہمالیہ کے پہاڑوں سے سر ٹکراتے، خطرناک ندی نالے عبور کرتے، چڑھائیاں چڑھتے چلے آتے ہیں۔ رَتی گلی جھیل کے بارے میں یہ کہنا مبالغہ آرائی نہیں ہوگی کہ اُسے دیکھنے کی چاہ میں کتنا ہی خوف ناک سفر کیوں نہ طے کرنا پڑے، یہ سودا خسارے کا سودا نہیں۔
یہاں کا ہر منظر قدرت کی فیّاضی کا منہ بولتا ثبوت ہے، جا بجا پھیلے قدرتی مناظر سیّاحوں کو دعوتِ نظارہ دیتے ہیں۔ ہم سب ساتھیوں نے بھی جی بَھر کے یہاں کے حسین نظاروں کو کیمرے میں قید کیا۔ مَیں خود یخ بستہ سردی کی پروا کیے بغیر ایک پتھر پر بیٹھ گیا، جو جھیل کے اندر ہی تھا اور تب امجد اسلام امجد کی وہ نظم ذہن میں آگئی؎ ’’اس جھیل کنارے پَل دو پَل.....اِک خواب کا نیلا پھول کِھلے.....وہ پھول بہا دیں لہروں میں.....اِک روز کبھی ہم شام ڈھلے.....اُس پھول کے بہتے رنگوں میں......جس وقت لرزتا چاند چلے!..... اُس وقت کہیں ان آنکھوں میں اُس بسرے پل کی یاد تو ہو .....اُن جھیل سی گہری آنکھوں میں اِک شام کہیں آباد تو ہو۔‘‘
جب برف مکمل طور پر پگھل جاتی ہے، تو جھیل کے گردونواح میں سُرخ اور گلابی پھول کِھل اٹھتے ہیں اور اُس وقت جھیل کا حُسن اپنے جوبن پر ہوتا ہے۔ پہاڑوں سے سرکتی برف، سرسبز علاقہ اور قوسِ قزح کے رنگوں میں ڈھلے یہ خوب صورت پھول سیّاحوں پر گویا سحر سا طاری کردیتے ہیں۔ لوگ آتے ہیں، نظارہ کرتے ہیں اور اس کے حسُن سے آنکھیں خیرہ کرتے چلے جاتے ہیں۔ پھر شام کو جب افق پر شفق کی سُرخی پھیلتی ہے تو جھیل کے بدن پر جیسے لرزش سی طاری ہوتی ہے۔
ہم جھیل کنارے دو گھنٹے سے زائد موجود رہے، اس دوران قدرت کے ہر ہر رنگ کا بخوبی مشاہدہ کیا۔ بلاشبہ، رَتی گلی جھیل زمین پر جنّت کا نمونہ ہے، جہاں سرد ہوائیں ہرسُو اُڑتی پھرتی ہیں اور مہمان نوازی کی حد کر دیتی ہیں۔ بے شک یہاں کی راتیں خون جما دینے والی ہیں، لیکن گھڑ سواری اور جھیل کی سیر تا عُمر نہیں بھولتی کہ اگر ایک بار جھیل کی خُوب صُورتی، رعنائی و دل کشی آنکھوں میں بسا لی جائے، توپھر دل اس کی دید کے لیے دل رہ رہ کر بے چین ہوتا ہے۔
شام ہوچکی تھی، سردی بھی خاصی تھی، مگر یہ کپکپاہٹ والی ٹھنڈ نہیں تھی، ہو ا کے میٹھے میٹھے جھونکے بھلے لگ رہے تھے۔ شام کی سنہری کرنیں شفّاف پانیوں اور اطراف کے پہاڑوں پر بکھر کر انہیں اور بھی رنگین بنا رہی تھیں۔ سورج غروب ہو نے کو تھا۔ سو، ہم نے واپسی کی راہ لی۔ آسمان ایک بار پھر بادلوں کی لپیٹ میں تھا،ہم پہاڑی عبور کرکے آگے بڑھے تو گھوڑے ہمیں بیس کیمپ تک واپس لانے کے لیے تیار کھڑے تھے۔