• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

محمّد احمد غزالی

’’ تذکرہ اللہ والوں کا‘‘ سلسلے کا آخری مضمون قارئین کے لیے پیش ہے۔ اِس سلسلے میں مجموعی طور پر 21 بزرگانِ دین سے متعلق مضامین تحریر کیے گئے۔ یہ وہ اولیائے کرامؒ ہیں، جو کسی روحانی سلسلے کے بانی تھے یا پھر اُن کا شمار’’ آئمۂ تصوّف‘‘ میں ہوتا ہے۔ ہماری کوشش رہی کہ قارئین کو بزرگانِ دین کی اصل شخصیت اور اُن کی تعلیمات سے متعارف کروایا جائے، اِسی لیے ایسی روایات یا قصّے کہانیوں سے صرفِ نظر کیا گیا، جو کسی مستند ماخذ سے ثابت نہیں ۔

……٭٭……٭٭……٭٭……

علّامہ اقبالؒ نے اپنے 10 سالہ صاحب زادے، جاوید اقبال کو ساتھ لیا اور حضرت مجدّد الف ثانی ؒ کے مزار کی زیارت کے لیے سرہند پہنچ گئے۔ جاوید اقبال نے اپنی کتاب’’ زندہ رود‘‘ میں لکھا ہے’’راقم کو خُوب یاد ہے کہ وہ اُن کی انگلی پکڑے مزار میں داخل ہوا۔ گنبد کے تیرہ وتار مگر پُر وقار ماحول نے اس پر ایک ہیبت سی طاری کر دی تھی۔ اقبال تربت کے قریب فرش پر بیٹھ گئے اور راقم کو بھی پاس بِٹھا لیا، پھر اُنہوں نے قرآن مجید کا ایک پارہ کھولا اور دیر تک تلاوت کرتے رہے۔ 

خاموش اور تاریک فضا میں اُن کی رندھی ہوئی مدھم آواز گونج رہی تھی۔راقم نے دیکھا کہ اُن کی آنکھوں سے آنسو اُمڈ کر رخساروں پر ڈھلک آئے ہیں۔‘‘ پھر اقبالؒ نے اِسی مردِقلندر کو یوں خراجِ عقیدت پیش کیا’’حاضر ہوا مَیں شیخ مجدّدؒ کی لحد پر…وہ خاک کہ ہے زیرِ فلک مطلعِ انوار…اِس خاک کے ذرّوں سے ہیں شرمندہ ستارے…اِس خاک میں پوشیدہ ہے وہ صاحبِ اسرار…گردن نہ جُھکی جس کی جہانگیر کے آگے…جس کے نفسِ گرم سے ہے گرمیٔ احرار…وہ ہِند میں سرمایۂ ملّت کا نِگہباں…اللہ نے بروقت کیا جس کو خبردار۔‘‘( بالِ جبریل)

حسب نسب، ولادت

آپؒ 14 شوال 971 ہجری، 26 جون 1564ء کو سرہند(بھارت) میں پیدا ہوئے۔ احمد نام تجویز ہوا، جب کہ اپنی بے مثال دینی خدمات اور تجدیدی کارناموں کے سبب صاحبانِ علم اور صوفیاء کے حلقوں میں امامِ ربّانی، مجدّد الف ثانی کہلائے اور اب عوام و خواص میں اِنہی القاب سے معروف ہیں۔ آپؒ کا نسب 27 ویں پُشت میں حضرت سیّدنا عُمر فاروق رضی اللہ عنہ سے جاملتا ہے۔ آپؒ کی پشت میں 15 ویں بزرگ، شیخ شہاب الدّین فرخ شاہ فاروقیؒ کابل کے والی اور عالم فاضل شخص تھے۔حضرت بابا فرید الدّین گنج شکرؒ اور حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ بھی اُنہی کی اولاد میں سے ہیں۔

حضرت رفیع الدّین اِس خاندان کے پہلے فرد ہیں،جنھوں نے ہندوستان میں سکونت اختیار کی۔وہ علومِ ظاہری و باطنی کے جامع تھے اور چار سو سے زاید مشائخ سے استفادہ کیا تھا۔آخر میں مخدوم جہانیاں جہاں گشتؒ کے حلقے میں شامل ہوئے اور خلافت کے ساتھ اُن کی دامادی کا بھی شرف حاصل ہوا۔ جب سلطان فیروز شاہ تغلق نے مخدوم صاحبؒ کی خواہش پر سرہند شہر کی بنیاد ڈالی، تو پہلی اینٹ حضرت رفیع الدّین ہی نے رکھی اور جب قلعہ تعمیر ہوگیا، تو بادشاہ نے وہ قلعہ اُنھیں عنایت کردیا، یوں وہ وہاں قیام پذیر ہوگئے۔

والد، شیخ عبدالاحدؒ کا شمار بھی ممتاز علماء میں ہوتا تھا۔وہ شیخ عبدالقدّوس گنگوہیؒ سے بیعت ہوئے اور اُن کے صاحب زادے سے چشتی سلسلے میں خلافت پائی۔جب کہ حضرت شاہ کمال کیتھلیؒ سے سلسلۂ قادریہ میں خرقۂ خلافت پہنا۔ اُنھیں خاندان کے بزرگوں سے سلسلہ سہروردیہ میں خلافت حاصل تھی۔ حضرت مجدّد صاحبؒ کا سات بھائیوں میں چوتھا نمبر تھا۔

تعلیمی سفر

آپؒ نے کم عُمری ہی میں قرآن پاک حفظ کرلیا۔پھر والد سے ابتدائی کتب پڑھیں۔ بعدازاں، مولانا کمال الدّین کشمیری، شیخ یعقوب کشمیری اور قاضی بہلول بدخشانی جیسے ممتاز علماء سے تفسیر، حدیث اور فقہ کی تعلیم حاصل کی۔17 برس کی عُمر میں تعلیم کا سلسلہ مکمل ہوا، تو درس و تدریس کا آغاز کردیا اور دیکھتے ہی دیکھتے سیکڑوں طلبہ آپؒ کے حلقۂ درس میں شریک ہونے لگے۔

اُن دنوں آگرہ اکبر بادشاہ کا پایۂ تخت تھا،لہٰذا آپؒ کچھ عرصے بعد وہاں چلے گئے اور تدریسی و تبلیغی خدمات کا آغاز کردیا۔ وہاں آپؒ کو بہت شہرت حاصل ہوئی۔ چوں کہ والد کو آپؒ سے بے حد محبّت تھی، اِس لیے وہ یہ دُوری برداشت نہ کرسکے اور آگرہ جاکر آپؒ کو سرہند واپس لے آئے۔

شادی خانہ آبادی

جب والد کے ساتھ آگرہ سے روانہ ہوئے، تو راستے میں تھانیسر رُکے،جہاں شیخ سلطان نے خوش آمدید کہا۔ وہ وہاں کے رئیس، صاحبِ علم اور متّقی پرہیزگار بزرگ تھے۔ اکبر بادشاہ نے ہندوؤں کے دباؤ پر اُنھیں پھانسی دے دی تھی۔بہرحال، شیخ سلطان نے اپنی صاحب زادی کا آپؒ سے عقد کردیا۔

اللہ تعالیٰ نے آپؒ کو ان خاتون کے بطن سے کئی نام ور صاحب زادے عطا فرمائے۔ چوں کہ سُسر خاصے امیر تھے، اِس لیے آپؒ کے پاس بھی مال کی فراوانی ہوگئی۔ آپؒ سرہند پہنچ کر نئی حویلی اور ایک مسجد تعمیر کروا کر حسبِ سابق درس و تدریس میں مشغول ہوگئے۔

راہِ سلوک

آپؒ کے والد کا1007 ہجری میں انتقال ہوا۔اُنھوں نے انتقال سے قبل تمام بیٹوں کو جمع کیا اور پھر سلسلۂ سہروردیہ، چشتیہ اور قادریہ کے جو تبرّکات اپنے مشایخ سے پائے تھے، وہ حضرت مجدّد صاحبؒ کو عطا فرما کر اپنا جانشین مقرّر فرما دیا۔ اِسی دوران آپؒ نے اپنے ایک دوست سے سلسلۂ نقش بندیہ کے شیخ، خواجہ باقی باللہؒ کے بارے میں سُنا، تو اُن سے ملاقات کے لیے دہلی پہنچ گئے۔ حالاں کہ اُس وقت آپؒ کی ایک عالمِ دین کے طور پر بہت شہرت ہوچُکی تھی اور کئی سلاسل میں خلافت بھی رکھتے تھے۔ خواجہ صاحبؒ کی خواہش پر ڈھائی ماہ اُن کے پاس مقیم رہے۔

اُن سے بیعت ہوئے اور خلافت سے سرفراز کیے گئے۔ اُنھوں نے رخصت ہوتے وقت اپنے چند مرید بھی آپؒ کے ساتھ کردیے تاکہ اُن کی تربیت کرسکیں۔سرہند واپس آکر وعظ و نصیحت، درس و تدریس کے ساتھ سالکین کی تعلیم و تربیت میں بھی مشغول ہوگئے۔ کچھ عرصے بعد دوبارہ مرشد سے استفادے کے لیے دہلی تشریف لائے اور کافی دنوں تک اُن کی خدمت میں رہے۔ جب تیسری بار دہلی گئے، تو مرشد نے خلفاء اور مریدین کے ساتھ شہر سے باہر آکر آپؒ کا استقبال کیا اور بے حد تعظیم سے خانقاہ لائے۔

یہ آخری ملاقات تھی کہ اس کے بعد خواجہ صاحبؒ 1012 ہجری میں وصال فرما گئے۔کچھ دنوں بعد آپؒ سرہند سے لاہور تشریف لے گئے، جہاں علماء اور روحانیت کے متلاشیوں نے آپؒ سے خُوب استفادہ کیا۔ اِسی اثنا مرشد کے انتقال کا علم ہوا، تو فوراً دہلی کی جانب عازمِ سفر ہوئے۔کچھ روز وہاں رہ کر واپس سرہند آگئے۔ اِس کے بعد صرف ایک مرتبہ خواجہ صاحبؒ کے مزار پر فاتحہ خوانی کے لیے دہلی جانا ہوا۔

مسند نشینی، مقبولیت

ایک طرف تو آپؒ کو اپنے والد سے مختلف سلاسل میں خلافت حاصل تھی،تو دوسری طرف خواجہ باقی باللہؒ سے سلسلۂ نقش بندیہ کا خرقہ حاصل ہوا،پھر یہ کہ آپؒ کا علمی مقام بھی بہت بلند تھا، جب کہ ابتدا ہی سے تقویٰ اور پرہیز گاری میں بھی معروف تھے، اِس لیے جب بیعت کا آغاز کیا، تو خلقت فیوض و برکات کے حصول کے لیے ٹوٹ پڑی۔ یہاں تک کہ اُس زمانے کے ہندوستان میں کوئی خانقاہ عوامی رجوع کے اعتبار سے آپؒ کے قریب قریب بھی نہ تھی۔

آپؒ نے اپنے خلفاء کو مختلف علاقوں میں بھیجا،جن کی مساعی سے لاکھوں افراد کی اصلاح ہونے کے ساتھ سلسلے کی دور دراز علاقوں میں اشاعت ہوئی۔ایک طرف وسط ایشیا، ایران، شام، حجاز، یمن تک آپؒ کے خلفاء پہنچے، تو دوسری طرف چین، افغانستان، بنگلا دیش، موجودہ بھارت اور پاکستان کا شاید ہی کوئی ایسا علاقہ تھا،جہاں آپؒ کے عقیدت مند موجود نہ ہوں۔

جہانگیر بادشاہ آپؒ کے اثر و رسوخ سے خوف زدہ تھا اور اُس نے اپنی کتاب میں آپؒ سے متعلق لکھا کہ ہندوستان کے شہر شہر میں ان کے خلفاء اور مریدین موجود ہیں۔ ایک اہم بات یہ تھی کہ آپؒ کے حلقۂ ارادت میں جہاں عام افراد شامل تھے، وہیں علماء اور سرکاری حکّام کی ایک بڑی تعداد بھی آپؒ سے باقاعدہ بیعت تھی۔

ہندوستان کی مذہبی، سماجی حالت

حضرت مجدّد الف ثانیؒ کی خدمات کا درست اندازہ اُسی وقت ہوسکتا ہے، جب اُن کے زمانے کے مذہبی، سیاسی اور سماجی حالات پیشِ نظر ہوں۔آپؒ کی ولادت اکبر بادشاہ کے دَور میں ہوئی اور اُس کی حکومت کے تقریباً31 برس اپنی آنکھوں سے دیکھے۔ اکبر 1556ء میں 14 برس کی عُمر میں تخت نشین ہوا۔ایک تو یہ کہ وہ کم عُمر تھا، اوپر سے اَن پڑھ بھی، پھر یہ کہ اُس کے دربار میں ہندو جوگیوں، برہمنوں، عیسائی پادریوں، پارسیوں، جین مت کے پیروکاروں کا غلبہ تھا، تو دوسری طرف، درباری علماء اور بے دین صوفیوں نے بھی مناظروں اور فضول بحث مباحثوں سے اودھم مچا رکھا تھا، اگر کوئی اچھے علماء موجود تھے بھی، تو بادشاہ کے کچھ خاص مصاحبوں کی جانب سے دربار میں اُن پر جملے کسے جاتے اور توہین آمیز سلوک روا رکھا جاتا،جس کے باعث اُنھوں نے وہاں کا رُخ کرنا چھوڑ دیا۔

اِن حالات کا نتیجہ یہ نکلا کہ اکبر کے دینی عقائد مختلف مذاہب کا ملغوبہ بن گئے۔علاوہ ازیں،کچھ افراد نے اُسے یہ پٹّی بھی پڑھائی کہ اسلام کے ایک ہزار سال مکمل ہوگئے ہیں،لہٰذا اب ایک نئے دین کی ضرورت ہے،جو بادشاہ سلامت ہی جاری کرسکتے ہیں۔ جہانگیر کے مطابق، اکبر اسلام کی میعاد ختم ہونے اور ایک نئے دین کی ضرورت کا قائل تھا۔ اِس حوالے سے درباری علماء نے کچھ فتوے بھی جاری کیے۔ اکبر نے دن میں چار بار سورج کی عبادت شروع کردی، گائے ذبح کرنے پر پابندی لگا دی اور خلاف ورزی پر موت کی سزا مقرّر کردی۔جین مت کے زیرِ اثر چوہے تک مارنے پر پابندی لگا دی گئی۔

پارسیوں سے متاثرہو کر محل میں ہر وقت آگ جلانے کا اہتمام کیا جاتا۔محل میں اذان اور نماز کا سلسلہ موقوف ہوگیا۔ اکبر تناسخ کا بھی قائل تھا۔غسلِ جنابت ممنوع ٹھہرا، حج پر پابندی عاید کردی گئی، درباریوں کو رمضان میں روزے رکھنے سے منع کردیا گیا اور اُنھیں بادشاہ کے سامنے کھانے پر مجبور کیا گیا، بادشاہ کے لیے سجدۂ تعظیمی لازمی قرار پایا، قرآن پاک کو نبی کریم ﷺ کی تصنیف قرار دیا گیا،سنِ ہجری کی جگہ سنِ الہٰی کا آغاز ہوا،’’ السلام علیکم‘‘ کی جگہ’’ اللہ اکبر‘‘ اورجواب میں’’ جل جلالہ‘‘ کہنے کا حکم ہوا، مساجد ویران کردی گئیں،کئی ایک میں چوکیاں بن گئیں۔

سؤر اور کتّے کو پاک قرار دیا گیا اور بادشاہ ہر صبح عبادت سمجھ کر اُن کی’’زیارت‘‘ کرتا، دربار کے دروازے پر شراب کی دُکان قائم کردی گئی، اِسی طرح شہر کے باہر باقاعدہ سرکاری سرپرستی میں قحبہ خانہ قائم ہوا، چچا،ماموں اور دیگر قریبی رشتے داروں کی لڑکیوں سے نکاح حرام قرار پایا۔ سود اور جوا نہ صرف حلال ہوا بلکہ دربار میں جوا خانہ کُھلا اور جواریوں کو شاہی خزانے سے سود پر قرض دیا جانے لگا۔

بازاروں میں آنے والی خواتین کو پردہ نہ کرنے کا حکم ملا۔سرکاری سرپرستی میں اسلامی شعائر کا مذاق اُڑایا جاتا۔ علماء اور مدارس کا معاشی گھیراؤ کرکے اُنھیں بے اثر کرنے کی کوشش کی گئی۔ بہت سے علماء کو زبردستی دور دراز علاقوں میں بھیج دیا گیا۔ اِس سرکاری پالیسی نے معاشرے میں بھی الحاد اور بے دینی کو فروغ دیا۔

دنیا داروں اور نفس پرستوں کی گویا لاٹری کُھل گئی اور وہ حکومت سے زیادہ سے زیادہ فوائد سمیٹنے کے لیے ہر حد سے گزر گئے۔ اِن حالات میں اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی گزارنا بہت مشکل ہوگیا۔ گویا ہندوستان کی سرزمین پر اسلام اورمسلمان اجنبی ہوگئے تھے، اُن کا مذہبی اور سماجی ڈھانچا بہت بڑے طوفان کی زد میں تھا۔