امریکی ایوان نمائندگان کی اسپیکر نینسی پلوسی اپنے دورہ ایشیا کے دوران تائیوان کے دارالحکومت تائی پے پہنچ چکی ہیں،پلوسی نے وہاں اہم عہدے داران سے مختلف ملاقاتیں کی ہیں اور تائیوان کی پارلیمنٹ سے خطاب بھی کیا ہے جسے ایک بہت غیرمعمولی اقدام سمجھا جارہا ہے۔ گزشتہ پچیس برسوں میں کسی بھی اعلیٰ ترین امریکی عہدیدار کا یہ پہلا دورہ تائیوان ہے، امریکہ کی طرف سے مذکورہ دورے کے شیڈول کو خفیہ رکھا گیا تھا، تاہم عالمی میڈیا میں ایسی خبریں پہلے سے گردش کررہی تھیں کہ پلوسی کی دورہ ایشیا کے دوران تائیوان آمد متوقع ہے، دوسری طرف تائیوان میں کسی اعلیٰ غیرملکی مہمان کاخیرمقدم کرنے کیلئے غیرمعمولی تیاریاں جاری تھیں، اس حوالے سے چین کا کہنا ہے کہ امریکی اسپیکر پلوسی کا مذکورہ دورہ چین کی خود مختاری اور علاقائی سالمیت کی سنگین خلاف ورزی ہے، چین سمجھتا ہے کہ پلوسی کا یہ دورہ آگ سے کھیلنے کے مترادف ہے اور امریکہ کو اس شر انگیزی کی بڑی قیمت ادا کرنی پڑے گی، روس نے بھی چین کے موقف کی حمایت کرتے ہوئے امریکی اقدام کو اشتعال انگیزی قرار دیا ہے۔خطے کی تازہ صورتحال پر نظر ڈالی جائے تو اس حوالے سے کوئی دو رائے نہیں کہ امریکی اسپیکر کے دورہ تائیوان کے تناظر میں خطے میں کشیدگی عروج پر پہنچ چکی ہے،چین نے بیجنگ میں امریکی سفیر کو طلب کرکے سخت احتجاج ریکارڈ کرایا ہے، میڈیاسے موصول اطلاعات کے مطابق آبنائے تائیوان میں چین اور امریکہ کے بحری فوجی بیڑے سمندری حدود میں آمنے سامنے آچکے ہیں، تائیوان کی جانب سے الزام عائد کیا گیا ہے کہ چین کے طیارے اسکے فضائی دفاعی شناختی زون میں داخل ہونے میں کامیاب ہوگئے ہیں، امریکی اسپیکر تائی پے کے جس ہوٹل میں قیام کررہی ہیں، اسکے باہر جنگ مخالفین مظاہرین کی طرف سے احتجاج کرنے کی بھی اطلاعات ہیں،مختلف پلے کارڈ اٹھائے تائیوان کے مظاہرین نینسی پلوسی سے واپس جانے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ دنیا کے نقشے پر تائیوان کے نام سے موجود جزیرے کا رسمی نام ری پبلک آف چائنہ (جمہوریہ چین)ہے جسے عمومی طور پر تائیوان کے نام سے پکارا جاتا ہے،پیپلز ری پبلک آف چائنہ (عوامی جمہوریہ چین) اسے اپنا ایک باغی صوبہ قرار دیتی ہے،تاہم تائیوان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جو اقوام متحدہ کے باضابطہ ممبر نہیں ہیں۔ چین اقوام متحدہ کے بانی ممبران، ویٹو پاور کا حامل اور عالمی منظرنامے میں ایک اہم ملک گردانا جاتا ہے، تاہم سفارتی سطح پراس وقت کنفیوژن کی صورتحال پیدا ہوئی جب دونوں حکومتوں نے اپنے آپ کو چین قرار دے دیا، ایک طویل عرصے تک اقوام متحدہ میں چین کی سرکاری نشست پرتائیوان براجمان رہا۔ اس حوالے سے عوامی جمہوریہ چین نے اپنا موقف واضح الفاظ میں عالمی برادری کے سامنے پیش کیا کہ جو ممالک ون چائنہ (ایک چین)پر یقین نہیں رکھتے اور تائیوان سے بطورجمہوریہ چین دوطرفہ تعلقات قائم رکھتے ہیں، ایسے تمام ممالک سے عوامی جمہوریہ چین اپنے سفارتی تعلقات ختم کردے گا۔عالمی امورِ خارجہ کی روُ سے ون چائنہ کا مطلب یہ اخذ کیا جاتا ہے کہ دنیا میں صرف ایک ہی چین ہے جو عوامی جمہوریہ چین ہے اور ری پبلک آف چین کے نام سے تائیوان کوئی خودمختار ملک نہیں بلکہ عوامی جمہوریہ چین کاہی ایک حصہ ہے۔ مذکورہ پالیسی کے تحت بیجنگ کی تمام سرکاری دستاویزات اور میڈیا میں ری پبلک آف چائنہ یا حکومتِ تائیوان کہنے کی ممانعت ہے،وہاں کی خبریں نشر کرنے کیلئے تائیوان اتھارٹیز کا لفظ استعمال کیاجاتا ہے، ایسا کوئی پاسپورٹ جس پر ری پبلک پر چائنہ درج ہو، اسکو بیجنگ حکام قبول نہیں کرتے بلکہ تائیوان کے باسیوں کیلئے کاروباری اور دیگر سماجی مقاصد کیلئے خصوصی پرمٹ جاری کئے جاتے ہیں۔ رفتہ رفتہ عالمی سطح پر دنیا نے بیجنگ حکومت کو اصل چین ماننا شروع کردیا اور 1972ء میں اقوام متحدہ کے ممبران ممالک کی لسٹ سے تائیوان کو خارج کرتے ہوئے پیپلز ری پبلک آف چائنہ کو چین تسلیم کرلیا گیا، تاہم امریکہ سمیت کچھ ممالک نے غیرسرکاری طور پر تائیوان سے دوطرفہ تعلقات قائم رکھے۔یہ وہ زمانہ تھا جب عوامی جمہوریہ چین کو مغرب اور جدید دنیا کے قریب لانے میں پاکستان اپنا اہم کردار ادا کررہا تھا،اس وقت ہماری قومی ایئرلائن پی آئی اے ہی وہ واحد ذریعہ تھا جس سے چین کا رابطہ بیرونی دنیا سے قائم تھا، چین اور امریکہ کو قریب لانے میں پاکستان کی سنجیدہ کوششوں کا اعتراف آج بھی دونوں ممالک کرتے ہیں۔حکومت چین کی کامیاب سفارتکاری کے نتیجے میں سفارتی تنہائی کے شکار تائیوان نے بھی اب چین ہونے کے دعویٰ سے دستبرداری اختیار کرنی شروع کردی ہے، عالمی میڈیا میں ایسی رپورٹس منظرعام پر آئی ہیں کہ تائیوان کی موجودہ قیادت ون چائنہ کو تسلیم کرچکی ہے اور اپنے آپ کو بطور خودمختار ملک تائیوان متعارف کرانے میں زیادہ سنجیدہ ہے، حالیہ پیش رفت اس امر کی عکاسی کرتی ہے کہ کچھ عالمی قوتوں کی جانب سے خطے میں نئی صف بندیوں کا عمل جاری ہے،مجھے خدشہ ہے کہ اگرعالمی سپر طاقتوں کی باہمی چپقلش کے نتیجے میں کسی نئی جنگ کے شعلے ہمارے پڑوس میں بڑھکتے ہیں تو اسکے منفی اثرات لامحالہ پاکستان پر بھی پڑیں گے، ہمیں اس حوالے سے خارجہ محاذ پر بہت سمجھداری، احتیاط اور دوراندیشی کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)