• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حضرت مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ (دوسرا اور آخری حصّہ)

محمّد احمد غزالی

اکبر کے خلاف شدید ردّ ِعمل

اکبر بادشاہ کی ملحدانہ سرگرمیوں کے خلاف مسلم معاشرے سے شدید ردّ عمل سامنے آیا۔ کئی علماء نے اُن کے خلاف فتوے جاری کیے، جن کی پاداش میں اُنھیں قتل کردیا گیا اور بہت سے علماء اپنے علاقوں سے نکال دیے گئے۔جونپور کے قاضی، ملّا محمّد یزدی نے بادشاہ کے خلاف فتویٰ دیا، تو اُنھیں دریا میں پھینک دیا گیا۔ اِسی طرح بنگال کے قاضی، میر یعقوب دریا میں ڈبو دیے گئے اور قاضی برنی نعرۂ مستانہ کے جُرم میں ذبح ہوئے۔پنجاب، بہار، بنگال اور دیگر علاقوں کے علماء نے کُھل کر اکبر کے خلاف آواز اُٹھائی، جس پر اُنھیں پھانسی، قید و بند اور مُلک بدری کی سزاؤں کا سامنا کرنا پڑا۔ 

اِسی طرح فوج میں بھی بد دلی پھیلی ہوئی تھی اور کئی کمانڈرز نے بادشاہ کے خلاف بغاوت کی۔ کئی مقامات پر گھمسان کی جنگیں ہوئیں، تاہم یہ بغاوتیں کام یابی سے ہم کنار نہ ہوسکیں۔ اِسی دوران شیخ فرید بخاری، قلیج خان، مرزا عزیز اور عبدالرحیم خان خاناں جیسے راسخ العقیدہ حکّام دربارِ اکبری میں اثر و رسوخ قائم کرنے میں کام یاب ہوگئے۔یہ حّکام، حضرت مجدّد الف ثانیؒ اور اُن کے مرشد، خواجہ باقی باللہؒ کے عقیدت مند اور اُن سے رابطے میں تھے۔ حضرت مجدّدؒ نے ان کے ذریعے اکبر کی اصلاح کی کوشش کی اور درباری سیاست میں اثر ونفوذ حاصل کرلیا۔

جہانگیر کی تخت نشینی

1605ء میں اکبر کا انتقال ہوا،تو شہزادہ سلیم، نور الدّین جہانگیر کے لقب سے تخت نشین ہوا۔اُس نے بھی والد کی پالیسیز جاری رکھیں۔چوں کہ جہانگیر کی فوج کے بہت سے اہم عُہدے دار، حضرت مجدّدؒ کے حلقۂ ارادت میں شامل تھے،تو دوسری طرف عوام میں بھی اُن کی مقبولیت مسلسل بڑھ رہی تھی، اِس لیے بادشاہ اُنھیں اپنے اقتدار کے لیے خطرہ سمجھتا تھا۔ پھر یہ کہ مجدّد صاحبؒ اپنے حامی حکّام کے ذریعے ریاستی پالیسیز میں تبدیلی کے لیے بھی کوشاں تھے،جو دربار سے وابستہ افراد کو پسند نہیں تھا، اِس لیے اُنھوں نے بھی بادشاہ کو آپؒ کے خلاف خُوب بھڑکایا۔

نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ جہانگیر نے سرکاری حکّام پر آپؒ کے خلیفہ، شیخ بدیع الدّین کے پاس جانے پر پابندی عاید کردی، جو اُن دنوں آپؒ کی ہدایت پر شاہی لشکر میں موجود تھے۔ اگر کوئی اس حکم کی خلاف ورزی کرتا، تو اُسے سخت سزا دی جاتی۔ اِس اقدام کا ایک مقصد عام لوگوں کو بھی خوف زدہ کرنا تھا، مگر جب ان پابندیوں کے باوجود آپؒ کی عوامی مقبولیت اور اثر ورسوخ میں کمی نہ ہوئی، تو بادشاہ نے آپؒ کے خلاف براہِ راست سخت اقدام کا فیصلہ کرلیا۔

دربار میں طلبی اور گرفتاری

جہانگیر نے پہلے مرحلے میں مجدّد صاحبؒ کے حامی فوجی افسران کا دور دراز تبادلہ کیا اور جب اُن کی طرف سے ممکنہ بغاوت سے اطمینان ہوا، تو پھر سرہند کے حاکم کو شیخ احمدؒ کو ہر صُورت دربار میں پیش کرنے کا حکم دیا، جس پر آپؒ کو دربار میں لے جایا گیا۔جب آپؒ دربار میں پہنچے، تو غیر شرعی آدابِ شاہی ادا کرنے کی بجائے بادشاہ کو صرف ’’السّلامُ علیکم‘‘ کہا۔ اِس پر جہانگیر بھڑک اُٹھا اور حکم دیا کہ دستور کے مطابق سجدہ کریں،مگر آپؒ نے دو ٹوک انداز میں جواب دیا کہ’’ مَیں نے اللہ کے سِوا کبھی کسی کو سجدہ کیا ہے اور نہ ہی کبھی کروں گا۔‘‘بادشاہ نے غصّے سے کہا،’’ نہیں، تمھیں ہر صُورت سجدہ کرنا پڑے گا۔‘‘ 

اِس پر آپؒ نے فرمایا،’’ مجھ سے اِس بات کی ہرگز توقّع نہ رکھیں۔‘‘جہانگیر نے کہا،’’چلو ایسا کرو کہ صرف گردن تھوڑی سی خم کر دو، باقی آداب معاف ہیں،کیوں کہ جو مَیں نے کہا ہے،اب اُس پر عمل کی کوئی صُورت تو نکالنی ہی ہوگی۔‘‘مگر آپؒ نے سر جُھکانے سے بھی انکار کردیا۔ بادشاہ غصّے سے سُرخ ہوگیا اور درباریوں کو کہا،’’ اِن کا سَر زبردستی جھکاؤ۔‘‘ یہ سُنتے ہی درباری آپؒ کی طرف لپکے اور گردن جُھکانے کی کوشش کی،مگر ناکام رہے، اِس دوران آپؒ کی گردن زخمی ہوگئی اور اُس سے خون بہنے لگا۔بادشاہ نے تنگ آکر کہا،’’ اِنھیں چھوٹے دروازے سے دربار میں لاؤ،اِس طرح تو سر جُھکانا ہی پڑے گا۔‘‘ جب چھوٹے دروازے سے اندر لانے لگے، تو آپؒ نے پہلے پاؤں اندر رکھا، پھر سَر پچھلی طرف جُھکا کر اندر داخل ہوئے۔

یہ دیکھ کر جہانگیر آگ بگولا ہوگیا اور آپؒ کو گوالیار کے قلعے میں نظربند کرنے کا حکم دے دیا۔ دربار سے آپؒ کو گوالیار کے قلعے میں منتقل کردیا گیا،جب کہ دوسری طرف آپؒ کا گھر، سرائے، کنواں، باغ اور کتابیں ضبط کرلی گئیں۔بعض روایات کے مطابق ،قید کے دوران آپؒ کو تشدّد کا بھی نشانہ بنایا گیا،جس سے گُھٹنے شدید متاثر ہوئے۔اُس وقت آپؒ کی عُمر تقریباً 57 برس تھی۔ آپؒ وہاں بھی دین کی تبلیغ کا فریضہ سَر انجام دیتے رہے،جس کے نتیجے میں سیکڑوں ہندوؤں نے اسلام قبول کیا اور مسلمان گناہوں سے تائب ہوئے۔تقریباً ایک سال بعد عوام اور حّکام کے دباؤ پر آپؒ کو رہا کردیا گیا،تاہم جہانگیر نے آپؒ کو اپنے ساتھ شاہی لشکر ہی میں رکھا،شاید اُس کا مقصد آپؒ کی سرگرمیوں پر نظر رکھنا تھا۔گویا یہ بھی ایک طرح کی نظربندی ہی تھی۔

مِشن میں کام یابی

جب جہانگیر نے آپؒ کو قریب سے دیکھا اور آپؒ کی بابرکت صحبت نصیب ہوئی، تو اُس کے خیالات میں تبدیلی آنے لگی۔اُس نے کچھ ہی عرصے میں شراب نوشی اور دیگر برائیوں سے توبہ کرلی۔ایک بار وہ ایسا بیمار ہوا کہ طبیبوں نے مایوسی کا اظہار کردیا،جس پر مجدّد صاحبؒ کو دُعا کے لیے بلوایا گیا۔آپؒ نے بادشاہ سے شعائرِ اسلام کے تحفّظ کا وعدہ لیا اور پھر جائے نماز بچھا کر دو رکعت نماز ادا کی،جس کے بعد جہانگیر کی صحت یابی کے لیے دُعا کی،جو اللہ تعالیٰ نے قبول فرمائی اور وہ اُسی رات بیماری سے شفا یاب ہوگیا۔

آپؒ کی کوششوں سے جہانگیر نے سجدۂ تعظیمی کا سلسلہ ختم کردیا، گائے ذبح کرنے پر پابندی اُٹھاتے ہوئے بادشاہ اور ارکانِ سلطنت نے دربارِ عام کے دروازے پر اپنے اپنے ہاتھ سے ایک ایک گائے ذبح کی۔شہید کی گئی مساجد دوبارہ تعمیر ہوئیں، دربارِ عام میں بھی مسجد تعمیر کی گئی، جس میں بادشاہ نے آپؒ کی امامت میں نماز ادا کی۔جگہ جگہ مکاتب اور مدارس قائم کیے گئے،شہروں میں محتسب، شرعی مفتی اور قاضی مقرّر ہوئے،جزیے کا نظام بحال ہوا اور یوں خلافِ شرع تمام قوانین ایک ایک کرکے منسوخ ہوتے چلے گئے۔

شاہ جہاں پر اثرات

شہزادہ خرم کی جانشینی کے معاملے پر اپنے والد،جہانگیر سے جنگ ہوئی، تو اُس میں شہزادے کا پلّہ بھاری تھا،جس پر جہانگیر آپؒ سے دُعا کے لیے حاضر ہوا اور آپؒکی دُعا سے فاتح رہا۔ اس پر شہزادہ خرم آپؒ کے پاس پہنچا اور کہا،’’ مَیں تو آپؒ کا حامی تھا اور قید کے دوران بھی والد سے آپؒ کی رہائی کے لیے سفارش کرتا رہا۔‘‘ اس پر آپؒ نے اُسے بشارت دی کہ’’ تم جلد تخت پر بیٹھو گے اور شاہ جہاں تمھارا لقب ہوگا اور یہ حکومت تمھاری کئی نسلوں تک جاری رہے گی۔‘‘ اس پر وہ بہت خوش ہوا اور بطور تبرّک آپؒ کی دستار اپنے ساتھ لے گیا،جو مغل بادشاہوں میں منتقل ہوتی رہی۔

تجدیدی کارنامے، تعلیمات

حدیثِ مبارکہؐ کی رُو سے اللہ تعالیٰ ہر زمانے اور دَور میں ایسے افراد پیدا کرتا رہے گا،جو دینِ اسلام کی تجدید یعنی اُسے تازہ کرتے رہیں گے۔ ایسے افراد کے لیے’’ مجدّد‘‘ کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔علماء کے مطابق، ایک وقت میں کئی کئی مجدّد ہوسکتے ہیں،جو مختلف شعبوں میں اسلامی تعلیمات کے احیا کی جدوجہد کرتے ہیں۔علماء کے مطابق، اِس کا مطلب یہ ہے کہ دین میں کبھی تحریف نہیں ہوسکے گی اور نہ ہی زیادہ زمانہ گزرنے کے سبب یہ بوسیدہ ہوگا، بلکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے ذریعے اس کی بقا اور حفاظت کا انتظام کرتا رہے گا۔جو اللہ اور اُس کے رسول کی اِس امانت کی حفاظت کریں گے اور اسے اس کی اصلی شکل میں پیش کرتے رہیں گے۔

چوں کہ حضرت شیخ احمد سرہندیؒ کے دور میں نئے ہزار سال کا آغاز ہوا،اِس لیے آپؒ کے ہم عصر اور پھر بعد کے نام وَر علماء نے آپؒ کو’’ مجدّد الف ثانی‘‘ یعنی دوسرے ہزار سال کا مجدّد قرار دیا۔ اُن کے مطابق، آپؒ کی مساعی کے اثرات کم از کم اگلے ایک ہزار برس تک محسوس کیے جاتے رہیں گے۔آپؒ نے ایک طرف عوام النّاس کی اصلاح کے لیے ایک جامع اور منظّم پروگرام کے تحت کام کیا، اپنے خلفاء دُور دُور تک بھیجے،جنھوں نے وعظ ونصیحت کے حلقے قائم کرکے خلقِ خدا تک اسلام کا حقیقی پیغام پہنچایا۔

آپؒ نے غیر اسلامی رسومات اور بدعات کے خاتمے پر بہت توجّہ دی۔فرماتے تھے،’’ اسلام کو ایسے جواں مَردوں کی ضرورت ہے،جو سُنت کی مدد کریں اور بِدعات کو شکست دیں۔‘‘ دوسری جانب، آپؒ ریاستی طاقت اور اس کے اثر و نفوذ سے بھی واقف تھے۔ آپؒ کو اندازہ تھا کہ اگر یہ پہلو نظرانداز کیا، تو مسلم معاشرہ اپنی شناخت کھو بیٹھے گا۔لہٰذا، آپؒ نے ایک جانب بادشاہ کی غیر اسلامی سرگرمیوں کے خلاف سخت مزاحمت کی،جس سے جہاں سرکاری احکامات کے نفاذ میں رکاوٹیں آئیں،وہیں عوام کو بھی ڈٹ جانے کا حوصلہ ملا۔ دوسری طرف، اپنے عقیدت مندوں کے ذریعے ریاستی اداروں تک اثر و رسوخ پیدا کیا،جس کے اثرات بعد کے زمانے، بالخصوص شاہ جہاں اور اورنگزیب عالم گیر کے دَورمیں زیادہ نمایاں طور پر دیکھنے میں آئے۔

اِس پالیسی کا نتیجہ یہ نکلا کہ ریاست کی جانب سے جاری ہونے والے غیر شرعی احکامات ایک ایک کرکے ختم ہوتے گئے اور عوام کو اُس جبر سے نجات ملی،جس کی وجہ سے وہ غیر اسلامی احکامات ماننے پر مجبور تھے۔جب ریاست کا قبلہ درست ہوا، تو درباری علماء اور بے دین صوفی بھی کونوں کھدروں میں چُھپ گئے،جس سے معاشرے میں بے دینی پھیلانے کے دروازے بند ہوگئے۔ آپؒ کی پوری شخصیت اور تعلیمات قرآن و سُنّت پر عمل اور ان کے نفاذ کے گرد گھومتی ہیں۔ اُن دنوں دنیا پرست علماء اور جاہل و بے دین صوفی سادہ لوح مسلمانوں کو اپنے جال میں پھنسا کر اسلامی تعلیمات سے دُور کر رہے تھے، لہذا آپؒ نے اُن کی بھی پوری تن دہی اور جرأت سے سرکوبی کی۔

فرماتے تھے’’ حقیقت و طریقت،دونوں شریعت کی خادمائیں ہیں‘‘ اور یہ کہ جو شخص قرآن و سُنّت پر عمل پیرا نہ ہو، وہ رہبر نہیں، رہزن ہے،خواہ وہ روحانیت کے نام پر کیسے ہی کرتب کیوں نہ دِکھاتا پِھرتا ہو۔فرمایا،’’ علماء میں سے بہترین عالِم، جہان کے تمام انسانوں سے بہتر ہے اور علماء میں سے بدتر عالِم، جہان کے تمام انسانوں سے بدتر ہے، کیوں کہ تمام جہان کی ہدایت و گم راہی اِنہی پر موقوف ہے۔‘‘اِسی طرح آپؒ مسلمانوں کے دِلوں میں صحابۂ کرامؓ کی عظمت و محبّت راسخ کرنے کے لیے کوشاں رہے اور اُن کے خلاف باتیں کرنے والوں کا بھی سخت محاسبہ کیا۔

سرہند واپسی، وصال

آپؒ جہانگیر کے ساتھ کئی شہروں میں گئے۔ وہ آپؒ کے ساتھ سرہند بھی آیا اور جب تک وہاں مقیم رہا، اُس کے لیے کھانا آپؒ ہی کے ہاں سے جاتا رہا۔پھر بادشاہ آپؒ کو اپنے ساتھ دہلی لے گیا،وہاں سے بنارس اور پھر اجمیر چلے گئے۔کچھ دنوں بعد آپؒ نے ساتھیوں سے فرمایا کہ’’ اب کُوچ کا زمانہ قریب ہے۔‘‘ اور بادشاہ سے بڑی مشکل سے سرہند جانے کی اجازت لی۔پہلے خواجہ معین الدّین چشتیؒ کے مزار پر گئے اور دیر تک مراقب رہے،پھر سرہند کے لیے روانہ ہوگئے۔گویا پانچ برس نظر بندی ختم ہوئی۔ سرہند پہنچ کر گوشہ نشین ہوگئے۔ 

یہ خلوت کوئی سات،آٹھ ماہ جاری رہی۔ اِس دوران صرف نمازِ باجماعت کے لیے باہر تشریف لاتے،جب کہ لوگوں سے مکمل طور پر مِلنا جُلنا بند کردیا۔زیادہ وقت عبادات میں گزارتے اور صدقہ خیرات میں بھی بہت اضافہ کردیا۔کچھ دنوں بعد سانس کے مرض نے آگھیرا۔وصال سے قبل صاحب زادوں کو وصیّت کی کہ’’ قرآن مجید اور سُنتِ نبویﷺ کی پیروی کرنا، خلافِ شرع مشایخ سے بچنا، میری تجہیز و تکفین سنّت کے مطابق کرنا اور قبر کچّی رکھنا۔‘‘28 صفر 1034 ہجری، 10 دسمبر 1624 ء کو 63 برس کی عُمر میں اپنے ربّ کے حضور پہنچ گئے اور سرہند(بھارت) میں سپردِ خاک کیے گئے۔

آپؒ کے سات بیٹے اور تین بیٹیاں تھیں۔ محمّد فرّخ، محمّد عیسیٰ اور محمّد اشرف چھوٹی عُمر ہی میں انتقال کرگئے، جب کہ سب سے بڑے بیٹے، محمّد صادقؒ نے بھی والد کی زندگی میں وفات پائی۔خواجہ محمّد معصومؒ، خواجہ محمّد سعیدؒ اور خواجہ محمّد یحیٰ ؒ نے اسلامی تعلیمات کی اشاعت اور غلبۂ دین کی جدوجہد کے حوالے سے بہت نام کمایا۔ بالخصوص خواجہ محمّد معصومؒ اور خواجہ محمّد سعیدؒ نے مغل بادشاہوں، شاہ جہاں اور اورنگزیب عالم گیر کے ذریعے دین کا بہت کام کیا۔ایک صاحب زادی کی چند ماہ اور دوسری کی14 برس کی عُمر میں وفات ہوئی،جب کہ تیسری کی شادی ہوئی اور کئی بچّے ہوئے۔

تصنیفات

حضرت مجدّد الف ثانیؒ ممتاز عالمِ دین اور بے مثال صوفی ہونے کے ساتھ بلند پایہ مصنّف بھی تھے۔آپؒ کی کتب میں اثبات النبوّۃ، رسالہ تہلیلیہ، ردّ ِ روافض، مبدا و معاد، معارف لدنیہ، شرح رباعیات خواجہ باقی باللہ ؒ، مکاشفاتِ عینیہ اور مکتوبات امام ربّانیؒ شامل ہیں۔ اِن میں مکتوبات کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے کہ اِنہی کے ذریعے آپؒ نے انقلاب برپا کیا تھا۔ یہ کتاب دراصل آپؒ کے 536 خطوط پر مشتمل ہے، جو سرکاری حکّام، خلفاء، علماء اور دیگر افراد کو وقتاً فوقتاً لکھے گئے تھے۔

ان میں قرآن و سُنت اور تصوّف کے علوم و معارف کے ساتھ سیاست، تاریخی حالات و واقعات اور آپؒ کی جدوجہد سے متعلق مواد موجود ہے۔آپؒ ان خطوط کے نقل اپنے پاس رکھا کرتے تھے، جنھیں بعدازاں کتابی شکل میں شایع کیا گیا۔یہ مکتوبات آپؒ کی زندگی ہی میں دُور دُور تک مشہور ہوگئے تھے اور ان کا درس دیا جاتا تھا۔ آج بھی خانقاہوں میں ان کا درس ہوتا ہے۔یاد رہے، آپؒ کی تمام کتب اردو زبان میں بھی دست یاب ہیں۔