مولانا محمد امجد خان
نواسۂ رسولؐ، جگر گوشہ ٔبتول، فرزند حیدر ، سردار نوجوانانِ جنت حضرت حسینؓ کی فضیلت کے لئے صرف یہی بات کافی ہے کہ وہ حضور نبی کریم ﷺ کی اولاد میں سے ہیں۔ آپ نے صرف یہی فضیلت ہی نہیں پائی، بلکہ آپ ﷺ کا مبارک دور بھی پایا اور آپ ﷺ کی شفقت بھری سرپرستی میں بچپن گزارا اور تربیت حاصل کی۔ آپ جب پیدا ہوئے توآپ کے منہ میں گھٹی بھی آپ ﷺ نے ڈالی اور وہ گھٹی بھی کوئی عام چیز نہ تھی، بلکہ آپ ﷺ کا مبارک لعاب دہن تھا ۔ شہزادۂ جنت کی پہلی غذا آپ ﷺ کا لعاب مبارک تھا جس کی پہلی غذا وہ عظیم نعمت ہو،ان کے باطن کی نورانیت کا کیا مقام ہو گا۔
پھر آپ کے کان مبارک میں اذان بھی آپ ﷺ نے دی جس کی برکت کا یہ عالم ہے شہید ہوتے وقت بھی سر سجدے کی حالت میں ہے اور زبان مبار ک پر رب العالمین کا مبارک نام جاری ہے۔ ساتویں دن عقیقہ ہوا اور آپ ﷺ نے حسین نام رکھا۔ آپ ﷺ دونوں شہزادوں حضرت حسینؓ اور حضرت حسنؓ سے ملنے اپنی بیٹی سیدہ فاطمۃ الزہرہ ؓ کے گھر تشریف لاتے اور پیار فرماتے اور دونوں صاحب زادوں کے لیے دعا فر ماتے۔ ترمذی شریف میں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت حسنؓ و حضرت حسینؓ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا جس نے مجھے محبوب رکھا اور ان دونو ں کو، ان کے ماں باپ کو محبو ب رکھا، وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا۔
حضرت ابوہریرہ ؓسے مروی ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ ہمارے پاس اس حالت میں تشریف لائے کہ ایک کندھے پر حضرت حسنؓاور دوسرے کندھے پر حضرت حسین ؓ سوار تھے۔ آپ ﷺ کبھی حضرت حسنؓ اور کبھی حضرت حسین ؓکو چومتے، کسی نے پوچھا، یارسول اللہ ﷺ، کیا یہ دونوں نواسے آپ ﷺ کو بہت محبوب ہیں تو آپﷺ نے فرمایا، یہ مجھے بہت محبوب ہیں اور جس نے ان سے محبت کی، اس نے مجھ سے محبت کی جس نے ان سے بغض کیا، در حقیقت اس نے مجھ سے بغض کیا ۔(البدایہ و النہایہ)
حضرت سعد بن مالکؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ حسنؓ و حسینؓمیری دنیا کے دو پھول ہیں ۔ (کنزالعمال)حضرت سلمان فار سیؓ فر ماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے سنا، سیدنا حضرت حسنؓ ;اور سیدنا حضرت حسینؓ میرے بیٹے ہیں اور جس نے مجھے محبوب رکھا، اس نے اللہ کو محبوب رکھا اور جس نے اللہ کو محبوب رکھا، اللہ پاک نے اسے جنت میں داخل کیا اور جس نے ان دونوں سے بغض رکھا، اس نے مجھ سے بغض رکھا اور جس نے مجھ سے بغض رکھا، اس نے اللہ سے بغض رکھا اور جس نے اللہ پاک سے بغض رکھا، اللہ پاک اسے دوزخ میں داخل کرے گا۔ (زرقانی) روایت کے مطابق ایک موقع پررسول اللہﷺ نماز پڑھ رہے تھے تو سیدنا حضرت حسنؓ و سیدنا حضرت حسینؓ آئے اور جب آپ ﷺ سجدے میں گئے تو دونوں آپ ﷺ کی پُشت مبارک پر سوار ہوگئے، لوگوں نے چاہا کہ منع کردیں ،جب آپ ﷺ نے سلام پھیرا تو فرمایا کہ دونوں میرے بیٹے ہیں، جس نے ان دونوں کو محبوب رکھا، اس نے مجھے محبوب رکھا ۔(اسد الغابہ)
حضرت جابر ؓ فرماتے ہیں کہ میں آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا۔ آپ ﷺ نے حضرت حسنؓ و حضرت حسین ؓ کو اپنی پشت مبارک پر بٹھایا ہوا تھا اور آپ ﷺ دونوں ہاتھوں اور دونوں گھٹنوں پر چل رہے تھے۔ میں نے کہا، سواری کتنی اچھی ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا سوار کتنے اچھے ہیں۔ (کنزالعمال) سبحان اللہ، وہ نبی مکرم رسول معظم شفیع اعظم خاتم النبیین رحمۃ للعالمین ﷺ جن کے لئے یہ ساری کائنات بنی، جن کے لئے دن اور رات کا نظام وجود میں آیا، معراج جن کا سفر کہلایا، سدرہ المنتہیٰ جن کی راہ گزر ٹھہری، عرش عظیم جن کے لئے فرش بنا، دیدار الٰہی جن کا اعزاز ٹھہرا، وہ نبی علیہ الصلوٰۃ و السلام اپنی مبارک پشت پر دونوں شہزادوں کو سوار کیے ہوئے ہیں اور ساتھ فرما رہے ہیں کہ اگر سواری عمدہ ہے تو سوار کتنے اچھے ہیں۔ حضرات حسنین کریمین ؓ کے لئے اس سے بڑھ کر اعزاز کی بات کیا ہو سکتی ہے؟ حضرت علی ؓ فرماتے ہیں کہ ایک بار حضور نبی کریم ﷺ نے حضرت فاطمہ ؓ سے فرمایا ،کیا تم اس پر راضی نہیں ہو کہ تم جنت کی عورتوں کی سردار ہو اور تمہارے بیٹے جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں۔ (کنزالعمال)
حضرت یحییٰ بن مُرّہ ؓسے مروی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا، حسینؓ مجھ سے اور میں حسین ؓ سے ہوں اور جو حسین ؓ کو محبوب رکھتا ہے ،وہ اللہ پاک کو محبو ب رکھتا ہے ۔ (ترمذی) امیر المو منین حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم فرماتے ہیں کہ حسنؓ سر سے سینے تک نبی کریم ﷺ سے مشابہہ تھے اور حسین ؓ سینے سے قدموں تک آپ ﷺ کے ساتھ مشابہت رکھتے تھے ۔ (ترمذی)رسول کریم ﷺ ان دونوں شہزادوں سے بے حد محبت فرماتے ، یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺ نے ان دونوں شہزادوں کے لئے ایک بار دعا فرماتے ہوئے اللہ کی بارگاہ میں عرض کیا، اے اللہ میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان دونوں سے محبت فرما ۔(ابن ماجہ)
حضرت حسین ؓ اور دیگر اہل بیتؓ و صحابۂ کرامؓ کی محبت ہمارے ایمان کا حصہ ہے اور کیوں نہ ہو،ان ہی حضرات کے ذریعے دین ہم تک پہنچا ۔آج جو ہم مسلمان کہلاتے ہیں، یہ محض اللہ رب العزت کا فضل حضور نبی کریم ﷺ کی دعاؤں کی برکت اور ان قدسی صفات حضرات کی محنت کا نتیجہ ہے، لہٰذا ہم پر لازم ہوتا ہے کہ اپنی دعاؤ ں کے اندر ایمان کی عظیم نعمت پر جہاں خدا کا شکر ادا کریں اور آپ ﷺ پر درود و سلام بھیجیں، وہیں ان حضرات کے لئے درجات کی بلندی کی دعا بھی کریں، ہم ان کے احسانات کا بدلہ تو نہیں چکا سکتے، لیکن اس رب کے حضور ان حضرات کے لئے دعا تو کر سکتے ہیں جو ایک نیکی کا اجر دس سے شروع کرتا ہے اور پھر اس کی کوئی انتہا نہیں ہے، اللہ تعالیٰ حضرات اہل بیتؓ و صحابۂ کرام ؓ اجمعین پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے اور ہم سب کو ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین)