پروفیسر خالد اقبال جیلانی
تاریخ اسلام میں ایسے بے شمار شہداء گزرے ہیں کہ یقیناً جن کے جسموں سے گرنے والے خون کے ہر قطرے نے دین اسلام کو فروغ بخشا ، جن کے جسموں پر لگنے والے ہر زخم نے اسلام کو حیاتِ سرمدی سے بہرور کیا ، وہ عظیم جاں نثاران، جنہوں نے اپنے جسموں پر تیروں کی بارش کو برداشت کیا، جنہوں نے اپنے اعضاو جوارح کو اپنے سامنے کٹتے ہوئے دیکھا اور بالآخر جام شہادت نوش کرگئے، لیکن کبھی اسلام کے پرچم کو جھکنے نہیں دیا، کبھی اسلام کی عظمت پرحرف بھی آنے نہیں دیا، جن کے دم قدم سے اسلام روز افزوں پھلتا پھولتا ہوا ہم تک پہنچا۔ یہ اسلام اور تاریخ اسلام کا روشن نقش اور سرمایۂ افتخار ہیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ جب بھی ہمارے سامنے شہادت کا تذکرہ ہوتا ہے یا تاریخ اسلام کے سرفردشوں کے واقعات ہماری سماعت تک پہنچتے ہیں تو اول وقت میں، سب سے پہلے ہمارا ذہن و فکر جس شخصیت عظمیٰ یکتائے زمانہ کی بارگاہ میں خراجِ عقیدت پیش کرتا ہے، وہ ذات نواسۂ رسول ﷺ ، جگر گوشۂ بتولؓ ، حضرتِ امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ہے۔ اسلام کی تاریخ میں شہادتیں تو بہت سے جاں نثاروں نے پیش کیں۔ متعدد وفا شعاروں نے اپنے خون ِ جگر سے اسلام کی کھیتی کو سیراب کیا۔ لیکن امام حسین ؓ کا مقام ان میں نمایاں اور امتیازی شان کا حامل ہے۔
61 ہجری کو میدان کربلا میں غم و اندوہ سے عبارت یہ کرب ناک واقعہ پیش آیا، اسلامی تاریخ اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ چشم فلک نے شہادت کے بے شمار واقعات کو ملاحظہ کیا ہوگا۔ اس روئے زمین نے اپنی پشت پرنہ جانے کتنے شہیدوں کے مبارک جسموں کے بوجھ کو برداشت کیا ہوگا، لیکن شہادت امام حسینؓ دیکھ کر چشم فلک سے بھی آنسوؤں کا سیلاب جاری تھا۔ زمین اہل بیتِ اطہار ؓکے پاکیزہ اور مقدس خون کو اپنے اندر جذب کرتے ہوئے اپنے وجود پر نادم و پشیماں تھی۔
وہ کیسا مقابلہ تھا! وہ کیسی جنگ تھی ! جس میں ایک طرف ہزاروں کا لشکر جرار ٹھاٹھے مارتا ہوا نظر آ رہا ہے تو وہیں دوسری طرف نواسۂ رسول ﷺ ، جن کے متعلق خود سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا’’ حسینؓ مجھ سے ہے اور میں حسینؓ سے ہوں۔‘‘ جنہیں سرکار، رسالت مآب ﷺ نے اپنے مبارک و مقدس کندھوں پر بٹھایا، جنہیں جنتی جوانوں کا سردار ہونے کی بشارت اس زبان ِاقدس نے دی۔ وہ امام حسین ؓ اپنے خاندان، رفقاء اور اعزاء کے ساتھ میدان کا رزار میں اپنے نانا جان کے امتیوں کی تنِ تنہا قیادت فرما رہے ہیں۔
امام حسین ؓ کا یہ جوش و جذبہ ، یہ شجاعت و بہادری اور اتنی بڑی فوج کے سامنے اپنے ایمان پر ثابت و مستحکم رہنا، یہ ایک لمحے کے لئے ہمارے ذہن و فکرکو ورطۂ حیرت میں ڈال دیتا ہے اور ہم میں سے ہر ایک سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ آخر کیا وجہ تھی جس نے امام حسین ؓ کو ایک بلند پہاڑ کی طرح ڈٹے رہنے پر ابھارا، وہ کیا چیز تھی جس نے آپ کے پائے ثبات میں ذرہ برابر بھی جنبش نہیں آنے دی تو ایک جواب حاشیہ ذہن پر ابھر کر آتا ہے ایک چیز ہماری فکر کے دریچوں پر دستک دیتی نظر آتی ہے کہ ، وہ چیز اپنے نانا کے دین کی حفاظت کا جذبہ تھا۔
اپنے نانا کے لائے ہوئے آخری نظام حیات کی بقا کی خاطر مرمٹنے کا جذبہ تھا۔ وہ مقصد دین کی خاطر اللہ کے راستے ،اور اللہ اس کے رسول ﷺ کے نام پر مر مٹنے کا جوش و خروش تھا۔ آپ کے ہر اقدام کا مقصد نانا کی امت کی اخلاقی اور روحانی اصلاح تھا۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے امام حسین ؓ نے اپنے 6 ماہ کے شیر خوار بچے تک کو رضائے الہٰی کے لئے نذر کر دیا اور اپنے اہل و عیال کی فکر نہ کرتے ہوئے بالآخر خود بھی شہادت کے اعلیٰ منصب پر فائز ہو گئے، لیکن آپ نے باطل کی بیعت کو ہر گز گوارا نہیں کیا، آپ نے اپنے خون کا آخری قطرہ تک بہا دیا ،لیکن ظالم حکمرانوں کے سامنے سر نہیں جھکایا۔
گویا کہ آپ اپنے کردار و عمل ، ثابت قدمی اور قربانیوں سے اپنے نانا کے قیامت تک آنے والے امتیوں کو یہ پیغام دینا چاہتے تھے کہ دنیا میں کتنی ہی مشکلات کیوں نہ آئیں، برداشت کر لینا، دشواریاں تمہارے راستے کی دیواربن جائیں، صبر کا دامن مت چھوڑنا، جب بات دین اسلام کی آجائے ، جب ناموس رسول ﷺ کا سوال ہو، تو اپنے مدِ مقابل کی طاقت و قوت کو مت دیکھنا اپنے سامنے مسلح افواج سے خوف زدہ نہیں ہونا، اقتدار کی کرسی پر کون ہے؟
اس کی فکر ہر گز نہیں کرنا، بلکہ جب ایسا وقت آجائے تو سمجھ لینا کہ’’ اب وقت ِ شہادت ہے آیا ‘‘۔ اپنی جان و مال اور اولاد ہر چیز کو اللہ کے نام پر قربان کردینا ، ہنس کر شہادت کو گلے لگا لینا، لیکن کبھی بھی باطل سے سمجھوتا نہیں کرنا، اور سمجھ لینا کہ اس وقت دین کو تمہارے خون کی ضرورت ہے۔ لہٰذا دین اسلام اور نظام اسلامی کو اپنے خون جگر سے سیراب کرنا۔
امام حسین ؓ کی جدوجہد ، مصائب و مشکلات ، کربلا کے میدان میں بھوک اور پیاس سے بلکتے ننھے منے بچوں کی چیخ و پکار اور آخر اپنی شہادت سے امام حسینؓ کا حقیقی کردار ابھر کر سامنے آتا ہے۔ حضرت امام حسینؓ کی سیرت و کردار رہتی دنیا تک کے انسانوں کی تعمیر سیرت اور جدوجہد حق و باطل میں ایک روشن آفتاب کی مانند ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ سیرتِ امام حسینؓ اور ذکرِ حسینؓ سننے والا آپ کی سیرت و کردار کو معیار اصلاح بناتے ہوئے اپنی اخلاقی اور روحانی اصلاح کی کوشش کرے۔
اُن کی دی ہوئی قربانی کی قدر و منزلت سے آگاہی حاصل کرے اور ان اسلامی اقدار پر عمل پیرا ہو، جن کے تحفظ کے لئے امام حسین ؓ نے جام شہادت نوش فرمایا۔ کربلا کے میدان میں امام حسینؓ اور ان کے جاں نثاروں کی عظیم قربانی، دین کی بقا اور اس کےتحفظ کے لئے اپنا سب کچھ قربان کرنے کا درس دیتی ہے۔آج اس عظیم قربانی اور شہادتِ امام حسینؓ کا پیغام یہی ہے کہ ’’اے مسلمانو! اپنی قلّت پر توجہ دیئے بغیر، اللہ پر بھروسا رکھو، جو بھی مومن اللہ کے توکل اور بھروسے پر باطل کے سامنے ڈٹ جائے تو پھر دنیا کی کوئی طاقت اسے شکست سے دوچار نہیں کر سکتی۔