• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عیدالاضحی کے موقع پر بجلی کی لوڈ شیڈنگ میں کمی کی جو خوشخبری سنائی گئی، اس پر چند دن عمل درآمد کے بعد صورتحال پھر پرانے ڈگر کی طرف لوٹتی محسوس ہو رہی ہے۔پہلے دریائوں اور ڈیموں میں پانی کی کمی کو برقی فراہمی میں کمی کی ایک وجہ بتایا جا رہا تھا۔ اب نہ صرف دریائوں اور ڈیموں میں پانی کی فراوانی ہے بلکہ ملک کے کئی حصوں بالخصوص بلوچستان بھر میں سیلابی ریلوں نے انسانی المیے جنم دیئے ہیں مگر یہ بات ایک بار پھر واضح ہو گئی کہ ہم ملک کے طول و عرض تو کجا کسی بھی حصے میں ایسے نکاسی ٹنل اور چھوٹے ڈیم بنانے میں زیادہ سنجیدہ نہیں رہے جو بارشوں کے فاضل پانی کو مخصوص راستے پر لیجانے اور جمع کرنے کا ذریعہ ہو اور عام دنوں میں جن کا ذخیرہ شدہ پانی برقی اور زرعی پیداوار بڑھانے کیلئے استعمال ہو سکے ۔برقی بحران کی وجوہ جو بھی بتائی جائیں، کراچی کے شہری شاکی ہیں کہ کے۔الیکٹرک نے بتدریج لوڈ شیڈنگ میں اضافہ پھر شروع کر دیا ہے، متعدد علاقوں میں جہاں پہلے ایک گھنٹے کی تین بار لوڈ شیڈنگ تھی وہاں ڈیڑھ گھنٹے یا زیادہ دورانیے کے ساتھ بار بار برقی تعطل کی شکایات ہیں۔ سوک سینٹر کے آس پاس کے حساس علاقے میں کئی روز سے 4تا 8گھنٹے لوڈ شیڈنگ کی شکایت کی جا رہی ہے۔ لاہور اور کوئٹہ سمیت دیگر شہروں میں بھی صورتحال کچھ مختلف نظر نہیں آتی۔ ایسے وقت ،کہ ڈیموں اور دریائوں میں وافر مقدار میں پانی دستیاب ہے، پن بجلی کی پیداوار بڑھی نظر آنی چاہئے جبکہ پانی کی لہروں، شمسی توانائی اور ہوا کی طاقت سمیت دیگر دستیاب سستے ذرائع سے بجلی پیدا کرنے کے عشروں سے جاری مختلف حکومتوں کے دعووں کو موجودہ دور میں عملی صورت کی طرف بڑھتا نظر آنا چاہئے۔ اس باب میں وفاقی اور صوبائی حکومتیں مل کر کوئی لائحہ عمل بنا سکیں تو ملک اور عوام کے مفاد میں اس کے بہتر نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998

تازہ ترین