• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جمیل الدین عالی

ہو اللہ ہو اللہ ہو اللہ ہو اللہ

اتنے بڑے جیون ساگر میں تونے پاکستان دیا

ساحل اترا بیچ بھنور میں

اک نیا امکان دیا…تو نے پاکستان دیا

ہو اللہ ہو اللہ ہو اللہ ہو اللہ

اتنے بڑے جیون ساگر میں تو نے پاکستان دیا

ہو اللہ ہو اللہ ہو اللہ ہو اللہ

اتنی مشکل راہ گذر میں

اتنے کٹھن دشوار سفر میں

بڑھنے کا ارمان دیا…تو نے پاکستان دیا

ہو اللہ ہو اللہ ہو اللہ ہو اللہ

اتنے بڑے جیون ساگر میں تو نے پاکستان دیا

ہو اللہ ہو اللہ ہو اللہ ہو اللہ

اک دن ساری دنیا کہہ دے

تو نے اس دھرتی کے رستے

اک نیا انسان دیا…تو نے پاکستان دیا

ہو اللہ ہو اللہ ہو اللہ ہو اللہ

اتنے بڑے جیون ساگر میں تو نے پاکستان دیا

ہو اللہ ہو اللہ ہو اللہ ہو اللہ

شاہ لطیف سے برکت پائے

الن لے علی کی دعائیں

جن کو رب نےایمان دیا …تو نے پاکستان دیا

ہو اللہ ہو اللہ ہو اللہ ہو اللہ

اتنے بڑے جیون ساگر میں تو نے پاکستان دیا

ہو اللہ ہو اللہ ہو اللہ ہو اللہ

اے قائدِاعظم تیرا احسان ہے

فیاض ہاشمی، گیت نگار

یوں دی ہمیں آزادی کہ دنیا ہوئی حیران

اے قائد اعظم تیرا احسان ہے احسان

اے قائد اعظم تیرا احسان ہے احسان

تیرا احسان ہے تیرا احسان

ہر سمت مسلمانوں پہ چھائی تھی تباہی

ملک اپنا تھا اور غیروں کے ہاتھوں میں تھی شاہی

ایسے میں اٹھا دین محمد کا سپاہی

اور نعرہ تکبیر سے دی تو نے گواہی

اسلام کا جھنڈا لیے آیا سر میدان

اے قائد اعظم تیرا احسان ہے احسان

تیرا احسان ہے تیرا احسان

دیکھا تھا جو اقبال نے اک خواب سہانا

اس خواب کو اک روز حقیقت ہے بنانا

یہ سوچا جو تو نے تو ہنسا تجھ پہ زمانہ

ہر چال سے چاہا تجھے دشمن نے ہرانا

مارا وہ تو نے داؤ کہ دشمن بھی گئے مان

اے قائد اعظم تیرا احسان ہے احسان

تیرا احسان ہے تیرا احسان

لڑنے کا دشمنوں سے عجب ڈھنگ نکالا

نہ توپ نہ بندوق نہ تلوار نہ پھالا

سچائی کے انمول اصولوں کو سنبھالا

پنہاں تیرے پیغام میں جادو تھا نرالا

ایمان والے چل پڑے سن کر تیرا فرمان

اے قائد اعظم تیرا احسان ہے احسان

تیرا احسان ہے تیرا احسان

پنجاب سے بنگال سے جوان چل پڑے

سندھی، بلوچی، سرحدی پٹھان چل پڑے

گھر بار چھوڑ بے سرو سامان چل پڑے

ساتھ اپنے مہاجر لیے قرآن چل پڑے

اور قائد ملت بھی چلے ہونے کو قربان

اے قائد اعظم تیرا احسان ہے احسان

تیرا احسان ہے تیرا احسان

نقشہ بدل کے رکھ دیا اس ملک کا تو نے

سایہ تھا محمد کا، علی کا تیرے سر پہ

دنیا سے کہا تو نے کوئی ہم سے نہ الجھے

لکھا ہے اس زمیں پہ شہیدوں نے لہو سے

آزاد ہیں آزاد رہیں گے یہ مسلمان

اے قائد اعظم تیرا احسان ہے احسان

تیرا احسان ہے تیرا احسان

ہے آج تک ہمیں وہ قیامت کی گھڑی یاد

میت پہ تیری چیخ کے ہم نے جو کی فریاد

بولی یہ تیری روح نہ سمجھو اسے بیداد

اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

گر وقت پڑے ملک پہ ہو جائیے قربان

اے قائد اعظم تیرا احسان ہے احسان

تیرا احسان ہے تیرا احسان

اے ارضِ پاک

احمد ندیم قاسمی

خدا کرے میری ارض پاک پر اترے

وہ فصلِ گل جسے اندیشہء زوال نہ ہو

یہاں جو پھول کھلے وہ کِھلا رہے برسوں

یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو

یہاں جو سبزہ اُگے وہ ہمیشہ سبز رہے

اور ایسا سبز کہ جس کی کوئی مثال نہ ہو

گھنی گھٹائیں یہاں ایسی بارشیں برسائیں

کہ پتھروں کو بھی روئیدگی محال نہ ہو

خدا کرے نہ کبھی خم سرِ وقارِ وطن

اور اس کے حسن کو تشویش ماہ و سال نہ ہو

ہر ایک خود ہو تہذیب و فن کا اوجِ کمال

کوئی ملول نہ ہو کوئی خستہ حال نہ ہو

خدا کرے کہ میرے اک بھی ہم وطن کے لیے

حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو

اے روحِ قائد آج کے دن ہم تجھ سے وعدہ کرتے ہیں

محشر بد ایونی

اے روح ِ قائد آج کے دن ہم تجھ سے وعدہ کرتے ہیں

ہم تجھ سے وعدہ کرتے ہیں… اے روح ِ قائد …

مٹی سے سچا پیار ہمیں ، اب پیار کے رنگ ابھاریں گے

اب خون رگ جاں بھی دے کر ، موسم کا قرض اتاریں گے

ڈھالیں گے فضا میں وہ جذبے

کاغذ پے جو لکھا کرتے ہیں

ہم تجھ سے وعدہ کرتے ہیں ، اے روح ِ قائد …

دریاؤں کی تہ میں اتریں گے ، رخشندہ گوہر لائیں گے

افلاک کی حد کو چھو لیں گے ، تارے بھی زمیں پر لائیں گے

کر دیں گے عمل سے بھی ثابت

باتیں تو ہمیشہ کرتے ہیں

ہم تجھ سے وعدہ کرتے ہیں ، اے روح ِ قائد …

دست و بازو کی کھا کہ قسم ، پھر آج چلے ہیں اہل ہنر

ہم تازہ دم ، ہم روشن دل ، ہم محنت کش ، ہم دانشور

خامے سے دھنک لہراتے ہیں

تیشے سے اجالا کرتے ہیں

ہم تجھ سے وعدہ کرتے ہیں , اے روح ِ قائد …

موسم بھی نظر ڈالے گا تو اب ،چونکے گا ہماری محنت پر

سورج بھی ہمیں اب دیکھے گا تو رشک کرے گا ہمت پر

اب یہ نہ کہیں گے عرض و سما

ہم دن ہی منایا کرتے ہیں

ہم تجھ سے وعدہ کرتے ہیں

ہم تجھ سے وعدہ کرتے ہیں