• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’مجھے فخر ہے اپنے پاکستانی ہونے پر، مجھے فخر ہے اس بات پر کہ میں دنیا بھر میں ایک آزاد مسلم ریاست’پاکستان‘ کے شہری کی حیثیت سے پہچانا جاتا ہوں۔ یہ وطن میری شناخت ، میرا مان اور میری پہچان ہے۔ یہاں مجھے کسی جابر حکمراں کے کرفیو یا کسی مخصوص حیثیت کے ختم کیے جانےکا خوف نہیں۔ دشمن سے مقابلہ کرنے کیے لیے میری افواج ہر دم تیار ہیں اور پاک فوج کے جانباز سپاہی سرحدوں پرپہرہ دے رہے ہیں۔

یہ جانباز 75سال سے پاک دھرتی کے لیےاپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے آرہے ہیں لیکن دشمن کو اس کے مذموم عزائم میں کبھی کامیاب ہونے نہیں دیا اور نہ ہی مستقبل میں ہونے دیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم ارض پاک کی کھلی فضاؤں میں خود مختار حیثیت سے سکون کا سانس لے رہے ہیں‘‘۔

آج 14اگست کے اس عظیم اور یادگار دن کے موقع پر ہربار کی طرح آزاد وطن کی اہمیت اور قدرو منزلت کا احساس شدت سے ہورہا ہے۔ دل ودماغ ہمارے بزرگوں کی جانب سے ملک حاصل کرنے کی تگ ودو، جدوجہد اور قربانیوں کے اعتراف میں سر تسلیم خم کرتا ہے، جس کے نتیجے میں ہمیں ایک خود مختار نظریاتی ریاست’’ اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ حاصل ہوئی ۔

جس طرح ہمارے آباؤ اجداد کے لیے ایک مسلم ریاست کے قیام کے لیے جدوجہد کرنا لازم تھا، اسی طرح ہمارابھی فرض ہے کہ ہم تحریکِ پاکستان کے قائدین اور آباؤ اجدادکے چھوڑے ہوئے ترکے اور ریاست کو برقرار رکھنے کے لیےوہ تمام حقوق ادا کریں، جو اس کی تعمیر و تشکیل کے لیے ضروری ہیں۔ یہ ہر اس شخص کا فرض ہے، جو اس مملکتِ خداداد میں پیدا ہوا اور ا س حوالے سے پہچان رکھتا ہے۔

مسلمانانِ برصغیر نے قائداعظم محمد علی جناح کی زیرقیادت 90سال کی طویل جدوجہد کے بعد خالصتاً آئینی و جمہوری طریقے سے دو قومی نظریے کی بنیاد پر انگریز سامراج سے آزادی حاصل کی۔ مسلمانوں نے آزاد ریاست اس عہد کے ساتھ حاصل کی تھی کہ یہ مسلم اُمہ کے لیے نظریاتی تجربہ گاہ ہوگی اور مسلمانانِ ہند کے سیاسی، معاشی، سماجی اور تہذیبی حقوق کے تحفظ کی ضامن ہوگی، جہاں تمام مسلمان اپنی ثقافتی، تہذیبی اور دینی اقدار کے مطابق آزادانہ زندگی گزاریں گے۔ یہ ایک ایسی ریاست ہوگی جہاں غیر مسلم بھی اپنے عقائد پر عمل کرنے میں آزاد ہوں گے۔

ہمیں اپنا محاسبہ کرنا چاہیے کہ بطور پاکستانی ہم اس عہد کی پاسداری کرنے میں کس حد تک کامیاب ہوئے۔ ہم ابھی ایک نوجوان مملکت ہیں، اس مملکت کے قیام کو کوئی بڑا عرصہ نہیں ہوا، جس کی بنیاد پر اس سے متعلق کوئی حتمی رائے قائم کردی جائے۔ یہ حقیقت اپنی جگہ مسلمہ ہے کہ آج وطنِ عزیز کے حالات آئیڈیل نہیں، لیکن یہ سوچتے وقت ان حالات اور واقعات کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، جن کا اس عرصے میں اس قوم کو سامنا رہا ہے۔ قوموں کے لیے حالات ایک جیسے نہیں رہتے، اس قوم میں مشکلات سے لڑنے کا جذبہ آج بھی اتنا ہی پختہ ہے، جتنا آزادی کے وقت تھا۔ جس کے پیشِ نظر یہ بات یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ آنے والے وقتوں میں اس قوم کو دنیا کی کوئی قوت آگے بڑھنے سے نہیں روک سکتی۔

یہ حقیقت اپنی جگہ مسلمہ کہ فی الحال ہم اس مملکت کو ایک حقیقی اسلامی نظریاتی ریاست کے ڈھانچے میں نہیں ڈھال سکے اور ہم ایک ایسے معاشرے کی تشکیل دینے میں ابھی تک کامیاب نہیں ہوسکے جو بحیثیتِ مجموعی اسلامی شعار کے مطابق زندگی گزارتی ہو؟

یہ بات بھی اپنی جگہ ایک بڑی حقیقت ہے کہ مملکت خداداد میں ارتکاز دولت کی وجہ سے امیر اور غریب کا فرق بڑھتا چلا گیا ہے۔ صحت عامہ، تعلیم، روزگار اور انصاف کے مواقع سب کو یکساں طور پر حاصل نہیں ہوئے لیکن اس کے باوجود بھی پُرامید ہیں کہ اگلے دن کا سورج ایک نئی صبح لے کر طلوع ہوگا، جس میں سب کچھ ٹھیک اور ہر کوئی خوشحال ہوگا کیوں کہ اُمید کے بغیر مقصد کا حصول ممکن نہیں ہوگا۔

آج یومِ آزادی پر تجدید عہدِ وفا کرتے وقت ہمیں اپنا محاسبہ کرنا چاہیے کہ بحیثیت پاکستانی ہم نے اس ملک کو کیا دیا ہے؟ محبت قربانی مانگتی ہے، جذبہ ایثار اور ایمانداری چاہتی ہے۔ ملک بھر میں صفائی، گندگی اور غلاظت کے ڈھیر دیکھ کر صوبائی اور بلدیاتی اداروں کو قصور وار ٹھہرا کر ہم بری الذمہ ہوجاتے ہیں۔ گاڑی میں سفر کرتے ہوئے کھڑکی کھول کر کچرا اور تھیلیاں باہر سڑک پر پھینکتے ہوئے ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ یہی کوڑا کرکٹ ماحول کی خرابی کا باعث بن رہا ہے۔ بلدیاتی اداروں کا کام اپنی جگہ لیکن ہمیں خود بھی صفائی کا خیال رکھنا ہوگا۔ 

اسی طرح ہم ملک بھر میں بڑھتے ٹریفک حادثات کا ذمہ دار قوانین اور سڑکوں کی بدحالی کو قرار دیتے ہیں لیکن ہم یہ کیوںبھول جاتے ہیں کہ سڑکوں پر تعینات ٹریفک پولیس انہی قوانین کی پاسداری کروانے کے لیے تعینات کی گئی ہے، ہم بس انھیں بُرا بھلا کہتے ہوئے ان کی نظروں کے سامنے سے فراٹے بھرتے ہوئے نکل جانا اپنی بہت بڑی فتح سمجھتے ہیں۔ صرف یہی نہیں اس جیسے بہت سے دیگر مسائل بھی ہیں جو ہم انفرادی یا اجتماعی طور پر انجام دیتے ہیں اور اس پر کسی قسم کا پچھتاوا تک محسوس نہیں کرتے۔ ہمیں اس بات کا اعتراف کرنا ہوگا کہ ہم سب اپنی اپنی جگہ اپنے قومی اور شہری فرائض سے غفلت کے مرتکب ہوتے چلے آ رہے ہیں، جس پر غوروفکر لازم وملزوم ہے ۔

بحیثیت پاکستانی آئیے آج کے دن کے موقع پرہم سب مل کر خود سے یہ عہد کریںکہ اس دن کو جذبہ حب الوطنی کی تجدید کے حوالے سے منائیں گے اور ملک کوصحیح سمت میں گامزن کرنے کے لیے اپنا اپنا کردار بہتر انداز میں ادا کریں گے۔ صحیح کو صحیح اور غلط کو غلط کہنا ہوگا، ساتھ ہی دوسروں کو بدلنے سے پہلے خود کو بدلنا ہوگا۔ بقول مولانا ظفر علی خان

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی

نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا