• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بیگم کو صاحب کے کردار پر شک تھا ۔ اکثر جب وہ صبح دفتر کے لئے روانہ ہوتے تو بیگم ایک ملازم کو پیسے دے کر حکم دیتی کہ ٹیکسی پکڑو اوردن بھر صاحب کی کار کا پیچھا کر کے مجھے رپورٹ کرو کہ وہ کہاں کہاں جاتے ہیں ؟ صاحب زیرک تھے ، جلد ہی اس تعاقب کو تاڑ گئے ۔انہوں نے ملازم سے کچھ نہ کہا، البتہ ایک دن اپنی زوجہ کو پیشکش کر دی ’’تم براہِ راست مجھ سے دن بھر کی مصروفیات کی رپورٹ مانگ لیا کرو، میں سچ سچ بتا دوں گا، تاہم ایک التجا ہے کہ میری کمائی خود پر جیسے چاہو خرچ کرو،لیکن خدارا اسے میرے ہی خلاف تو نہ لٹائو ‘‘
اس ملک کے شہریوں کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہاتھ ہوا ہے ۔ ہم سادہ دلوں کو رٹایا جاتا ہے کہ ہم ایک اسلامی جمہوریہ میں اخلاقیات کے اونچے درجے پر فائز مہذب قوم ہیں ۔ یقینا ایسا ہی ہوگا، مگر سوال ہے صاحب کہ جمہوری اور مہذب معموروں میں تو قانون سازی کا حق فقط عوام کے منتخب کردہ قانون ساز اداروں کو حاصل ہے ۔ پھر یہاں کیوں غیر منتخب ادارے مضحکہ خیز قوانین کے بل بنا کر دنیا میں ہماری جگ ہنسائی کا ساماں کرتے ہیں ؟ ستم ظریفی یہ ہے کہ ان مشاورتی اداروں کے فاضل ارکان جن ملازمت پیشہ اور مزدور خواتین کے ٹیکسوں سے تنخواہیں اور مراعات لیتے ہیں ، انہی کے خلاف تشددکے طریقوں اور انہیں عضو معطل بنانے کے لئے بل بنا کر ان کے منتخب کردہ ایوانوں کو ڈکٹیٹ کرتے ہیں ۔ یہ جن لوگوں کی کمائی پر پلتے ہیں ، انہی کو رمضان اور عید کے چاند پر باہم تقسیم اور دست و گریباں کرتے ہیں ۔ ہم نے ووٹ دے کر ریاست چلانے کے اپنے تمام اختیارات منتخب پارلیمان کو دے دیئے ہیں ۔ تو پھر ہمارے یہ منتخب ادارے کیوں بروئے کار نہیں آتے اور جنگل کی خود رو جھاڑیوں کی طرف پھیلی لا تعداد غیر ضرور ی وزارتوں ، ڈویژنوں، اداروں ، نظریاتی کونسلوں ، رویت ہلال کمیٹیوں اور کشمیر کمیٹیوں وغیرہ کو سرے سے ختم کیو ں نہیں کر دیتے، جو ہمارے لئے سراسر سفید ہاتھی ہیں ؟ اگر اسمبلیوں کے اراکین ہمارے وسائل کا ناجائز استعمال کرتے ہیں تو اس میں خود ہم بھی قصور وار ہیں کہ انہیں اپنے قیمتی ووٹوں سے منتخب کیا۔ہم لاچاروں کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں ۔ ہم غیر منتخب اداروں سے کچھ نہیں کہتے ، البتہ اپنے نمائندوں سے التجا کرتے ہیں کہ وہ ہماری دولت خود کھائیں لیکن خدارا ان سفید ہاتھیوں کے بوجھ سے تو ہمیں آزاد کریں ، جو ہمارے دستر خوان سے سیر ہوکر ہمارے ہی خلاف کوڑے اٹھا لیتے ہیں ۔ جنہیں ہر حکومت اپنی بقا کی خاطر ایک مخصوص طبقے کو نوازنے کے لئے ہم پر مسلط کر دیتی ہے ۔ حیرت ہے صاحب ! پنجاب اسمبلی سے تحفظ حقوق نسواں بل منظور ہونے پر خواتین کے خلاف کیسے کیسے بہتان تراشے گئے ۔ ماتم کیا گیا کہ اب عورتیں آدھی رات کے بعد گھر آئیں گی مگر مرد ان سے باز پرس نہیں کر سکیں گے ۔ کیا پرواز ہے تخیل کی ۔ اب’’ تحفظ حقوق نسواں‘‘ کا ان کے اپنے ہنر کا شاہکار بل دیکھیے کہ ’’تادیب کے لئے شوہر بیوی پر ہلکا تشدد کر سکے گا‘‘ تاہم ساتھ ہی کمال مہربانی سے عورت کو ریلیف بھی دیا گیا ہے کہ تادیب سے تجاوز پر وہ شوہر کے خلاف عدالت میں جا سکے گی ۔ غور فرمائیے کہ عورت عدالت میں دعویٰ دائر کرے گی کہ مجھے بد چلنی کی بنا پر خاوند نے تادیب سے زیادہ تشدد کا نشانہ بنایا، جبکہ اسے حضرت صاحب کے مقرر کردہ پیمانے کے مطابق مجھے مارنا چاہئے تھا ۔ ان کی تمام تر توجہ صرف عورتوں کے کردارپر ہے مگر اس کا استحصال ان کی نظروں سے اوجھل ہے ۔ کیا ان کی مقدس بارگاہوں سے ان مظلوم عورتوں کے لئے کبھی کوئی آواز بلند ہوئی جو اپنے ہی وطن میں مردانہ فسطائیت کا شکار ہیں؟ ضیاء الحق کی مہربانیاں ہیں ، اگر حوا کی کوئی بیٹی دہائی دیتی ہے کہ اس کے ساتھ غیر انسانی سلوک ہوا ہے تو اس سے چار گواہ طلب کئے جاتے ہیں۔ اگر نہیں لا سکتی تو ’’ اعترافِ جرم‘‘ میں جیل میں ڈال دی جاتی ہے ۔ اور یہ ونی گردی ، تیزاب گردی ،اغواء ، ریپ اور نابالغ بچیوں کی شادیاں …یہ سب دشمنوں کی وجہ شہرت ہیں یا ہماری ؟
دلیل دی جاتی ہے کہ یہ ادارے آئینی ہیں ۔ تو کیا منتخب پارلیمان کا فرض نہیں کہ وہ وقت کے تقاضوں کے پیش نظر آئینی ترمیم کے ذریعے ایسے غیر ضروری ادارے ختم کر دے اور بے مقصد انتظامی اداروں کا حکومت خاتمہ کردے تاکہ قومی خزانے اور عوام کو کچھ ریلیف ملے ۔ جب دنیا کے باقی ممالک میں جدید سائنس کی مدد سے ہفتوں قبل رمضان المبارک کے چاند کی صحیح تاریخ کھوج کر اس کا اعلان کردیا جاتا ہے تو ہم کیوںایسا نہیں کرسکتے ؟ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل قوانین کو اسلامی سانچے میں ڈھالنے کے لئے پارلیمنٹ کی رہنمائی کرتی ہے ، تو پھر یہ منتخب اسمبلیاں کس مرض کی دوا ہیں؟ جب آئین میں طے ہے کہ پارلیمان خلافِ شریعت کوئی قانون نہیں بنائے گی اور اس کی اکثریت بھی مسلمانوں پر مشتمل ہے تو پھر اس کی رہنمائی کے لئے غیر منتخب ادارے بنانے کا کیا مقصد ہے صاحب ؟ براہِ کرم اس کے جواب میں علم اور کردار کی برتری کے حوالے سے بات نہ ہی کی جائے تو بہتر ہے کیونکہ کیا منتخب اور کیا غیر منتخب ، سب کا ’’علم اور کردار‘‘ روزِ روشن کی طرح عیاں ہے ۔بار دگر سوال ہے کہ عوام نے قوانین سازی کا اختیار قومی و صوبائی اسمبلیو ں کو دیا ہے ۔ یہ غیر منتخب ادارے کس مینڈیٹ کے تحت پنجاب اور خیبر پختونخوااسمبلیوں کے تحفظ خواتین بل مسترد فرما کر اپنے بل پیش کر رہے ہیں؟
اکیسویں صدی کی دنیا گلوبل ویلیج میں سمٹ کر بہت دور نکل گئی ہے ۔ اب پاک سر زمینوں پر بھی شرم و حیا کا کچھ عمل دخل ہونا چاہئے ۔یہاں بھی فکرو تدبر کے صدیوں پرانے زنگ آلود مقفل کواڑ کھلنے چاہئیں اور صحت مند مکالمے کی روایت پڑنی چاہئے ۔ غیر ضروری اداروں کی بندش اورضروری اداروں کی حقیقی فعالیت پر کھل کر بات ہونی چاہئے ، ورنہ دختران حوا پر تشدد کی سفارشات پیش ہوتی رہیں گی ، ملا منصوروں کو جعلی شناختی کارڈ جاری ہوتے رہیں گے اور جعلی شناختی کارڈوں کی جعلی تصدیق کے احکامات جاری ہوتے رہیں گے ۔ دنیا انٹر ٹین ہوتی رہے گی اور شتر مرغ ریت میں سر چھپائے خود کو مہذب قوم سمجھتے رہیں گے ۔
تازہ ترین