جنرل ضیاء الحق کی موت کے بعد پاکستان میں جمہوریت محدود آزادی کےساتھ بحال کردی گئی تھی۔ لیکن 1990 کےعشرے میں ہم نے سیاسی حکومتوں کو سانپ اور سیڑھی کا کھیل کھیلتے دیکھا۔ سانپ کبھی بے نظیر بھٹو کی تو کبھی نواز شریف کی حکومت کو کھاجاتا۔ان ادوار میںبھی اندرونی سیاست اور خارجہ پالیسی فوجی مقتدرہ ہی کے ہاتھ میں رہی جو بے نظیراور نواز شریف دونوں پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں تھی۔ افغانستان میں طالبان کی مدد اور حمایت کی گئی ۔
اسی دوران 1997 سے 1999 کے درمیانی عرصے میں بھارت میں بی جے پی سے تعلق رکھنے والے بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کی حکومت نے ایٹم بم کا تجربہ کر ڈالا۔ پاکستان نے بھی جواب میں ایسا ہی کیا۔پھر تناؤ کم کرنے اور تعلقات معمول پر لانے کے لیے واجپائی جی نےدورہ پاکستان کا فیصلہ کیا۔ نواز شریف نے اس دورے کا مثبت انداز میں جواب دیا،لیکن کہاجاتا ہے کہ دونوں ملکوں کی سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ اس پیش رفت سے خوش نہیں تھی۔ تیسرااہم واقعہ کارگل کا تنازع تھا جس کی وجہ سے 12اکتوبر1999کو جنرل مشرف نے نواز حکومت ختم کرکے اقتدار پر قبضہ کر لیاتھا۔
جنرل ضیا کی طرح جنرل مشرف کے لیے بھی اپنے ابتدائی دورِ حکومت میں دنیا کی حمایت حاصل کرنامشکل ہو گیا تھا۔لیکن اسے مشرف کی خوش قسمتی کہیے یا دنیا کی بدقسمتی کہ گیارہ ستمبر 2001کو امریکا میں ورلڈ ٹریڈ ٹاور پر دہشت گردی کاایسا واقعہ پیش آگیا جس نے دنیا بھر کو متاثر کیا اور عالمی سیاست کو نیا رخ دے دیا۔ پلک جھپکتے ہی عالمی منظر نامہ تبدیل ہوگیا۔
نیٹو میں شامل ممالک اور امریکا افغانستان پر حملے کے لیے متحد ہوگئے۔ طالبان کی حکومت پر الزام تھا کہ وہ حملہ آوروں کے سہولت کاروں کا کردار ادا کر رہی ہے اور انہیں محفوظ پناہ گاہیں فراہم کیے ہوئے ہے۔ جنرل مشرف کو سنہری موقع مل گیا اور ایک لمحہ تاخیر کیے بغیرانہوں نے افغانستان کے خلاف کارروائی میں امریکہ کا ساتھ دینے کا اعلان کر دیا۔وہ اقتدار کو طول دینے کے لیے’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ کا حصہ بن گئے۔
مشرف اکتوبر 1999ء سےاگست2008تک اقتدار پر قابض رہے۔ اس دوران خارجہ امور میں پاکستان کے دو اقدامات بہت اہم تھے۔اوّل یہ کہ پاکستان نے امریکا کی بھرپور معاونت کی۔دوم،بھارت کے ساتھ کشمیر کا تنازع حل کرنے کی حتی الامکان کوشش کی۔ لیکن دونوں اقدامات کے نتائج الٹے برآمد ہوئے۔ مشرف کے بعد اکیسویں صدی کے دوسرے عشرے میں پاکستان کی خارجہ پالیسی بنیادی طور پر امریکا، چین اور سعودی عرب کے اثر ورسوخ کے زیادہ زیرِ اثر رہی۔
پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں چین ،پاکستان اقتصادی راہ داری کی ابتداہوئی تو امریکا کو یہ اقدام پسند نہیں آیا۔ بش جونئیرہی کے دور سے امریکی انتظامیہ پاکستان سے ڈُو مورکا مظالبہ کرنے لگی تھی۔پھر ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے خلاف امریکاکے آپریشن کے بعدامریکی انتظامیہ نے پاکستان پر دباو میں بہت زیادہ اضافہ کردیا تھا ۔وہ براک اوباما کا دور تھا۔لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کا رویہ بہت جارحانہ تھا۔ٹرمپ پاکستان کے بارے میںابتدا ہی سے شکوک وشبہات کا شکار تھے اور چاہتے تھے کہ پاکستان چین پر انحصار کی پالیسی ترک کردے۔
پچھلی دو دہائیوں میں ہمارے ارد گرد بالخصوص اور دنیا بھر میں بالعموم بہت سے منظرنامے بدل گئے ہیں ۔ مثلا ہمارے پڑوس میں افغانستان اور بھارت میںارضی اور نظریاتی طورپر بڑی تبدیلیاں آچکی ہیں۔ آج پاکستان اور بھارت سفارتی سطح پربھی ایک دوسرے سے بہت دُورنظر آتے ہیں۔ لیکن گزشتہ ایک دہائی کے دوران، پاک بھارت تعلقات کھوئے ہوئے مواقع کی ایک داستان ہیں۔ پاک، بھارت تعلقات میں خیر سگالی کا آخری مرحلہ 2014 اور2015میں آیاتھاجب سابق وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف اور ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی نے تجارت اور کاروبارکے روابط سے متعلق جنوبی ایشیاکے لیے عہد، صلاحیت، اور وژن کا اظہار کیا تھا۔
مگر یہ خواب اس وقت چکنا چور ہوگیا جب جب مودی کے دورہ لاہور کے صرف دو ہفتوں بعد پٹھان کوٹ ایئر فورس بیس پر حملہ ہوگیا۔ اس کے بعد بھارت اور مقبوضہ کشمیر میں دہشت گردی کے کئی بڑے واقعات ہوئےجن کے الزامات پاکستان پر لگائے گئے۔ بھارت نفرت کی چنگاری کو ہوا دیتا رہا اور بات پاکستان میں سرجیکل اسٹرائیک کے جھوٹے دعوے تک جاپہنچی۔ پھر چودہ فروری2019کومقبوضہ کشمیر کے ضلع پلوامہ میں سی آر پی ایف کے قافلے پر مبینہ طورپر جیش محمد کے خود کش حملے میں چالیس جوانوں کی ہلاکت کے بعد بھارت نے دعویٰ کیا کہ اس نے چھبّیس فروری کو پاکستان کے صوبہ خیبر پختون خواکے شہر بالاکوٹ میں شدّت پسند تنظیم کے مبینہ ٹھکانوں کو نشانہ بنایا ہے۔
اس کےچوبیس گھنٹے کے اندر ہی پاکستان نےستّائیس فروری کوایک بھارتی مگ -21جنگی طیارہ مار گرایا اور ایک پائلٹ کو گرفتار کر لیاجسے بعد میں رہا کر دیا گياتھا ۔ اگست 2019میں بھارت نے وہ اقدام اٹھایا جس کے بارے میں مہذّب دنیا سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔ مقبوضہ کشمیر کو بھارت کے آئین کے تحت حاصل خصوصی حیثیت ختم کرکے اسے ہڑپ کرنے کا اعلان کیا گیا اور مقبوضہ کشمیر کو عملا جیل میں تبدیل کردیا گیا۔ چناں چہ دونوں ملکوں کے تعلقات اب تقریبا نہ ہونے کے برابر ہیں اور جب تک بھارت مقبوضہ کشمیر کی کی پرانی حیثیت بحال نہیں کرتا آنے والی حکومتوں کو بھارت کے ساتھ تجارت اور تعاون پر قائل کرنے کا جواز پیش کرنے میں سخت دشواری کا سامنا کرنا پڑے گا۔
پاک، افغان تعلقات کےضمن میں افغانستان کے اندرونی امن معاہدے اور پاک افغانستان سرحد کو تجارت کے لیے کھولنے کے لیے پیش رفت سے معلوم ہوتا ہے کہ تعلقات میں ممکنہ بہتری آرہی ہے۔ تاہم، اب بھی افغانستان کے بارے میں پاکستان کی خارجہ پالیسی کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔
افغانستان میں 1979سے جو کچھ ہورہا ہے ان حالات میں پاکستان کے لیے عملی طورپر ناممکن تھا کہ وہ اپنی مغربی سرحد پر سیکیورٹی کی صورت حال سے لاتعلق رہے۔ وہاں پاکستان نے امریکا کا مضبوط اتحادی ہونے کے ساتھ چین کےسے قریبی تعلقات برقرار رکھے۔ حال ہی میں ہم امریکا اور چین کے درمیان مشکل انتخاب کرنے پر مجبور ہوئے ہیں، کیوں کہ بین الاقوامی نظام میں صلاحیتوں کی تقسیم نے چین کو امریکا کے عالمی اسٹریٹجک حریف کے طور پر لا کھڑا کیا ہے۔ اس کا ثبوت امریکاکی جانب سے چین، پاکستان اقتصادی راہ داری (سی پیک) پر کڑی تنقید کی صورت میں مل جاتاہے۔ افغانستان کے بارے میں پاکستان کا یہ موقف ہے کہ اس مسئلے کا حل ہماری علاقائی سیاست کی کنجی ہے ۔
ابتدائی دو سالوں میں، پاکستان تحریک انصاف کی حکومت، امریکا کے ساتھ بہتر تعلقات قایم کی کوشش کر رہی تھی، بلکہ حکومت کے ایک بڑے مشیر نے سی پیک کی تعمیر میں وقفے اور پچھلی حکومت کے سی پیک کےسودوں پر از سرِ نو بات چیت کا اعادہ بھی کیا تھا۔ اسی دوران ٹرمپ انتظامیہ نے پاکستان پر سخت تنقید کی اور امریکا نے پاکستان پر الزام عاید کیا کہ وہ چین سے لیے گئے قرضوں کی ادائیگی کے لیے آئی ایم ایف سے لیے گئے قرض کی رقم استعمال کررہا ہے۔ اس سے بدمزگی پیدا ہوئی ۔پاکستان کو امریکا کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کابہترین موقع تب ملاجب ٹرمپ انتظامیہ نے افغانستان میں امن مذاکرات کا آغاز کیا، جس نے پاکستان کو ایک اہم کھلاڑی کی پوزیشن پر لا کھڑا کیا۔
تاہم پاکستان اور امریکا کے اسٹریٹجک تعلقات بہتر ہونے کے باوجود، پاکستان میں چینی سرمایہ کاری پر امریکی تنقید میں کمی نہیں آئی۔ سابق امریکی سفیر ایلس ویلز نے متعدد مواقع پر پاکستان پر قرضوں کے بوجھ اور چین پر انحصار بڑھانے پر سی پیک کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ افغانستان کے مسئلے کے پرامن حل کے لیے نہایت اہم اوربہت مثبت کردار اداکرنے کے باوجود پاکستان کو کوئی ٹھوس اقتصادی فوایدحاصل نہیں ہوئے۔بلکہ چار برسوں سے تا دمِ تحریر پاکستان فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی گرے لسٹ سے نکلنے کی بھرپور کوشش کررہا ہے۔
عالمی منظر نامے پر نظر ڈالیں تو اس وقت دنیابہت تیزی سے نئے بلاکس میں تقسیم ہو رہی ہے۔اقتصادی اور عالمی بالا دستی کی رسہ کشی نے چین اور امریکاکو ایک دوسرے کے مقابل لا کھڑا کیا ہے۔آج کا چین سرد جنگ کے دنوں والے روس جیسا نہیں بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ موجودہ روس ماضی کے سوویت یونین جیسا نہیں رہا۔ دنیا میں طاقت کے محور تبدیل ہو چکے ہیں۔ دہشت گردی، امریکی جنگ اور عدم تحفظ نے اس خطے کے ممالک کو علاقائی سطح پر اتحاد بنانے کی جانب راغب کیا ہے۔ سابق امریکی صدر ٹرمپ نے مشرقِ وسطیٰ، افغانستان اور بھارت سے متعلق جو اقدامات اٹھائے، اُنہوںنے ہمیں بھی اپنی خارجہ پالیسی بدلنے پر مجبور کیا۔
یہ تبدیلیاں مثبت تھیں اور کئی اعتبار سے منفی بھی۔ مُلکی معیشت جس تیزی سے نیچے آئی، اُس نے بھی پالیسیز بدلنے میں اہم کردار ادا کیا، اِس ضمن میں اقتصادی پہیّہ چلانے اوردیوالیہ ہونےسے بچنےکے لیے عرب ممالک اور آئی ایم ایف سے قرضوں کی صُورت میں تعاون کا حصول اوّلین حیثیت اختیار کر گیا۔ صدرجو بائیڈن کے اقتدار میں آنے کے بعد خارجہ پالیسی کے ضمن میں کچھ نئے چیلنجز سامنے آئےہیں۔خاص طور پر اُن کے تین اقدامات کا پاکستان سے بہ راہِ راست تعلق ہے۔ افغانستان سے امریکی فوج کی واپسی، مشرقِ وسطیٰ میں عرب ممالک سے تعلقات میں سرد مہری اور ایران سے مذاکرات کا آغاز۔
موجودہ حالات میں خارجہ امورمیں اگر بعض دروازے ہم پر بند کیے جارہے ہیں توبعض نئی راہیں ہمارے لیے کھلتی ہوئی بھی نظر آرہی ہیں ۔بس ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم خارجہ امور کے ضمن میں دو بنیادی باتیں یاد رکھیں۔اوّل، ریاستوں کے درمیان تعلقات کی بنیادیں زمینی حقایق پر رکھی جاتی ہیں نہ کہ جذبات پر۔ دوم، عالمی سیاست میں کوئی ملک سدا کسی ملک کا دوست نہیں رہتا، بلکہ ریاستوں کے مفادات تعلقات کی سطح کا فیصلہ کرتے ہیں۔