• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

 کام یابی ،ناکامی ،روشن مستقبل ،اُمید ونا اُمیدی کے حصار میں پاکستان نے 75 برس گزرا دیں ۔ عوام کا سفر بھی یقین ،بے یقینی کے چکر میں آگے بڑھتا رہا ۔کہیں پر ترقی کے جھنڈے گاڑے تو کہیں مایوسی کا سامناکرنا پڑا ۔کچھ نے اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے زندگی کے مختلف شعبوں میں قدم رکھا۔75 سالوں میں کی گئی غلطیوں کا مجموعہ آج تجربے کی شکل میں ہمارے پاس موجود ہے،جو ہمیں صحیح راہ پر چلنے کی جانب رہنمائی کرتا ہے۔ 

آگے بڑھنے کے لیے ضروری ہے کہ ماضی میں سرزد کی گئی غلطیوں سے سبق سیکھیںاور ان کو نہ دہرائیں۔پاکستان کی ڈائمنڈ جوبلی کے موقعے پر فقط اتنا ضرور سوچیں کہ ہم سے ایسی کیا غلطیاں ہوئیں ،جن کی وجہ سے ہم ترقی کی دوڑ میں شامل نہیں ہو سکے ۔اگر ہم نے غلطیاں نہ کی ہوتیں تو آج پاکستان کی صورت ِحال مختلف ہوتی؟ اس بارے میں آپ بھی غور کریں ۔ہم نےیہ سوال زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی شخصیات سے کیے، انہوں نے جو جواب دئیے وہ نذر قارئین ہیں۔

نسرین جلیل

سابق سینیٹر،ڈپٹی کنوینر ، نسرین جلیل نے پاکستان کی ڈائمنڈ جوبلی کے موقع پر اپنے خیالات کا اظہار کچھ یوں کیا کہ ،اگر ہم یہ کہیں کہ ان 75 سالوں میں ہمارے ملک میں کوئی اچھا کام نہیں ہوا تو یہ غلط ہو گا ۔1960ء مارشل لاء کا دور تھا لیکن انڈسٹریلزیشن ہوئی ،جس کی وجہ سے ہم ترقی کی راہ میں بہت آگے چلے گئے ، تھرڈ ورلڈ ممالک کے لوگوں نے ہم سے آکر سیکھا ۔اس کے علاوہ چھوٹی ریاستوں کے پائلٹس نےہمارے ملک سے ٹریننگ حاصل کی ۔غرض یہ کہ ہم ترقی کی راہ میں بہت تیزی سے گامزن تھے لیکن جب نیشنلیزیشن ہوئی تو انڈسٹریلائزیشن کو دھچکا لگا اور ترقی کا پہیہ رک گیا، جس کے نتیجے میں پاکستان کی معیشت کمزور ہو گئی اور آگے نہیں بڑھ سکی۔

ہم نے اپنا آدھے سے زیادہ وقت تو مارشل لا ء کا جواز پیش کرنے ،doctrine of necessityکو استعمال کرنے میں اور پالیسوں کو صحیح کرنے میں گزار دیا ۔اگر ہم صحیح پالیساں بنا کر ان پر عمل در آمد کرتے تو آج ترقی کی راہ میں بہت آگے ہوتے۔اس کے ساتھ ساتھ صحیح وقت پر صحیح فیصلے نہیں کیے گئے ۔اگر یہ سب غلطیاں نہیں سرزد ہوتیں تو آج صورت حال مختلف ہوتی ،مگر افسوس سب لوگ اپنا ہی فائدہ سوچنے میں لگے رہے کسی نے ملک کی پروا ہی نہیں کی اور آج اس لاپرواہی نے ملک کو تباہی و بر بادی کے دہانی پر لا کھڑ اکیا۔ اگر عدلیہ صحیح رُخ پر ہوتی تو آج لوگ اتنے دلیری سےکام نہیں کررہے ہوتے ،کوئی بھی فیصلہ کرتے وقت دل میں کہیں تو خوف ِخدا ہوتا ۔ہمارے ملک میں ہر چیز کا دوہرا نظام ہے۔ 

چاہیے وہ تعلیم ہو یاانصاف۔ آج بھی ملک میں جاگیردارانہ نظام موجودہے ،غر ض کوئی ایک شعبہ خراب نہیں ہے ۔بلکہ ہر طر ح سے ملک کی صورت ِحال بگڑی ہوئی ہے ۔نہ ہم تعلیم پر خرچ کرتے اور نہ ہی صحت پر توجہ دیتے ہیں۔اس وقت جو ملک کا حال ہے اس کا الزام ہم کسی ایک کو نہیں دے سکتے ہم سب اس کے ذمہ دار ہیں اور اس کو صحیح کرنے کےلیے بھی مل کر کوشش کرنے ہو گی ،مگر افسوس ابھی تک ہمیں وہ سرا ملا ہی نہیں ہے ،جس سے ہم ملک کی صور ت ِحال کو بہتر کرنے کی شروعات کرسکیں ۔او ر یہ سب کچھ ہمارے غلطیوں اورکوتاہیوں کا امتزاج ہے۔ 

اس سے زیادہ حیران کن بات یہ ہے کہ ان غلطیوں کے ازالے کے لیے کوئی اقدامات بھی نہیں کیے گئے بلکہ ابھی بھی غلطی پر غلطی کیے جارہے ہیں اور ملک کا حال مزید خراب ہوتا جارہا ہے ۔75 سال ہو گئے ہیں ملک کو آزاد ہوئے اب تو اس قدر کرلیں ،یہی سوچ لیں کہ کتنی قربانیوں کے بعد ہم نے اسےحاصل کیا تھا اور ہم نے اس کا کیا حال کردیا ۔جب کہ ہمارا ملک متعدد نعمتوں سے مالامال ہے۔ اگر ہم انفرادی طور پر صحیح ہو جائیں تو ملک کی صورت ِحال بھی بہتر ہو جائے گی۔ ہمیں اپنے آپ کو اس ملک کے قابل بنانا ہے۔

مصطفیٰ کمال

مصطفٰی کمال ،پی ایس پی کےچیئر مین ہیں۔انہوں نے اپنے خیالات کا اظہار یوں کیا کہ ،آج پاکستان کا جو حال ہےاس کی وجہ صرف یہ ہے کہ جن اصولوں پر پاکستان حاصل کیا تھا وہ ہم فراموش کرچکے ہیں ۔قائد اعظم جس طر ح ملک کو چلانا چاہتے تھے ہم نے اُس طر ح نہیں چلایا ۔ یہ وطن ہمارے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک تحفہ تھا ،مگر ہم نے اس کی قدر نہیں کی ۔اسی لیے آج ہم تباہی سے دوچار ہیں ۔کسی ایک شعبے کوملک کی بر بادی کا ذمہ دار ٹھہرانا غلط ہے ، ہم سب اس تباہی وبربادی کےذمہ دار ہیں ،جس ملک میں احتساب اور سزا نہیں ہوگی ،اس کا یہی حال ہوگا ۔پاکستانی عوام تو آج بھی آزاد نہیں ہے 1947 ء سے پہلے ہم انگریزوں کی غلامی میں تھےاور آج جاگیرداروں اور وڈیروں کی غلامی میں ہیں۔

بس آقائو ں کے چہرے بدلے ہیں۔اس بات پر تو کوئی دورائے ہی نہیں کہ اگر ہم نےپاکستان کے ساتھ انصاف کیا ہوتا ،اس کا خیال رکھا ہو تا ،غلط فیصلے نہ کیے ہوتے ،غلطیا ں نہ کی ہوتیں تو آج پاکستان ترقی یا فتہ ممالک کی فہرست میں شامل ہوتا ۔ہمارے ملک میں متعدد ہنر مند لوگ ہیں لیکن کبھی ہم نے ان کی قدر ہی نہیں کی ۔ سب سے زیادہ دکھ کی بات یہ ہے کہ ہم نے اب تک اپنی غلطیوں سے کوئی سبق نہیں سیکھا ۔بلکہ انہیں دُہرائے جا رہے ہیں۔پاکستان حاصل کرنے کا اصل مقصدکیا تھا وہ تو ہم بھول گئے ہیں۔

احمد شاہ

آرٹس کونسل آف پاکستان کے صدر، احمد شاہ کا پاکستان کی صورت ِحال کے بارے میں کہنا ہے کہ ان 75 سالوں میں پاکستان نے بہت ترقی کی ہے ،انڈسٹری لائزیشن ہوئی ، ڈیمز بنائے گئے، ٹیکس ٹائل انڈسٹری میں بہت کا م ہوا اور بھی دیگر کام بھی ہوئے لیکن ان میں مستقل مزاجی سے تو جہ نہیں دی گئی اسی لیے وہ سب زبوحالی کا شکار ہوگئے ۔ حکمران بدلتے گئے ،مارشل لاء لگتے رہے ، جمہوریت کو صحیح طرح پروان چڑھنے نہیں دیا ،پالیسیاں صحیح نہیں بنائی گئیں ۔1973ء کا آئین ایسا تھا ،جس میں تما م سیاسی پارٹیاں شامل تھیں ،مگر وقت کے ساتھ ساتھ اس میں بھی ترمیم ہوتی گئی ۔ جنگ کے نتیجے میں پاکستان کے دو ٹکڑے ہوگئے۔

ان تمام وجوہات کی وجہ سے جو پاکستان کا اصل نظریہ تھا وہ کہیں کھو گیا ۔قائد اعظم نے اس ملک کے لیے جو سوچا تھا ،جو وہ چاہتے تھے ویسا تو کچھ بھی نہیں ہوا ۔آج ملک کی حالت بالکل اس کے برعکس ہے ۔ان کا تو یہ پیغام تھا کہ اس ملک میں تما م لوگوں کو برابرکے حقوق حاصل ہوں گے ،رنگ ،نسل،مذہب اور زبان کی بنیاد پر کوئی تفریق نہیں کی جائے گی ۔لیکن افسوس ہم نے ان میں سے کسی ایک بات پر بھی عمل نہیں کیا ۔اور شروعات میں مملکت کا جس طر ح مضبوط نظام قائم ہو ناچاہیے تھا وہ نہیں ہو سکا ۔ اسی لیے آج ملک کا یہ حال ہو گیا ہے ۔1960 ء کے بعد سے ہماری معیشت کمزور ہوتی گئی اور ملک تباہی کی طرف جاتا رہا۔

ہر چیز کا معیارخراب ہوتا گیا ۔آج ایسا لگتا ہے کہ اسلامی جمہوری پاکستان کا اصل مقصد کہیں گُم ہو گیا ہے ۔ضیا الحق کے دور میں میڈیا کے سارے ادارے بند کردئیے گئے ،سینما پر پابندی لگا دی گئی ،تھیڑ بند ہو گئے ،ٹیکس 100 فی صد لگا دیا ۔حالاں کہ اُس وقت ہماری فلم انڈسٹری بہت عروج پر تھی،بے شمار اسٹوڈیوز تھے لیکن ان پابندیوں کے سبب تباہ وبر باد ہو گئی ۔اور آج تک پوری طرح فلم انڈسٹری اپنے پیروں پر نہیں کھڑی ہوسکی۔ میرے خیال میں یہ ہمارے غلطیاں نہیں ہے بلکہ جان بوجھ کر اس کو بر باد کیا گیا ہے۔غلطی تو وہ ہوتی ہے کہ ہم نے کچھ اچھا کرنے کا سوچا لیکن کسی بھول کی بناءپر فیصلے میں غلطی ہو گئی لیکن یہاں تو کسی نے کچھ اچھا کرنےکا سوچا ہی نہیں جو حکمران آئے ملک کو چلانے کے لیے ان کا نظر یہ ہی صحیح نہیں تھا ،قائد اعظم اور ان کے نظر یے میں زمین آسمان کا فرق تھا۔

زیادہ تر نے اپنی سیاسی پارٹی کے مفاد کے لیے کام کیا ۔اگر سب نے ملک کے فائدے کے لیے سوچا ہوتا تو آج اس کی صورت ِحال اتنی بگڑی ہوئی نہ ہوتی بلکہ پاکستان ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل ہوتا ۔پاکستان میں بے شمار وسائل ہیں لیکن ہم نے کبھی ان کی قدر نہیں کی اور نہ ہی ان سے فائدہ اُٹھانے کی کوشش کی ۔پاکستان معاشی اعتبار سے بہت کمزور ہو چکا ہے ۔ہماری غلطیوں اور غلط فیصلوں نے ملک کو اس نہج پر پہنچایا دیا ہے کہ ہم کوئی بھی فیصلہ انڈپینڈٹ طور پر نہیں لے سکتے ۔ملک بر ی طر ح قر ضوں میں ڈوبا ہوا ہے ۔اب ہم مفلوج ،مجبور اور غلام قوم بن گئے ہیں ۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ہم نےکبھی اپنی غلطیوں پر نہ غور کیا اور نہ ان کو سدھارنے کے بارے میں سوچا۔ اسی لیے آج یہ ملک آکسیجن کے سہارے چل رہا ہے ۔

حنا خواجہ بیات

حنا خواجہ بیات ، معروف اینکراور سنیئر اداکارہ ہیں۔انہوں نے پاکستان کی 75 ویں جشن آزادی کے موقعے پر میڈ یا کے کردار کے حوالے سے بتا یا کہ کسی بھی معاشرے کی عکاسی میں میڈیا بہت اہم کردار ادا کرتا ہے ۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ لوگوں کو اصلاح کی طرف بھی لے کر جاتا ہے ۔ہم میڈیا کے ذریعے عوام کو تعلیم ،شعور اور آگاہی بہت آسانی سے فراہم کرسکتے ہیں ،مگر افسوس میڈیا نے اس طرح سے کردار نہیں بنھایا ،جوقوم کو ترقی کی طرف لے کر جاتا ۔ہماری سب سے کم تو جہ تعلیم پر رہی ،جس کا خمیازہ ہم بھگت رہے ہیں اور آگے بھی بھگتنا پڑے گا، اس کے ذمہ دار الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا دونوں ہیں ۔ بچّوں کی تعلیم کے لیے نہ تو اب کوئی پروگرامنگ کی جاتی اور نہ معیاری کتب ہیں ،اس حصہ کو ہم نے بالکل خالی چھوڑ دیا ہے ،جس کے سبب نئی نسل کو اس طر ح سےمعیاری تعلیم وتر بیت نہیں میسر ہوئی جوان سے پہلی والی نسلوں کو میسر تھی۔

پاکستان ٹیلی ویژ ن کے با نی ،اسلم اظہر نے ایک ایسی چیز کی بنیاد رکھی تھی جہاں پر بچّوں کو لازمی فوکس کیا جاتا تھا۔ اس وقت ایسے بہت سے پروگرام ہوتے تھے جن کے ذریعے بچے بہت کچھ سیکھتے تھے ۔چینل کا آغاز ایک خا ص وقت پر بصیرت سے ہوتا تھا ۔اختتام فرمان الہی اور قومی ترانے پر ہوتا تھا ۔ بچّوں کے پروگرامنگ میں شعیب ہاشمی نے اہم کردار ادا کیا ۔یہ سب پروگرامز بچّوں کی گرومنگ کا حصہ تھے اور اب اس طر ح کے پروگرامز نہیں ہوتے۔

اگر ہم اس طرف توجہ دیتے تو آج ملک کی صورت ِحال مختلف ہوتی، ہمارے نوجوان نسل جو اس ملک کا سر مایہ ہے جو ہر شعبے میں بہت آگے ہوتی ہے۔ بہت ساری پالیسیاں اس طر ح سے بننی چاہیے تھیں جو کہ نہیں بنیں، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج کی نسل اپنی شناخت ،زبان اور تاریخ سے صحیح طر ح واقف ہی نہیں ہے اور پاکستان کی اصل بنیاد اور تاریخ کے بارے میں کچھ نہیں جانتی،ان کو یہ پتا ہی نہیں کہ ہم نے یہ ملک کتنی قربانیوں کے بعد حاصل کیا ہے۔

اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ہم نے کبھی اپنی ان غلطیوں کا احسا س تک نہیں کیا ،اس بارے میں کبھی سوچا ہی نہیں ہم آنے والی نسل کو پاکستان کی اصل تاریخ سے محروم کررہے ہیں ۔شاز ونادر ہی کوئی ایسا کونٹینٹ بنتا ہےجو ہمارے تاریخ پر مبنی ہو۔ جب کہ میڈیا آگاہی اور شعورفراہم کرنےکا بہت بڑا ڈریعہ ہے۔حالاں کہ پوری دنیا نے ترقی کی راہ پر چلنے کے لیے اپنی فلم انڈسٹری کو بھر پور طریقے سےاستعمال کیا ہے ۔اس کے بر عکس پاکستان نے اپنی فلم انڈسٹری سےکوئی فائدہ نہیںاُٹھا یا بلکہ اس کو مکمل طور پر نظر انداز کردیا۔ 

حقیقتاً یہ بہت اہم مسئلہ ہے ،مگر اس پر کوئی غور نہیں کررہا، ابھی تک ہم یہ سمجھ ہی نہیں سکے کہ میڈیا کتنا پاور فل ٹول ہے ۔علاوہ ازیں پاکستان کا سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میںکسی بھی چیز کا احتساب نہیں ہے، یہاں لاقانونیت ہے ۔اسی لیے آج 75 سال بعدبھی پاکستان ہر چیز میں پیچھے ہیں ۔جب تک چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی غلطی یا قانون شکنی کی سزا نہیں ہو گی ،اُس وقت تک ہم پاکستان کو بہتری کی راہ پر نہیںلے جاسکتے۔