پاکستان دنیا کا وہ خوش قسمت مُلک ہے جسے اللہ تعالی نے متنوّع جغرافیے اور انواع و اقسام کی آب و ہوا سے نوازا ہے۔ پاکستان میں ریگستان،سرسبز و شاداب علاقے، میدان، پہاڑ، جنگلات، سرد و گرم علاقے، خوب صورت جھیلیں، جزائر سمیت بہت کچھ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 2012ء میں پاکستان نے اپنی جانب کم و بیش ایک ملین غیر ملکی سیّاحوں کو مائل کیا۔ گرچہ امن و امان کے مسئلے کے وجہ سے پاکستان کی سیّاحت بہت متاثر ہوئی لیکن اب حالات بڑی حد تک معمول پر آچُکے ہیں اور اچھی خاصی تعداد میں غیر مُلکی سیّاحوں نے پاکستان کا رُخ کرنا شروع کر دیا ہے۔
پاکستان میں سیّاحت کو سب سے زیادہ فروغ 1970ء کی دہائی میں ملا کہ جب مُلک تیزی سے ترقّی کر رہا تھا اور دیگر صنعتوں کی طرح سیّاحت بھی اپنے عروج پر تھی۔ اُس وقت پاکستان کے سب سے مقبول سیّاحتی مقامات میں درّہ خیبر، پشاور، کراچی، لاہور، سوات اور راول پنڈی جیسے علاقے شامل تھے۔ وقت کے ساتھ ساتھ مُلک کے دیگر خوب صورت علاقے بھی دُنیا بھر میں متعارف ہوئے اور سیّاحت کو تیزی سے فروغ ملا۔
یہی وجہ ہے کہ آج مُلک میں سیکڑوں سیّاحتی مقامات کی سیر کی جاتی ہے بالخصوص پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں سیّاحت اپنے عروج پر ہے۔ شمالی علاقوں میں آزاد کشمیر، گلگت بلتستان، خیبر پختون خوا اور شمال مغربی پنجاب شامل ہیں۔ پاکستان میں بلا شبہ وہ تمام عناصر موجود ہیں جو کسی غیر ملکی سیاح کے لیے کشش کا باعث بن سکتے ہیں۔ ایک دو نہیں بلکہ دُنیا کے آٹھ ہزار میٹر بلند کل 14پہاڑوں میں سے پانچ پاکستان میں شان سے ایستادہ ہیں۔دنیا کے تین بلند ترین پہاڑی سلسلے ہمالیہ، ہندو کش اور قراقرم پاکستان میں ملتے ہیں۔
دنیا کی دوسری بڑی بلند ترین چوٹی کے ٹو یہیں پائی جاتی ہے۔ قدرتی حسن کے شیدائیوں کے لیے جھیل سیف الملوک، دیو سائی، شیندور، کالام، سکردو، شنگریلا، کیلاش، سوات، مالم جبّہ اور ایسی کتنی ہی اور جگہیں کشش سے بھر پور ہیں۔صحرائی طلسم سے لبریز چولستان اور تھر قدرت نے ہمیں ہی بخشے ہیں۔ انسانی عقل کو دنگ کر دینے والے قلعہ دراوڑ اور رانی کوٹ یہیں ہیں۔پانچ ہزار سال قدیم، ہڑپّہ، موہن جودڑو اور مہرگڑھ کے آثار یہیں ہیں۔ سکندر یونانی کے ساتھیوں کی اولاد ہونے کا دعویٰ کرنے والے نیلگوں اور سبز مائل آنکھوں والے وادیِ کیلاش کے خوبصورت مہمان نواز لوگ یہیں ملتے ہیں۔پاکستان کے شمالی حصے میں قدرت کے بے شمار نظارے موجود ہیں، اس کے ساتھ ساتھ مختلف قلعے، تاریخی مقامات، آثارقدیمہ، وادیاں، دریا، ندیاں، جنگلات، جھیلیں اور بہت کچھ موجود ہے۔
سکردو میں دیوسائی کا خوب صورت ٹھنڈا صحرا قدرت کی بے نظیر کاری گری کا نمونہ ہے۔ پاکستان کے جنوبی علاقہ جات بھی سیّاحوں کے لیے کشش کا باعث ہیں۔ بلوچستان کے خوب صورت خشک پہاڑ، زیارت، کوئٹہ اور گوادر اپنی مثال آپ ہیں۔ سندھ کا ساحل، کراچی، مکلی کا قبرستان، گورکھ ہل اسٹیشن دادو، صحرائے تھر، موئن جو دڑو اور بہت سے شہر اور دیہات اپنی خوب صورتی اور تاریخی پس منظر کی وجہ سے سیّاحت میں خاص مقام رکھتے ہیں۔ جنوبی پنجاب کا تاریخی شہر ملتان، بہاول پور کا صحرائے چولستان اور ضلع ڈیرہ غازی خان کا خوب صورت علاقہ فورٹ منرو بھی سیّاحتی اہمیت کے حامل ہیں۔
یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے بیش بہا قدرتی حُسن سے نوازا ہے۔ گرچہ مقامی و غیر ملکی سیّاحوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے سرکاری سطح پر خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے گئے لیکن اس کے باوجود مُلک میں سیّاحت کی ترقی اور ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنے کی گنجائش موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں مملکتِ خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان کی شکل میں ایک ایسا وطنِ عزیز عطا کیا ہے جس کا ہر گوشہ قدرت کا حسین شاہ کار اور خوب صورتی کا نمونہ ہے۔ پاکستان کے دریا، فلک بوس پہاڑ، صحرا، میدان، سرسبزوشاداب علاقے، صحت افزا پہاڑی مقامات، زرخیز زمینیں، معدنیات، دنیا کی بلند ترین پہاڑی چوٹیاں اور دل فریب و خوب صورت فطری مناظر نہ صرف اندرون ملک بلکہ پوری دنیا سے سیّاحوں کو متوجہ کرتے ہیں۔
پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں گلگت بلتستان، سکردو، ہُنزہ، چلاس اور چترال، آزاد کشمیر میں مظفرآباد، راولاکوٹ، نیلم ویلی، بنجوسہ جھیل اور اسی طرح ملک کے دیگر حصّوں میں خوب صورت سیّاحتی مقامات اپنی دل کشی کے باعث سیّاحوں کی توجہ کا مرکز ہیں۔ مری پنجاب کا ایک خوب صورت گرمائی سیّاحتی مقام ہے اور بڑی تعداد میں سیّاح ملک بھر سے یہاں آتے ہیں۔ علاوہ ازیں صوبہ خیبر پختون خوا میں واقع ایوبیہ اور نتھیا گلی بھی سیّاحوں کے لیے انتہائی کشش کا باعث ہیں اور موسمِ گرما میں یہاں کی رونقیں اپنے نقطۂ عروج پر ہوتی ہیں۔
سیّاحتی اعتبار چترال اور گلگت کے مابین واقع شندور کا علاقہ اپنی الگ پہچان رکھتا ہے، جہاں ہر سال شندور میلہ لگتا ہے اور اس میں بڑی تعداد میں لوگ شریک ہوتے ہیں۔ پاکستان میں مقیم غیر ملکی بھی ذوق و شوق کے ساتھ شندور میلہ میں شریک ہوتے ہیں۔ جھیل سیف الملوک بھی ایک ایسی ہی خوب صورت سیر گاہ ہے جس کا قدرتی حسن دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ صوبہ خیبرپختون خوا میں قصّہ خوانی بازار، قلعہ بالا حصار اور دیگر تاریخی مقامات سیّاحوں کی دل چسپی کا مرکز ہیں۔
پنجاب میں چھانگا مانگا کے جنگلات، شاہی قلعہ، بادشاہی مسجد، مینار پاکستان، شالامار باغ، چڑیا گھر لاہور، میوزیم ملتان اور دیگر شہروں میں قدیمی ثقافتی ورثے اور سندھ میں سندھی ثقافت کی مشہور تاریخی عمارات، بلوچستان میں زیارت، گوادر بندرگاہ اور دوسرے مقامات دُنیا بھر میں مشہور ہیں۔ اس کے علاوہ مذہبی مقامات پر بھی دُنیا بھر سے سیّاح آتے اور اپنی مذہبی رسومات ادا کرتے ہیں جن میں ننکانہ صاحب اور حسن ابدال میں سِکّھوں کے گوردوارے، کٹاس راج میں ہندوؤں کے متبرک مقامات، گندھارا تہذیب کے مذہبی مقامات اور بودھ مت کے ماننے والوں کے مذہبی مقامات شامل ہیں۔
اگر پاکستان میں سیّاحت کے فروغ کے لیے قیام پاکستان سے اب تک کی جانے والی کاوشوں پر نظر دوڑائی جائے تو پتا چلتا ہے کہ ستمبر 1949ء میں پاکستان نے ورلڈ ٹور ازم آرگنائزیشن کی رکنیت حاصل کی۔ ابتدا میں پاکستان ریلویز کو شعبہ سیّاحت کی ذمّے داری سونپی گئی۔ 1956ء میں یہ ذمّے داری کمیونیکیشنز اینڈ ٹرانسپورٹ ڈویژن کے سُپرد کر دی گئی۔ جون 1960ء میں اس ادارے کے لیے بیورو آف ٹور ازم کے نام کا انتخاب کیا گیا۔ 1964ء میں یہ امور سول ایوی ایشن اتھارٹی کو سونپ دیے گئے جب کہ مارچ 1970ء میں پاکستان ٹور ازم اینڈ ڈیولمپنٹ کارپوریشن کا قیام عمل میں آیا۔ ستمبر 2004ء میں مذکورہ کارپویشن کو وزارت سیّاحت کی حیثیت دے دی گئی۔
اس وزارت کا کام صوبائی و وفاقی حکومت اور نجی سیکٹر کی سرگرمیوں کے علاوہ پالیسی سازی اور مقامی اور غیر ملکی سیاحت کا فروغ اور تشہیر تھا۔ تاہم، 2011ء میں 18ویں آئینی ترمیم کے بعد وزارتِ سیّاحت کو ختم کر دیا گیا اور ہر صوبائی حکومت کو اپنے صوبے میں سیّاحتی امور کی نگرانی کی ذمّے داری سونپ دی گئی۔ اس وقت پاکستان ٹور ازم ڈیولپمنٹ کارپوریشن چار حصّوں پر مشتمل ہے، جن میں ٹور ازم ڈیولپمنٹ کارپویشن آف پنجاب، سندھ ٹور ازم ڈیولپمنٹ کارپوریشن اینڈ کلچر، ٹورازم اینڈ انٹیکس ڈپارٹمنٹ، ٹور ازم کارپوریشن خیبر پختون خوا اور آزاد جموں کشمیر ٹور ازم اینڈ آرکیا لوجی ڈیپارٹمنٹ شامل ہیں۔
1972ء میں پاکستان اس خطّے کا واحد مُلک تھا جس نے سیّاحت کو ترقّی کا ایک پہیہ تسلیم کیا۔ اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بُھٹّو نے پیٹرو ڈالر حاصل کرنے والی نئی خلیجی ریاستوں کو پاکستان کی طرف متوجّہ کرنے کے لیے ایوی ایشن، ثقافت اور سیّاحت کو یک جا کیا۔ اس ضمن میں انہوں نے سب سے پہلے ایئر مارشل نور خان کو پورے اختیارات کے ساتھ پی آئی اے کا چیئرمین تعیّنات کیا۔ چٹاگانگ میں چکما ہل قبائل کے سربراہ، راجا تری دیو کو، جنہوں نے سقوطِ ڈھاکا کے بعد پاکستان میں رہنے کا فیصلہ کیا تھا، اقلیتی امور اور سیّاحت کی وزارت کا قلم دان سونپا گیا۔
دریں اثنا، پارسی بزنس مین اور مصنّف اردشِیر کاوس جی کو پاکستان ٹور ازم ڈیولپمنٹ کارپوریشن (پی ٹی ڈی سی) کا منیجنگ ڈائریکٹر بنایا گیا۔ مزید برآں، سیّاحت کو ترقّی دینے کے لیے بیگم وقار النّساء کو پی ٹی ڈی سی کی چیئرپرسن کے منصب پر فائز کیا گیا۔ واضح رہے کہ بیگم وقار النّساء پاکستان کے ساتویں وزیر اعظم سر فیروز خان نون کی زوجہ تھیں اور انہوں نے گوادر کو پاکستان میں شامل کرنے کے لیے اہم کردار ادا کیا تھا۔ 1989ء میں فرانسیسی کمپنی کلب میڈیٹیرین نے گوادر میں ساحلِ مکران کے ساتھ تین تفریح گاہیں تعمیر کرنے کی پیش کش کی اور اس کے نتیجے میں دُنیا بھر سے ہر سال لاکھوں سیّاحوں کے پاکستانی ساحلوں پر آنے کی امید تھی لیکن اس وقت کے بلوچستان کے وزیر اعلیٰ اکبر بگٹی اس منصوبے کی راہ میں رُکاوٹ بن گئے اور یوں بلوچستان میں سیّاحت کو پروان چڑھانے کا نادرموقع ضائع ہو گیا۔
ایئر مارشل نور خان نے پی آئی اے کی دوبارہ اپنے پائوں پر کھڑا کرنے اور پاکستان میں سیّاحت کو فروغ دینے کے لیے جرأت مندانہ اقدامات کیے۔ وہ کراچی، لاہور، راول پنڈی اور پشاور میں ہوٹل انٹر کانٹی نینٹل چینز کے ماسٹر مائنڈ تھے۔ ان ہی کے دَور میں پی آئی اے نے سیّاحوں کے قیام و طعام کے لیے اپنے ہوٹلز حاصل کیے۔ اس حوالے سے مڈوے ہائوس کراچی ایئرپورٹ، سمبارا اِن لاڑکانہ، انٹر پاک اِن سکھر، سیدو شریف میں والیٔ سوات کا محل، گلگت میں راکا پوشی ویو ہوٹل قابلِ ذکر ہیں۔ شوبز کی دُنیا کی نام وَر شخصیت ضیا محیی الدین کو پی آئی اے کی پرفارمنگ آرٹس اکیڈمی کا سربراہ تعیّنات کیا گیا۔ مذکورہ اکیڈمی میں ناہید صدیقی، فیض بلوچ اور خمیسو خان جیسے حیران کن آرٹسٹ شامل تھے۔
ان فن کاروں نے دُنیا بھر میں اپنے فن سے بین الاقوامی حاضرین کے دل موہ لیے اور پاکستان کی خوب صورت ثقافت کو متعارف کروایا۔ پی آئی اے کی جانب سے دُنیا کے مختلف دارالحکومتوں میں پاکستان کو حیرت انگیز سیّاحتی مقام کے طور پر پیش کرنے کے لیے پاکستان فوڈ فیسٹیولز کا انعقاد کیا گیا۔ 1970ء کی دہائی میں پاکستان سیّاحت کے شعبے میں خطے کے دیگر ممالک سے کہیں آگے تھا جب کہ بھارت، چین، سنگاپور اور تھائی لینڈ نے 1978ء کے آس پاس سیّاحت کو فروغ دینا شروع کیا۔ ورلڈ ٹور آرگنائزیشن کی پہلی میٹنگ بھی 1975ء میں منعقد ہوئی اور میڈرڈ میں منعقدہ اس میٹنگ کی سربراہی اس وقت کے ٹور ازم کے سیکرٹری روئیداد خان نے کی۔
سیّاحت کے فروغ کے لیے مقامی ٹیورسٹ گائیڈز کا ہونا، سیکیورٹی، صفائی کا خاص انتظام، جگہ جگہ ریسٹ ہاؤس، ہوٹلز ہونا اور پھر ان کے چارجز کا بھی چیک اینڈ بیلینس رکھنا انتہائی ضروری ہے تاکہ سیاح مشکلات کا شکار نہ ہوں اور یہ چیک اینڈ بیلنس کھانے پینے کے معاملے میں بھی ہونا چاہیے۔ مضر صحت کھانا اور بے جا ریٹس سیاحوں کی جیبوں پر بھاری پڑتے ہیں۔ دوسری جانب ابھی تاریخ و آثارِ قدیمہ کو محفوظ کرنے کے لیے بہت سے اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے، جگہ جگہ علامتی بورڈز کا ہونا بھی ایک ضرورت ہے، اس شعبے کو ترقی دینے سے جہاں ملکی و علاقائی معشیت کو ترقی دی جا سکتی ہے وہاں پر ہزاروں بے روز گار افراد کو روزگار کے مواقع میسر آسکتے ہیں۔
سیاحت کے فروغ کی جانب ایک قدم اٹھایا گیا تھا جسے کرونا نے بریک بھی لگائی لیکن ایک مرتبہ پھر پاکستان میں سیاحت کھولی گئی ہے نا صرف ملکی بلکہ غیر ملکی بھی آکر پاکستان کی خوبصورتی سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں انشا اللہ وہ وقت دور نہیں جب سیاحت دنیا بھر میں اس ملک کی پہچان بنے گی دنیا کے کونے کونے سے لوگ اس ملک میں اپنا وقت گزارنے آئیں گے اوریہ شعبہ اس ملک کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ثابت ہوگی۔
نائن الیون کے پاکستان میں امن و امان کی صورتِ حال تشویش ناک حد تک خراب ہو گئی جس کی وجہ سے مُلک کی دیگر صنعتوں کی طرح سیّاحت کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اس عرصے میں مُلک میں غیر مُلکی سیّاحوں کی آمد تقریباً نہ ہونے کے برابر رہ گئی۔ تاہم، 2015-16ء میں امن و امان کی صورتِ حال بہتر ہونے کے بعد مقامی سیّاحوں کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ آخر کار مُلک میں غیر مُلکی سیّاحوں کی تعداد میں بھی اس قدر اضافہ ہوا کہ 2018ء میں پاکستان کو بیگ پیکرز کے پہلے تین ممالک میں سے ایک قرار دیا گیا۔ اس کے نتیجے میں سرحد پار پاکستان کی شبیہ بہتر ہوئی اور ساتھ ہی غیر ملکی سیّاحوں کی آمد میں اضافے سے برآمدات بھی بڑھیں۔
علاوہ ازیں، ویزے کی شرائط کی نرمی نے بھی سیّاحوں کی تعداد میں اضافے میں اہم کردار ادا کیا۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے 2018ء میں ویزے میں نرمی کے علاوہ کانفرنسز منعقد کر کے پاکستان کی سیّاحتی صنعت کی حوصلہ افزائی کی۔ بین الاقوامی سیّاحتی اداروں کو تنظیموں کا ماننا ہے کہ ایشیا میں پاکستان متنوع ثقافت اور قدرتی مناظر کے اعتبار سے ایک بہتر ملک ہے لیکن اب تک مرکزی دھارے کی سیّاحت اس جانب متوجہ نہیں ہوئی۔ ’’ڈبلیو ٹی ٹی سی‘‘ کی رپورٹ بہ عنوان ’’ ٹریول اینڈ ٹور ازم اکنامک امپیکٹ 2017ء پاکستان کے مطابق 2017ء میں خطے کے اوسطاً 15.2 ارب ڈالرز کے مقابلے میں پاکستان کی جی ڈی پی میں سیر و سیّاحت کا حصّہ 7.6 ارب ڈالرز رہا۔
پاکستان میں سیّاحت کے فروغ میں کئی رکاوٹیں حائل ہیں۔ مثال کے طور پر اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد 2011ء میں وفاقی وزارت سیّاحت کو ختم کر دیا گیا۔ اس کے نتیجے میں سیّاحت کے شعبے میں حکومت کی جانب سے اصول و ضوابط کے نفاذ کا عمل کم زور ہوا اور یہ شعبہ پیچیدگی اختیار کر گیا۔ سی ڈی پی آر کی جانب سے پاکستان میں سیّاحت کی صورتِ حال کے حوالے کئی گئی ریسرچ میں بتایا گیا ہے کہ جب غیر ملکی سیّاح پاکستان آمد کا قصد کرتے ہیں تو انہیں سب سے اپنے تحفظ کے حوالے سے خدشات لاحق ہوتے ہیں، کیوں کہ دُنیا کے 159ممالک میں جرائم کی زیادہ شرح کی وجہ سے سیفٹی انڈیکس میں پاکستان کا 124واں نمبر ہے جب کہ بھارت 105 ویں نمبر پر ہے۔
نیز، پاکستان میں شدت پسند عناصر کی دہشت گردی کی کارروائیوں کی وجہ سے بھی سیّاحت متاثر ہوئی۔ سیّاحت کی صنعت کی ترقی میں حائل دوسری رکاوٹوں میں انفرااسٹرکچر، سہولتوں، شعبہ سیّاحت سے تعلق رکھنے والے عملے کی تعلیم و تربیت میں کمی، میڈیا کے ذریعے بیرونِ مُلک پاکستان کا مثبت چہرہ دکھانے میں ناکامی، سیّاحت کے لیے کم بجٹ، سیّاحوں کی ضروریات سے متعلق علم کی کمی اور غیر موزوں ویسٹ مینجمنٹ سسٹم شامل ہے۔
واضح رہے کہ سیّاحت روزگار کے ذرائع پیدا کرنے کا ایک بڑا ذریعہ ہے اور پاکستان میں سیر و سیّاحت کو فروغ دے کر بے روزگاری جیسی لعنت سے بھی چھٹکارا حاصل کیا جا سکتا ہے۔ سیّاحت کی ترقّی سے نوجوانوں کے لیے ہوائی سفر، ہوٹلز اور انٹرسٹی ٹرانسپورٹ سمیت دیگر صنعتوں میں روزگار کے مواقع پیدا ہو سکتے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق 2017ء میں سیرو سیاحت سے وابستہ 38 لاکھ 94 ہزار ملازمتیں تھیں اور کل ملازمتوں میں ان کا تناسب 6.5 فی صد بنتا ہے جب کہ 2028ء میں یہ حصّہ 2.3 فی صد اضافے کے ساتھ 50 لاکھ 17 ہزار ملازمتوں تک پہنچنے کی توقع کی جا رہی ہے۔
سیر و سیّاحت کی صنعت سے وابستہ ماہرین کا ماننا ہے کہ پاکستان میں ٹور ازم کے بیش بہا مواقع ہونے کے باوجود خطّے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں یہاں اس شعبے کے لیے درکار انفرااسٹرکچر کی تعمیر پر خاطر خواہ توجّہ نہیں دی گئی۔ حتیٰ کہ تفریحی مقامات پر سیّاحوں کو اے ٹی ایمز، ریسٹ رُومز، پیٹرول/ سی این جی پمپس اور سڑکوں جیسی بنیادی سہولتیں بھی دستیاب نہیں ہیں۔ علاوہ ازیں، مقامی و غیر ملکی سیّاحوں کو تفریحی مقامات پر پینے کے صاف پانی اور پبلک ٹوائلٹس نہ ہونے کی وجہ سے بھی پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
مزید برآں، حکومت سیّاحوں کو سفر کی صاف ستھری اور محفوظ سہولت فراہم کر کے بھی ان کے لیے آسانیاں پیدا کر سکتی ہے۔ اس وقت ملک میں آرام دہ انٹر سٹی پبلک ٹرانسپورٹ کی کمی ہے جب کہ شمالی علاقہ کی طرف جانے والے راستے بھی خراب ہیں جو امکانی سیّاحوں کی حفاظت کے لیے اصل خطرہ ہیں۔ علاوہ ازیں، پل بھی خاصے کم زور ہیں جس سے سیّاحوں کی زندگی کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ لہٰذا حکومت کو حادثات سے بچنے کے لیے ذرائع نقل و حمل کی بہتری کی خاطر خواہ بجٹ مختص کرنا چاہیے۔ سرکاری سطح پر سیّاحت کے لیے کوئی واضح اور ٹھوس پالیسی نہ ہونے اور کرپشن کے باعث بھی ٹور ازم سیکٹر کی حوصلہ شکنی ہو رہی ہے۔
کرپشن ہی کی وجہ سے میرٹ پر سِول انجینئرز اور دوسرے ہُنر مند افراد کو بھرتی نہیں کیا جا رہا ۔ لہٰذا، کرپشن کے پاک حکومت کی مداخلت سے سیّاحت کے انتظامات کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ گرچہ پاکستان وادیٔ سندھ سمیت دیگر قدیم تہذیبوں کا مرکز ہے اور قلعہ روہتاس، مکلی قبرستان، ٹھٹھہ، موئن جو دڑو اور ٹیکسلا وغیرہ جسیے آثار قدیمہ غیر ملکی سیّاحوں کے لیے کشش رکھتے ہیں لیکن گزشتہ 75برسوں میں ان تاریخی مقامات کی حفاظت اور تزئین و آرائش کے لیے خاطر خواہ رقم خرچ نہیں کی گئی۔
ماہرین آثار قدیمہ اور ماہرین ارضیات کی خدمات کے حصول اور ان تاریخی مقامات کی حفاظت کے لیے حکومت کی جانب سے خاطر خواہ سرمایہ کاری ضرورت ہے اور اس کا معاوضہ مُلک میں ٖغیر ملکی سیّاحوں کی آمد سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ میاں نواز شریف کے دور حکومت میں کئی تعمیراتی منصوبوں کا آغاز کیا گیا اور اس کے نتیجے میں ملک میں غیر ملکی سیاحوں کی آمد سے ملک میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں بھی اضافہ ہوا لیکن یہ زیادہ تر منصوبے غیر ملکی قرضوں سے پنجاب میں تعمیر کیے گئے تھے جس سے آگے چل کر ہماری معیشت کو مزید نقصان پہنچا۔ حال میں پاک، چین اقتصادی راہداری کے سبب مُلک میں تعمیراتی منصوبے عروج پر ہیں اور امید کی جاتی ہے کہ اس سے پاکستان کے تجارتی مرکز بننے کی امید ہے۔
پاکستان میں مذہبی سیّاحت کو فروغ دینے کے بھی مواقع موجود ہیں۔ اس ضمن میں کرتار پور راہ داری کھول کر پاکستان نے ایک بڑی پیش رفت کی ہے اور پاکستانی حکومت نے مستقبل میں پاکستان آنے والے سِکھ یاتریوں کو مزید سہولتیں فراہم کا بھی عزم کیا ہے جو ایک خوش آئندبات ہے۔ واضح رہے کہ سِکھ برادری کے پانچ اہم ترین مذہبی مقامات پنجاب میں واقع ہیں۔ سِکّھوں کے اِن مذہبی مقامات میں سے گوردوارہ دربار صاحب کرتارپور سِکّھوں کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے کیوں کہ اُن کے روحانی پیشوا گرونانک دیو جی نے اپنی زندگی کے آخری 18برس یہیں گزارے تھے۔ اُن کی آخری آرام گاہ اور سمادھی بھی یہیں ہے۔
کرتارپور کاریڈور بننے سے قبل سِکھ یاتری سرحد کے دوسری طرف سے دُور بینوں کے ذریعے گوردوارے کے درشن کیا کرتے تھے۔ اس راہ داری کے کھلنے سے اب وہ اِس مقام تک خود چل کر درشن کے لیے آ جا سکتے ہیں جس سے نہ صرف پاکستان میں مذہبی سیّاحت کو فروغ مل رہا ہے بلکہ دونوں ملکوں خصوصاً سکھ برادری میں پاکستان کے حوالے سے مثبت تاثر قائم ہو رہا ہے۔ امریکن سِکھ کاکس کمیٹی کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر اور پاکستان کا دورہ کرنے والے سِکھ وفد کے رہنما ہرپریت ایس سندھو نے گزشہ برس لاہور میں ہونے والی ایک ملاقات میں اس بات کی نشاندہی کی کہ پاکستان سِکھ اور بودھ مذہب کی سیّاحت کے غیر دریافت شدہ امکانات سے بھرپور فائدہ اٹھا کر سالانہ اربوں ڈالرز کا زرمبادلہ کما سکتا ہے۔
اس شعبے سے زیادہ سے زیادہ فواید حاصل کرنے کے لیے حکومت کو فوری طور پر یونیسکو کے مقرر کردہ بین الاقوامی معیارات کے مطابق انفرااسٹرکچر کی ترقّی اور اسے برقرار رکھنے کے لیے سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ ہرپریت ایس سندھو کے مطابق بھارت میں مقیم 2کروڑ سِکّھوں میں سے 79فی صد پاکستان کا دورہ کرنا چاہتے ہیں لیکن انہیں بہت سی مشکلات کا سامنا ہے، جن میں سہولتیں، رہایش، سکیورٹی اور ہوٹل مینجمنٹ کے عملے کی مناسب تربیت کی کمی کے علاوہ کم معیاری خدمات شامل ہیں۔ اسی طرح بیرون ملک مقیم 80لاکھ سِکّھوں میں سے 83فی صد اسی خواہش کا اظہار کرتے ہیں۔
یہ امر ہمارے لیے قابلِ غور ہے کہ دُنیا بھر میں مذہبی سیّاحت پروان چڑھ رہی ہے لیکن پاکستان میں اس صنعت کو وہ اہمیت نہیں مل سکی جو ملنی چاہیے تھی، حالاں کہ پاکستان مختلف مذاہب کے تاریخی ورثے سے مالا مال ہے۔ اِس حوالے سے ٹیکسلا، ہری پور، مردان، سوات اور دیگر علاقے قدیم گندھارا ورثے کی وجہ سے غیر مُلکی سیّاحوں کے لیے بہت زیادہ پُرکشش ہو سکتے ہیں۔ ایک سروے کے مطابق 58ملین بودھ زائرین پاکستان آنا چاہتے ہیں مگر سہولتوں کی کمی کی وجہ سے پاکستان ان منافع بخش مواقع سے ابھی تک فائدہ نہیں اُٹھا سکا۔
واضح رہے کہ پاکستان میں سِکّھوں کے ساتھ ساتھ بودھ مت، ہندو مت اور جین مت کے درجنوں اہم اور مقدّس مقامات موجود ہیں۔ حکومت اگر اس حوالے سے کوئی منظّم حکمتِ عملی تشکیل دے تو پاکستان کے لیے اربوں روپے کا زرمبادلہ کمایا جا سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنے شہریوں کی بھی ذہن سازی کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ پاکستان کے مثبت امیج کو اجاگر کرنے اور معاشی استحکام میں مذہبی سیّاحت کی اہمیت کو سمجھ سکیں۔ اس سلسلے میں مذہبی سیّاحت کے حوالے سے اہم مقامات اور علاقوں کی مقامی آبادیوں کو سیّاحتی پالیسیوں میں شامل کر کے شعور اور آگہی فراہم کرنی ہوگی تاکہ وہ اپنی لاعلمی سے ان بیش بہا وسائل کو نقصان نہ پہنچائیں۔
علاوہ ازیں، مُلک میں امن و امان کی صورتِ حال اور سیّاحتی سہولتوں کو بھی مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے کیوں کہ دُنیا بھر کے سیّاح خاص طور پر مذہبی سیّاحت کے لیے آنے والے افراد ہزاروں ڈالرز خرچ کرکے غلیظ باتھ رومز، ہوٹلوں کے گندے اور سیلن زدہ کمروں میں رہنا پسند نہیں کریں گے۔ علاوہ ازیں، ہمیں سیاحت کو باقاعدہ ایک انڈسٹری کا درجہ دیتے ہوئے اس شعبے سے وابستہ مقامی افراد کے رویّوں کو بھی بہتر بنانے کی ضرورت ہے کیوں کہ جو بھی غیر مُلکی پاکستان کے کسی ایئرپورٹ پر اترتا ہے، ہمارے اکثر ہم وطن اسے سونے کا انڈا دینے والی مرغی سمجھ لیتے ہیں۔
ان منفی عوامل اور رویوں پر قابو پانے کے لیے حکومت کو سیّاحت کے حوالے سے مؤثر قانون سازی کرنے اور قوانین مرتّب کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں بیرون ملک خصوصاً کینیڈا، برطانیہ اور امریکا کے سفارت خانوں میں سِکھ افسروں کو تعینات کیا جا سکتا ہے جو مذہبی سیّاحت کے لیے آنے والوں کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیں۔ اس حوالے سے ویزوں کے اجرا کا طریقہ کار بھی آسان اور تیز رفتار بنانے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ اسلام آباد، کراچی اور لاہور کے ایئرپورٹس پر مذہبی سیّاحت کے لیے آنے والوں کی رہنمائی کے لیے خصوصی کائونٹر بھی قائم کیے جا سکتے ہیں۔
پنجاب حکومت کو اس حوالے سے اپنے ٹورازم کے محکمے کو مزید متحرک کرنے کی ضرورت ہے کیوں کہ سِکّھوں کے زیادہ تر مقدّس مقامات پنجاب میں ہی واقع ہیں۔ اس حوالے سے اگر ہم چین کی سیّاحتی صنعت پر ہی توجہ کریں تو وہاں سے ہر سال لاکھوں سیّاح پاکستان آ سکتے ہیں کیوں کہ چین سے ہر سال تقریباً ڈھائی کروڑ سے زائد سیّاح بیرونِ مُلک سفر کرتے ہیں۔ اگر ہم ان کے لیے اپنے مذہبی اثاثوں کی بہتر انداز میں تشہیر کریں اور انہیں پاکستان آنے پر مائل کریں تو اس سے مُلکی معیشت کو مستحکم کرنے میں نمایاں مدد ملی سکتی ہے۔
اسی طرح یورپ اور امریکا سمیت ہم سایہ ملک بھارت کے شہریوں کے لیے بھی پاکستان میں مذہبی و تاریخی مقامات کی سیّاحت کے وسیع مواقع موجود ہیں۔ پاکستان کو اس شعبے پر بھرپور توجہ دینے کی ضرورت اس لیے بھی زیادہ ہے کہ ہمارے ہم سایہ ممالک بھارت، ایران اور سری لنکا پہلے ہی اس شعبے میں ہم سے کہیں آگے ہیں اور وہاں مذہبی و ثقافتی مقامات کی سیّاحت کروڑوں ڈالرز کی صنعت بن چکی ہے۔