• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پیروڈی :فقیہ شہر ’’ہاروں ‘‘ ہے لغت ہائے حجازی کا

شاعری نہیں، مبالغہ آرائی نہیں، خودستائی نہیں۔ حقیقت، الم نشرح حقیقت ۔ راولپنڈی کے افق پر جب بھی نیا سپہ سالار طلوع ہوا، صحرائے صحافت کے اس مسافر کی جبیں میں سجدے پھڑ پھڑا اٹھے۔ نئے آنے والے جنرل کو بھی مژدہ ہو ’’تُو نورِ چشمِ ماای‘‘ گوجر خان کے مگر اس گرد آلود گائوں کے اجلے فرزند سے خادم کی عقیدت ہی نرالی تھی۔ اس کا جانا ٹھہر گیا، فقیر کی آتشِ شوق مگر گلزار نہ ہو گی ، دل کا دالان مگر ویراں نہ ہوگا۔ بیک کعبہ روئے، بیک کعبہ پشت ۔
ہو گئے ہیں اک اور شخص کے ہم
مگر اس شخص کا جواب کہاں
سوال مگر یہ ہے، کیا نیا سپہ سالار بھی کسی ادارہ جاتی ارتعاش کے بغیر لگی بندھی راہ پر گامزن رہے گا یا بروئے کار بھی آئے گا؟ کیا ناچیز کپتان کا حقہ تازہ کرنے پر ہی مامور رہے گا یا کسی معتبر عہدے کی خلعت بھی زیب تن کرے گا؟ کیا کاتب تقدیر لکھ چکا کہ کپتان کو دیسی مرغیاں پکا کر کھلانا ہی عاجز کا پہلا اور آخری منصب ہوگا؟ یاللعجب! کپتان کے فضائل لکھتے اور قلم کی پالش سے اس کی شخصیت چمکاتے انگلیاں پتھر ہو گئیں لیکن بسا آرزو کہ خاک شدہ! درویش کے سارے خواب اُچک لئے گئے اور اسے کارگہ حیات میں تنہا چھوڑ دیا گیا دیگر پارٹیوں کی طرح کپتان کا بھی وہی اصول ہے کہ جسے پیا چاہے، وہی سہاگن۔ سیف اللہ نیازی، اسد عمر، جہانگیر ترین سہاگن ہیں۔
اسد عمر پارٹی کے باپ بن گئے اور شیریں مزاری والدہ ماجدہ ،سب نے ڈٹ کر بدعنوانی کی اور پارٹی کی فصل برباد کردی…اور نواب آف کالا باغ کی پوتی جیسے امیدوار، سبحان اللہ، سبحان اللہ۔ جس فقیر نے مگر چمن کو اپنے لہو سے سینچا؟ پارٹی کے سیاسی حریفوں کو بھاڑے کا ٹٹو ثابت کرنے کے لئے جس سخت کوشش نے قلم کو بے نیام رکھا، پیہم بے نیام؟ دشمنوں کے طعن و تشنیع سے مگر جس ریاضت کیش کا جگر فگار ہوا؟ اس غریب کو استاد دامنؔ یاد آتا ہے
بھج بھج وکھیاں چُور ہوئیاں
مڑ ویکھیا تے کھوتی بوہڑ ہیٹھاں
موسم خزاں کی اداس شب ، دل درد سے بھرا ہوا تھا۔ ماہتاب کی خنک روشنی گوجر خان میں صدیوں سے ایستادہ برگد کی شاخوں سے چھن چھن کر آتی تھی۔ صوفی عصر کی گردن پھلوں سے لدے شجر کی مانند جھکی جاتی تھی کہ صراحی سرنگوں ہوکر بھرا کرتی ہے پیمانہ! اچانک سر اٹھا کر حقیر کو مخاطب کیا، لہجے میں ایسا سوز کہ طالب علم اندر تک بھیگ گیا، فرمایا’’ہر صبح اپنے قلم کی نوک سے دنیا کو چھید ڈالنے والے! خواہشات کے سراب میں اپنی مرضی کے رنگ بھرنے کے ہنر میں یکتا ہو۔ اے شاندار ماضی کے عظیم شارح! علوم تمہارے سامنے دست بستہ کھڑے ہیں۔ لغت تیری کنیز اور ادب تمہاری دہلیز کا چوبدار۔ ہر ترکیب حسن بیاں کا مرقع، ہر فقرہ تراشیدہ اور سحر انگیز۔ افسوس مگر صد افسوس! اس دور نامسعود میں تجھ ایسے نایاب ہیرے کو جوہری میسر نہ ہوا‘‘ خادم پانی میں رکھے بتاشے کی طرح گھلنے لگا۔ درویش دوراں نے مختصر توقف کے بعد باردگرمن کے موتی بکھیرنے شروع کیے ’’تُلنے دو ،چوہدری قمر زماں کو تلنے دو۔ ابھی فیصلہ ہوا جاتا ہے کہ وہ کم تلتے ہیں،پورے یا زیادہ ۔
شعار مگر یہ تھا کہ اول منصب کی ذمہ داریوں کو سمجھا جاتا پھر اس کے مطابق موزوں مردِ ہنر کار کی تلاش۔ سوچنے والا ہر آدمی سوال کرتا ہے کہ اگر سچے اور عادل کو لگانا تھا تو تاریخ میں مشعل کی مانند فروزاں صالح اور عادل خلیفہ ہارون الرشید کے تمہارے جیسے عاشق صادق پر کسی کی نظر کیوں نہ پڑی؟ کیا عقل کے اندھے کور چشمی کے عارضے کا شکار بھی ہو گئے؟‘‘ عاجز کی جھکی آنکھوں سے قطرے رخساروں پر ڈھلنے لگے، حتیٰ کہ سفید ریش تر ہو گئی۔ وجدانی کیفیت دفعتاً ایک خیال بجلی کی مانند کوندا۔ آخر یہ مرشد اور صوفی کس مرض کی دوا ہیں؟ کیا ان کی کرامات فقط معرفت کے دریا بہانے تک محدود ہیں یا کسی معتبر گریڈ کا منصب بھی ان کی پٹاری میں مکنون ہے؟یا حیرت! مہ و سال بیت گئے ، ان کی دعائیں مگر دوا میں نہ ڈھل سکیں۔ تخیل کے گجرے مرجھا گئے اور طبیعت اچاٹ ہو گئی تو ناچیز اپنی موٹر میں بیٹھ کر گھر کو روانہ ہوا۔ رستے میں علامہ اقبال یاد آئے تو حقیقت کے جہاں کھلتے چلے گئے
رہا نہ حلقہ صوفی میں سوزِ مشتاقی
فسانہ ہائے کرامات رہ گئے باقی
شاعر ہی فطرت کا فصیح فرزند ہے۔ دلّی کے شاعر نے کہا ’’ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے ‘‘ احقر کی مگر ایک آرزو غالبؔ کی ہزاروں خواہشوں پہ بھاری۔ کاش کوئی ایسی بھی سحر آئے جب یہ حقیر پر تقصیر اپنے سموں سے چنگاریاں اڑاتے عربی النسل گھوڑے پر سوار ، قرونِ وسطیٰ کا جنگی لباس زیب تن کئے، سینے پر زرہ بکتر سجائے ، سر پر آہنی کلغی دار خول چڑھائے، کمر سے تیغ آبدار لٹکائے ، اپنا نیزہ تھامے، اللہ اکبر کے نعرے لگاتا، اسپ تازی کو اپنی رانوں تلے مہمیز دیتا مانند خورشید طلوع ہو اور ہر نئے خیال، ہر جدید تحقیق اور آج کے ہر مسئلے کو نیزے کی اَنی پر رکھ لے۔ دودھاری تلوار کو بے نیام کر کے کھچکی ہوئی اس سلطنت میں کسی فاتح جرنیل کی طرح داخل ہو اور زرداریوں ،شریفوں سمیت بھری دوپہروں میں جمہوریت کے خواب دیکھنے والوں، گماشتہ سول سوسائٹی کے چمپو چاٹوں، مغرب زدہ دانشوروں، بنیادی حقوق اور تعلیم جیسے ادنیٰ مقاصد کی علمبردار این جی اوز اور ملالہ یوسف زئی جیسی بالڑیوں کو سیاستدان کے روپ میں دیکھنے کے خواہشمندوں کو کچلتا ہوا کشتوں کے پشتے لگا دے اور پھر …مگر وائے حسرتا! بات ادھوری رہ جاتی ہے ،مولانا محمد علی جوہر کہا کرتے ’’اخبار نویسی میں المیہ یہ ہے کہ بات ادھوری رہ جاتی ہے‘‘ پس صحافت کے طالب علم کو یہی زیبا ہے کہ جذبات کے گھوڑے کو لگام دے اور حقائق کی سنگلاخ اور تیکھی ڈھلوان اتر کر اپنی تھاں پر آ جائے ۔
شاعری نہیں، مبالغہ آرائی نہیں، خودستائی نہیں ۔ حقیقت ، الم نشرح حقیقت ۔ راولپنڈی کے افق پر جب بھی نیا سپہ سالار طلوع ہوا، صحرائے صحافت کے اس مسافر کی جبیں میں سجدے پھڑ پھڑا اٹھے۔ نئے آنے والے جنرل کو بھی مژدہ ہو ’’تُو نورِ چشمِ ماای‘‘ گوجر خان کے مگر اس گرد آلود گائوں کے اجلے فرزند سے خادم کی عقیدت ہی نرالی تھی ۔ اس کا جانا ٹھہر گیا ، فقیر کی آتشِ شوق مگر گلزار نہ ہو گی، دل کا دالان مگر ویراں نہ ہوگا۔ بیک کعبہ روئے، بیک کعبہ پشت۔
ہو گئے ہیں اک اور شخص کے ہم
مگر اس شخص کا جواب کہاں
تازہ ترین