یہ ایک سچی کہانی ہے- آج سے ٹھیک 54 سال پہلے تین اگست 1968کوپرتگال کے79سالہ وزیراعظم انتونیو ڈی اولیویرا سلازار ایک سرکاری دورے کے دوران غسل خانے میں پھسل کر گر گئے- وہ اگرچہ بظاہر جسمانی طور پرتندرست تھے مگر انہوں نے طبیعت کی ناسازی کی شکایت کی۔ اسپتال پہنچتے پہنچتے وہ کومے میں چلے گئے۔ کچھ عرصے سے ان کی صحت ناگفتہ بہ رہی تھی اسلئے یوں لگنے لگا کہ شاید ان کا آخری وقت آ چکا ہے۔ معاملے کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے پرتگال کے صدر نے کاروبارِ مملکت چلانے کیلئے ایک نئے وزیراعظم مارکیلو کیتانو کو نامزد کر لیا۔ چند دنوں کے بعد سلازار اچانک کومے سے بیدار ہوئے جس سے ملکی معاملات تعطل کا شکار ہونے کا خطرہ پیدا ہوگیا کیونکہ سابق وزیراعظم کا طرزإ حکومت نہ صرف آمرانہ تھا بلکہ چھتیس سال سے حکمران رہنے کی وجہ سے ہزاروں شہری ان سے کافی نسبت اور انسیت رکھتے تھے- مزید برآں، ملک کے اطراف میں پھیلی خفیہ اہلکاروں کی 20 ہزار فوج اور دو لاکھ مخبر ملک کے بجائے ان کے ذاتی وفادار تھے جن کے ذریعے انہوں نے 22 ہزار سے زیادہ مخالفین کو قتل کروایا تھا۔
مگر ایسا کچھ بھی نہ ہوا! وزیر داخلہ کی قیادت میں ملک کی حکمران اشرافیہ نے انتہائی باریک بینی سے ایسا مفصل پلان ترتیب دیا کہ ملکی حالات نہ صرف اپنی ڈگر پر چلتے رہے بلکہ سلازر بھی ہنسی خوشی ایک مطمئن زندگی بسر کرنے لگے۔ سلازارکے لیے ایک مکمل نقلی دنیا ترتیب دی گئی جہاں وہ پرانے معمول کے مطابق احکامات صادر کرتے رہے اور اصلی کابینہ کے ساتھ مجالس کا انعقاد بھی کرتے رہے گو کہ ان کی حیثیت ایک لایعنی تماشے کے سوا کچھ بھی نہیں تھی اور تو اور ان کے لیے ہر روز ایک ڈمی اخبار بھی چھپوایا جاتا رہا جہاں ان کی عملداری میں چلنے والی خیالی مملکت کی خبریں اور کارروائیاںشائع ہوتیں تاکہ (سابق) وزیراعظم کی اطمینانِ طبع کے لیے سامان مہیا کیا جاسکے- پلان کے تحت سلازر کو اصل صورتحال کی بھنک بھی نہ پڑنے دی گئی اور انہیں یہی جتلایا گیا کہ وہ حکمران ہیں اور ملک میں سب کچھ ان کی مرضی سے ہورہا ہے، یہ ڈرامہ دو سال تک انتہائی نفاست اور پیشہ ورانہ مہارت سے انجام دیا گیا یہاں تک کہ سلازر 27 جولائی 1970 کو انتقال کرگئے۔
اس سال کے اوائل میںشائع ہونے والی اطالوی صحافی مارکو فیراری کی کتاب The Incredible Story of Antonio Salazar: The Dictator Who Died Twice میں ان تمام حالات کو انتہائی دلچسپ اور تفصیلی پیراے میں بیان کیا گیا ہے، کتاب کے مطابق جب سلازار کومے سے بیدار ہوئے تو سیدھے اپنی سرکاری رہائش گاہ پہنچے اور اپنی دانست میں دوبارہ کاروبار مملکت سنبھالا۔ اپنے پرانے معمول کے مطابق، سلازار روز اپنے وزیروں، گورنروں اور پولیس افسروں سے ملتے رہے اور ان سے حالات کی جانکاری حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ ان کیلئے احکامات بھی جاری کرتے رہے۔ فیراری کے مطابق حالات کو حقیقت کا روپ دینے کیلئے کبھی کبھی یہ لوگ اصلی وزیراعظم مارسیلو کیتانو کی مخالفت بھی کرتے تھے جو بظاہر اب پارٹی اور معاملات حکومت سے دور درس و تدریس میں مشغول تھے۔یہی وجہ ہے کہ جب 1969 کے موسم سرما میں بظاہرسابق صدر سلازر سے فرنچ صحافی رولاند فاورے نے اس وقت کے اصلی صدر کیتانو کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا:’’وہ انتہائی ہوشیار اور بااختیار شخص ہیں مگر وہ ہمارے ساتھ حکومت میں کام نہ کرکے غلطی کررہے ہیں، جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ اب وہ حکومت کا حصہ نہیں ہیں، وہ یونیورسٹی میں قانون کی کلاسیں پڑھاتے رہتے ہیں اور مجھے کبھی کبھی خط لکھ کر میرے اقدامات کے بارے میں اپنی آرا سے آگاہ کرتے رہتے ہیں‘‘، اس انتہائی بیوقوفانہ جواب سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ سلازار اپنے لئے بنائی گئی فرضی دنیا میں پوری طرح سے مشغول تھے۔
سلازار کو اس خیالی دنیا میں مگن رکھنے کے لیے لزبن سے شائع ہونے والے سرکاری روزنامہ ’’نیوز پیپر‘‘ نے سب سے اہم کردار ادا کیا۔ اس کے ڈائریکٹر آگستو دی کاسترو کو ہر شام اپنے اسٹاف کے ساتھ مل کر حسب معمول چھپنے والے اخبار کے ساتھ ساتھ ایک خصوصی ایڈیشن نکالنے کے لیے اضافی محنت کرنا پڑتی تھی- اس اخبار کی صرف ایک ہی کاپی چھپتی تھی جو سلازار کے لیے مختص تھی۔ اس خصوصی اخبار میں سابق صدر کو صرف ان کی یا ان کے متعلق گھڑی گئی خبریں یا اصلی خبروں کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جاتا تھا تاکہ موصوف کی فرضی سلطنت کے ڈھکوسلے کو قائم و دائم رکھا جاسکے- یہ ڈرامہ دو سال تک سلازار کی موت تک چلتا رہا جس دوران وہ ہمیشہ خود کو پرتگال میں اور اس کی نو آبادیات کا مالک و مختار سمجھتے رہے۔