• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایمان نہ رکھنے والے، خدا پرستوں سے ایک سوال اکثر پوچھا کرتے ہیں : تم تو کہتے ہو کہ خدا رحیم و کریم ہے پھر یہ دنیا تکلیفوں اور دکھوں سے بھرپور کیوں ؟یہ کیسی دنیا خالق نے تخلیق کی ہے ، جہاں مائوں کے سامنے درندے بچوں کو چیر پھاڑ دیتے ہیں ۔ انسان ایک دوسرے کو زندہ جلا ڈالتے ہیں ۔

ایسا ہو سکتا تھا کہ تکالیف سے پاک دنیا تخلیق کی جاتی۔ ایک ایسا جہاں ، جہاں کسی کے دانت ہوتے ، نہ سینگ۔ سب سبزی خور ہوتے اور یہ سبزی بکثرت پائی جاتی ۔حملہ کرنے اور مار ڈالنے کی جبلت ہوتی ہی نہ۔ اس کیلئے جینز میں ذرا سی تبدیلی چاہئے تھی ۔ جارح مزاج چمپینزی اور امن پسند بونوبو میں فرق ہی کتنا ہے۔

ایک ایسی دنیا ، جہاں کسی کا بلڈ پریشر کم نہ ہوتا، نہ کوئی ذیابیطس کا شکار ہوتا۔ سب سے بڑی بات یہ کہ درد نہ ہوتا ۔ موت اگر ناگزیر ہوتی تو ذی روح اچانک نیچے گر کے مر جاتے ۔بیماری تو دور کی بات، سکرات کی سختی بھی نہ ہوتی ۔زن ، زر اور زمین اتنی وافر مقدار میں ہوتی کہ کبھی کوئی قتل نہ ہوتا۔ اگر آپ ان سب تکلیفوں اور دکھوں کوزندگی سے نکال دیں تو جو نقشہ آپ کے سامنے آتا ہے ، وہ جنت کا ہے ۔ جہاں ہر کوئی ہمیشہ راحت کے عالم میں رہے گا۔

یہ بے سبب نہیں لگتا کہ صرف ہماری کہکشاں میں ہی سو ارب سیارے ویران پڑے ہیں ۔کیا بنانے والے نے اتنی بڑی بڑی زمینیں بے سبب تخلیق کی ہیں ؟ ہر سیارے پراگر ضروریاتِ زندگی رکھ کر ایک خاندان آباد کر دیا جائے تو کیسا رہے گا؟ کیا یہ لاتعداد زمینیں جنت کا نقشہ کھینچنے کے لیے تخلیق کی گئی ہیں ؟ انسان کی آزمائش تو یوں بھی ہو سکتی تھی کہ کائنات صرف ایک سورج اور صرف ایک زمین تک محدود ہوتی ۔ گندم کے سوا کوئی پودا نہ ہوتا ۔ایک دو قسم کے جانور کافی ہوتے ۔ یہ ستاسی لاکھ قسم کی مخلوقات (اسپیشیز) یہاں کیا کر رہی ہیں ؟

زندگی اور درد لازم وملزوم ہیں ۔درد اس دنیا کا سب سے بڑا استاد ہے ۔نیچے گرنے سے درد اگر نہ ہوتا اور درد کا خوف اگر نہ ہوتا توبچہ کبھی توازن برقرار رکھنا نہ سیکھ پاتا۔ یہ درد ہی ہے ، جس کی وجہ سے زندہ چیزوں میں خوف پیدا ہوتاہے اور اپنی زندگی کی حفاظت کا جذبہ ۔ ’’خود سے خدا تک ‘‘ کے مصنف ،میرے دوست ناصر افتخار کے الفاظ میں لوگ اپنی آنتیں فیشن کے طور پر اپنے گلے میں لٹکائے پھرتے ۔تکلیف سے آدمی کیسے بچ سکتا ہے۔ بڑھاپا بجائے خود سب سے بڑی تکلیف ہے جو دو دو سیڑھیاں پھلانگنے والے کو رینگنے پر مجبور کر دیتاہے۔

جہاں تک درد کا تعلق ہے ، آپ ایک جاندار کے جسم سے نروز اگر منقطع کر دیں تو ہر قسم کی تکلیف ختم ہو جائے گی لیکن پھر اپنی زندگی کی حفاظت کوئی نہ کرپائے گا۔ درد نہ ہوتا تو لوگ شوقیہ اور تجسس کی وجہ سے خود کشی کر لیتے کہ دیکھیں تو سہی‘مرتے ہوئے انسان بھلا کیا محسوس کرتا ہے۔ یہ درد ہی ہے‘ جو انسان کو زندہ رہنے کی جدوجہد پر اکساتا ہے۔ آج اس ترقی یافتہ دور میں جب درد روک دیا جاتا ہے تو بچہ جنتی ہوئی ماں آرام سے سو جاتی ہے ۔

کیا اس دنیا کا کوئی انسان ایسا بھی ہے ، جو اپنی دولت کے بل پر خود کو دُکھوں اور تکلیفوں سے بچاسکے۔ چوہدری شجاعت حسین نے ایک بار کہا تھا کہ ساری دنیا چھان ماری ، (پارکنسن کا) کہیں کوئی علاج ہے ہی نہیں ۔ ہر جاندار کو اپنی زندگی میں ایک خاص مقدار میں تکلیف سے گزرنا ہے۔ کسی کی دولت‘ اس کے ماں باپ اور بیوی بچّے اسے اس تکلیف سے بچا نہیں سکتے۔ کیا کوئی اپنے پتے اور گردے میں بننے والی پتھری کا قبل ازوقت علاج کر واسکتاہے ؟تڑپنا اگر لکھا ہے تو تڑپنا پڑے گا۔ آپ ایک ملک پر چالیس سال حکومت کرلیں ، تکلیف کا وقت آئے گا تو ہجوم آپ کو معمر قذافی کی طرح سڑک پہ مار ڈالے گا۔

خدا کی حکمتیں وہ جانے۔ ہمیں تو فقط اتنا معلوم ہے کہ ایک دم دار ستارہ 70فیصد جانداروں کو ہلاک کر سکتاہے ۔ اس کے بعد ہی چھوٹے جانوروں کا عروج شروع ہوتاہے ، انسان جن میں سے ایک ہے ۔ کیا آپ اپنی دولت کے بل پر اپنی اولاد کو مرنے سے بچا سکتے ہیں ؟ اصولاً ہونا تو یہ چاہئے کہ اپنی اور اپنے اہل وعیال کی متوقع موت کا صدمہ انسان کو نارمل زندگی گزارنے کے قابل ہی نہ چھوڑے۔ اس کے باوجود سجائی گئی آرزوئوں کے طفیل آدمی کیسے بھرپور زندگی گزارتا ہے ؟ وہ بلی اور کتے جیسے جانور پالتاہے ، جنہیں میٹابولزم تیز ہونے کی وجہ سے چند برس بعد اس کی آنکھوں کے سامنے مرنا ہوتاہے ؛حالانکہ ویسے تو آدمی کبھی گھاٹے کا سودا نہیں کرتا۔

وہ ذاتِ قدیم فرماتی ہے: کل من علیہا فان۔ دنیا میں جو کچھ بھی ہے‘ سب فنا ہو جانے والا ہے۔ اور باقی رہے گا تیرے رب کا چہرہ‘ عظمت اور بزرگی والا۔

ادھر دوسری طرف ملحدوں کا بیانیہ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ سب کچھ اتفاق ہے۔ پانی، آکسیجن، پودے، مقناطیسی میدان، سب کچھ۔ اتفاقاً ایک خلیہ بنا۔ اتفاقاً اسے دو میں تقسیم ہو نا آگیا۔ 87لاکھ قسم کی مخلوقات اتفاقاً وجود میں آتی چلی گئیں۔ اتفاقاً ایک جانور ذہین ہو گیا۔ سب ستارے، سب زمینیں ،اتفاق دراتفاق دراتفاق۔ یہ بات میری سمجھ سے باہر ہے ۔ بہرحال اس دنیا میں جس طرح کی زندگی ہمیں دی گئی ہے، اس میں درد اور دکھ لازم و ملزوم ہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین