بدقسمتی سے ٹریفک حادثات ہماری روزمرہ زندگی کا ایک لازمی جُز بنتے جارہے ہیں، کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب اخبارات میں کسی حادثے کی خبر نہ شائع ہوئی ہو۔چند روزسے ایک اندوہناک حادثے کی خبر سے دل بہت بوجھل ہے،میڈیا اطلاعات کے مطابق نجی بس سروس کی مسافر کوچ ملتان سکھر موٹروے پررات دو بجے ایک آئل ٹینکر سے ٹکرا گئی، کوچ میں سوار 20مسافر آگ میں جل کر زندگی کی بازی ہار گئے، بدقسمت کوچ کے بدقسمت مسافروں کو بس سے باہر نکلنے کا ایمرجنسی راستہ نہیں مل سکا اور وہ زندہ آگ میں جلتے تڑپتے رہے، اس المناک حادثے کی تفصیلات رونگٹے کھڑے کردینے والی ہیں، میری خدا سے دعا ہے کہ وہ ہر مسافر کو اپنے حفظ و امان میں رکھے اور ایسی خوفناک صورتحال کا سامنا کسی کو نہ کرنا پڑے۔ ایسا ہی ایک واقعہ حالیہ دنوں میں میٹرو بس سروس راولپنڈی میں پیش آیا تھا جس میں 100سے زائد مسافر سوار تھے، تاہم ڈرائیور کی حاضر دماغی ، بس میں موجود شیشہ توڑنے والے ہتھوڑوں کی مدد سے چند ہی منٹوں میں تمام مسافروں کو بحفاظت باہر نکال لیا گیا، دوسری طرف نجی بس میں نہ تو آگ بجھانے کے آلات موجود تھے اور نہ ہی شیشہ توڑنے والا ہتھوڑا جس کی مدد سے لوگ شیشہ توڑ کر باہر کود جاتے اور اپنی زندگیاں بچا سکتے۔ بد قسمتی سے ہمارے ملک میں لوگوں کو روڈ سیفٹی کے بارے میں معلومات نہ ہونے کے برابر ہیں،عمومی طور پر روڈ سیفٹی کو صرف ٹریفک اشاروں کی پاسداری سمجھا جاتاہے جبکہ روڈ سیفٹی ایک ایساوسیع موضوع ہے جس کے بارے میں تعلیمی اداروں ،دفاتر ،اسپتال اور گلی محلے کی سطح پر آگہی دینے کی ضرورت ہے۔ روڈ سیفٹی میں وہ تمام اقدامات شامل ہیں جن پر عمل کر کے ہم اپنی اور دوسروں کی زندگیوں کو مشکل میں ڈالنے سے کافی حد تک بچاسکتے ہیں۔ اگر ہم ایک نظر پاکستان میں ٹریفک کے بڑھتے ہوئے حادثات کی جانب ڈالیں تو لازمی نہیں کہ ہر مرتبہ اسکا ذمہ دارگاڑی کا ڈرائیور ہی ہو۔ سڑکوں کی خستہ حالت، مسافر کوچوں میں سہولتوں کا فقدان، ناتجربہ کار اورنو عمر بچوں کو ڈرائیونگ لائسنس کا اجراء ، پیدل چلنے والوں کا غیرذمہ دارانہ رویہ اور لوگوں کی جلد بازی کی وجہ سے بھی انسان خدا کی عطا کردہ
عظیم نعمت زندگی سے محروم ہورہے ہیں۔ کچھ دہائیوں قبل پاکستان میں گاڑیاں کی تعداد کم تھیں، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ گاڑیوں کی تعداد میں بے تحاشہ اضافہ ہو گیا ہے۔ پاکستان میں ٹریفک سے متعلق قوانین 1965 میں بنائے گئے تھے جن میں موٹر وہیکل آرڈیننس 1965 ، موٹر وہیکل آرڈیننس 1969 اور قومی وہیکل آرڈیننس2000 شامل ہیں، لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ کسی بھی دور حکومت میں ان قوانین کو عملی طور پر نافذ نہ کیا جا سکااور پاکستان میں ٹریفک حادثات کی شرح میں مسلسل اضافہ ہوتاچلا گیا۔ عالمی ادارہ صحت کے ایک سروے کے مطابق پاکستان میں ٹریفک حادثات کی تعداد خطرناک حد تک 28710 سالانہ تک پہنچ چکی ہے جو کہ مجموعی اموات کا 1.93 فیصد بنتے ہیں، ایک ریسرچ کے مطابق پاکستان میں ٹریفک حادثات غیرطبعی اموات کی سب سے بڑی وجہ ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب مشرق وسطیٰ میں سعودی عرب، دبئی جیسے ممالک میں ایک دم ٹریفک حا دثات میں اضافہ ہوا لیکن وہاں کی حکومتوں نے فوری طور پر معاملے کی سنگینی کو سمجھا اور قومی سطح پر روڈ سیفٹی کے محکمے قائم کئے تاکہ نہ صرف ٹریفک حادثات پر قابو پانے کے لئےعملی طور پر سخت قوانین متعارف کروائے جاسکیں بلکہ ان پر مکمل عمل درآمد بھی یقینی بنایاجائے۔ آج ترقی یافتہ ممالک میں ٹریفک حادثات کی شرح کم ہونے کی وجہ وہاں کےعوام میں روڈ سیفٹی سے متعلق قوائد و ضوابط کے بارے میں آگہی ہے۔ روڈ سیفٹی کے حوالے سے سان مارینو دنیا کا سب سے بہترین ملک ہے جہاں پر شاذ و ناذر ٹریفک حادثہ ہوتا ہے،اس کے بعد مائکرونیشیا، مالدیپ، ناروے اور سویڈن محتاط ڈرائیونگ اور روڈ سیفٹی کے حوالے سے دنیا کے ٹاپ پانچ ملک ہیں۔ پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ ہم لوگ باہر کے ملکوں کے بہترین طرز زندگی سے متاثر ضرور ہوتے ہیں لیکن اپنے ملک واپس آکر کبھی ان معاشروں میں لاگو قوانین کو یہاں نافذ کرنے کیلئے نہیں سوچتے۔آج ہمارے ملک میں روز بروز کے بڑھتے ہوئے ٹریفک حادثات کی وجہ سے عوام کا اعتماد مجروح ہورہا ہے، لوگ اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے پیاروں کو مرتا دیکھ رہے ہیں اور حکومتی ادارے حادثوں کا شکار ہونے والوں کو بدقسمت قرار دے کر اپنی ذمہ داریوں سے بری الذمہ ہوجاتے ہیں۔آج ضرورت اس امر کی ہے کہ وقت کے بدلتے ہوئے تقاضوں کے مطابق ٹریفک قوانین پر نظرثانی کی جائے اور ان کے عملی نفاذ کو یقینی بنایا جائے، عوام میں روڈ سیفٹی سے متعلق آگہی اور شعور اجاگر کیا جائے تاکہ معصوم جانوں کے ضیاع سے بچاجاسکے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)