• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قانتہ رابعہ، گوجرہ

انہوں نے تقویٰ، خدا خوفی کا مفہوم کچھ اس طرح سمجھایا، ایسی ایسی مثالیں دیں کہ سامعین کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔’’تقویٰ، اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے ڈر کو نہیں کہتے، اس کیفیت کو کہتے ہیں، جس کی وجہ سے بندہ گناہ کا موقع ہوتے ہوئے بھی گناہ نہیں کرتا۔

نیکی کرنا مشکل بھی ہو، تو محض اللہ کی خوشنودی کے لیے کرلیتا ہے۔‘‘ یہ درس دینے والی کوئی عام ہستی نہ تھیں، بلکہ ایک بہت معروف درس گاہ کی پرنسپل، قرآن سینٹر کی روحِ رواں تھیں۔ ان کی تقریر سُننے والوں پر صرف وجد طاری نہیں ہوتا تھا، بلکہ وہ گزری زندگی پر نادم اور مستقبل کے لیے پُرعزم بھی ہوجاتے تھے۔

اُن کے منہ سے الفاظ ایسی تاثیر لیے نکلتے کہ سماعتوں سے ٹکراتے ہوئے سیدھے دل میں جگہ بنا لیتے اور پھرآنکھوں کے رستے احساسِ ندامت کی صُورت پانی بن کر بہنے لگتے۔ وہ آنسو،آنسو نہیں، عرقِ انفعال ثابت ہوتے، گناہوں سے نیکیوں کا سفر اور عدم اطاعت سے اطاعت کی طرف آنے کی داستان بن جاتے۔ یہ رُتبہ، یہ فیض اوپر والے نے زہرا زمن کو عطا کیا تھا، جنہیں سب ’’آپا جی‘‘ کہتے تھے۔ آپا جی کے لیکچرز سُننے والیوں میں صرف گھریلو خواتین نہیں، طبقۂ اشرافیہ سے تعلق رکھنے والی خواتین اور گھروں میں کام کرنے والی ماسیاںتک شامل تھیں۔ 

آپا جی کا رویّہ سب کے لیے یک ساں ہوتا، گھریلو ملازماؤںسے بھی اُسی گرم جوشی سے مصافحہ اور معانقہ کرتیں، جس والہانہ انداز میں کسی وزیر، مشیر کی نصف بہتر سے۔ اُن کی مسکراہٹ سب کے لیے ہوتی، ان کے لفظ سب کے زخموں کا مرہم بنتے۔ پر وہ کہاں سے آئی تھیں، اُن کا تعلق کس شہر سے تھا، اُن کی نجی زندگی سے متعلق کوئی کچھ نہیں جانتا تھا۔ 

وہ اپنے تبلیغی اور دعوتی مرکز ’’الابلاغ‘‘ کی اوپر والی منزل پر رہائش پذیر تھیں، لیکن اُن کے گھریلو، معاشی حالات کا کسی کو علم نہیں تھا۔ لوگ اگر کچھ جانتے تھے، تو وہ یہ کہ سادہ سی زندگی گزارنے والی آپا جی نے کبھی کسی سوالی کو خالی ہاتھ نہ لَوٹایا تھا۔ ضرورت مندوں کی مدد کرنے میں وہ کبھی پیچھے نہ رہتیں اور مدد بھی اتنی خاموشی سے کرتیں کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوتی۔

’’زہرا زمن‘‘ علاقے یا تحصیل کا نہیں، پورے شہر کا معروف برانڈ تھا۔ نوّے کی دَہائی میں جس طرح ٹی وی کے گِنے چُنے چینلز تھے، سیل فونز صرف چند لوگوں کے پاس تھا، کپڑوں جوتوں کے برانڈز کے نام پر جا بجا اُگنے والی کُھمبیاں نہیں، بس ہاتھوں کی انگلیوں سے بھی کم برانڈز اور دو، چار معروف پارلرز تھے، اُس وقت سے زہرا زمن کے چرچے تھے۔ زہرا زمن کا شمار گنتی کی ان چند خواتین میں ہوتا تھا، جوفارن کوالی فائیڈ بھی تھیں اور بےحد خُوب صُورت اور ذہین بھی۔ اُن کے پاس قانون کی ڈگری تھی، تو فلم اور تھیٹر کی تعلیم بھی۔ 

آرٹس کاؤنسل میں امریکی مندوب کے سامنے شان دار کارکردگی دکھانے والوں میں ان کا نام سرِ فہرست تھا، انہیں ٹی وی کے دو، تین ڈراما سیریلز کے علاوہ ٹیلی فلمز میں بھی اداکاری کے جوہر دکھانے کا موقع مل چُکا تھا۔ زہرا زمن اُن خوش نصیب لوگوں میں سے تھیں، جن کا نام کسی بھی شعبے کے لیے کام یابی کی ضمانت ٹھہرتا۔ نیز، وہ ایک معروف بوتیک کے علاوہ، ’’سنگھار‘‘ نامی بیوٹی پارلر کی چین بھی چلا رہی تھیں، جہاں اشرافیہ سے تعلق رکھنے والی خواتین کا سنگھار کیا جاتا۔ زہرا زمن کے شوہر معروف صنعت کار اور علاقے کے ایم این اے تھے۔ 

’’سنگھار ‘‘پارلر میں برائیڈل یا پارٹی میک اَپ کے لیے کے لیے کم از کم ایک ماہ قبل رجسٹریشن کروانا پڑتی اور یہاں بیوٹیشنز کی باقاعدہ ٹریننگ بھی ہوتی۔ یہی نہیں، زہرا زمن مقامی اخبارات میں’’ صحت و حُسن ‘‘ کے عنوان سے کالم بھی لکھتیں۔ وہ اپنےکام میں اتنی مگن تھیں کہ انہیں دینی تعلیم کےحصول یا اسلام سے متعلق مطالعےکا کبھی وقت ہی نہیں ملا۔

البتہ، اُن کی ایک بات بہت اچھی تھی کہ وہ کبھی چغلی، غیبت وغیرہ نہیں کرتی تھیں۔ بس اپنے کام سے کام رکھنے والی خاتون تھیں۔ یہی وجہ تھی کہ اپنے، پرائے سب ہی ان کی تعریف کرتے۔ وہ بےحدمنظّم، محنتی، ہنر مند اور بولڈ خاتون تھیں۔ زہرا زمن اپنے آپ میں ایک ادارہ، ایک انجمن تھیں۔انہیں ضلعی، صوبائی سطح پر کئی شیلڈز، میڈلز وغیرہ بھی مل چُکے تھے۔ یعنی، وہ ایک آئیڈیل زندگی جی رہی تھیں۔

لیکن…پھر کچھ ایسا ہوا کہ زہرا زمن کی زندگی کا رُخ بدل گیا۔اُن کی زندگی نے ایک ایسا موڑ لیا، جس کا انہوں نے کبھی تصوّربھی نہیں کیاتھا۔ وہ کہتے ہیں ناں کہ ’’کچھ سبق اُستاد نہیں، زندگی پڑھاتی ہے اور زندگی کا سبق بہت سفّاک ہوتا ہے۔‘‘ تو زہرا زمن کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔

اُن کی کوئی اولاد نہیں تھی، تو انہوں نےاپنی اکلوتی بھتیجی، سارہ ذیشان کو ہی بیٹی بنا لیا تھا۔ سارہ جیسے اُن کی آنکھوں کی ٹھنڈک، جینے کی وجہ اور دل کا قرار تھی۔ انہوں نے اپنی سب محبتیں، ساری چاہتیں، اُسی پر نچھاور کردی تھیں۔ اُس کی اسکولنگ سے یونی وَرسٹی تک کا ہرخرچ بڑھ چڑھ کر اُٹھایا۔ 

سارہ کی ایسی کوئی فرمایش ، خواہش نہ تھی، جو اُس کی پھپھو جانی پوری نہ کرتی ہوں۔ وہ جس چیز پر ہاتھ رکھ دیتی، زہرا خرید لیتیں۔ پھپھو جانی ہی کے مشورے پر اس نے ہوم اکنامکس کالج سے بی ایس سی کیا اور اب انہی کی پسند سے شہر کے جانے مانے صنعت کار کے گھر اُس کا رشتہ بھی طے ہو گیا تھا۔ شادی کی تاریخ طے ہونے سے ولیمے تک پھپھو جانی نے اپنی نجی اور پروفیشنل تمام تر مصروفیات یک سر ترک کردی تھیں۔ جہیز کی تیاری لاہور، کراچی، اسلام آباد کے معروف مالز سے کی گئی۔ جب کہ سارہ کا عروسی جوڑا زہرا زمن نے اپنی نگرانی میں تیار کروایا۔

شہر کے نامی گرامی جیولرز سے گولڈ ، ڈائمنڈ کی جیولری بنوائی گئی۔ وہ اپنی لاڈلی کی ہر خواہش، ہرفرمایش بخوشی پوری کر رہی تھیں۔ سارہ کی منہدی کی رات میوزیکل نائٹ کا اہتمام کیا گیا، جس میں مُلک کے معروف گلوکاروں، بینڈز نے اپنے فن کا مظاہرہ، کیا اورساری رات گویا مدہوشی کے سے عالم میں گزر گئی۔ ایک گیت ختم ہوتا تو ’’ونس مور‘‘ کا نعرہ لگ جاتا۔ بے ہنگم شور شرابے کے بعد جوں جوں رات ڈھلتی گئی، سُروں کی دنیا بھی مدّھم ہوتی چلی گئی اور جب موذّن نے ’’اللہ اکبر‘‘ کی صدا بلند کی، تب تک سب سو چُکے تھے۔

’’زہرا! اُٹھو، 12 بج رہے ہیں، سارہ کو پارلر بھی لے کر جانا ہے۔ پھپھو جانی سوتی ہی رہیں گی، تو بھتیجی کو دُلہن کون بنائے گا۔‘‘ سارہ کی ماں نے بے سُدھ سوئی اپنی نند کو نیند سے بیدار کیا۔ تو وہ بھی ہڑبڑا کر اُٹھ بیٹھیں، جلدی جلدی فریش ہوکے، ناشتے کے نام پر جوس کا ایک گلاس پیا اور سارہ کو لے کر پارلر روانہ ہو گئیں۔ 

سارہ وہ پہلی دُلہن تھی، جس کے میک اَپ سے ہیئر اسٹائلنگ، جیولری پہنانے، نیل آرٹ تک کا ہر کام زہرا زمن نے اپنے ہاتھوں سے انجام دیا، وگرنہ تو وہ کسی دلہن کی فائنل ٹچنگ کے ہزاروں روپے چارج کرتیں۔ جوں جوں سارہ کی تیاری تکمیل کو پہنچ رہی تھی، زہرا زمن کے دل کی دھڑکنیں بے ترتیب ہو رہی تھیں۔

نازک سی سارہ اُن کی توقع سے زیادہ خُوب صُورت لگ رہی تھی۔ زہرا نے اُس کے ماتھے پر بوسا دیتے ہوئےکہا’’آج تو میری پرنسز، پَری لگ رہی ہے۔ اللہ تمہیں ہربُری نظر سے محفوظ رکھے۔‘‘ اتنے میں بھیّا کی کال آگئی کہ ’’بارات پہنچنے والی ہے، تم لوگوں کو آنے میں اور کتنی دیر لگے گی؟‘‘ ’’بھیّا! ہم بس پندرہ منٹ میں پہنچ رہے ہیں۔‘‘ یہ کہتے ہوئے اُنہوں نے سارہ کا ہاتھ پکڑا اور دونوں سیڑھیوں سے نیچے اُترنے لگیں، اتنے میں جانے کیا ہوا کہ سارہ کا پَیر اُس کے لہنگے میں اُلجھا یا وہ ہائی ہیلز کی وجہ سے قدم ٹھیک سے نہ جما سکی اور نیچے لڑھکتی چلی گئی۔ 

پہلی سیڑھی سے آخری سیڑھی تک زہرا اُسے سنبھالنے کی کوشش ہی کرتی رہ گئیں اور سجی سنوری سارہ دیکھتے ہی دیکھتے خون میں نہا گئی۔ پارلر کی لڑکیاں ، خواتین سب چیخ و پکار سُن کر جمع ہوگئیں۔ زہرا زمن نے سارہ کو اپنی گود میں بَھر لیا تھا۔ وہ اُسے اُٹھانے، اسپتال لے جانے کے لیےچیخ رہی تھیں، مگر سارہ نے تو اپنی جان سے پیاری پھپّھو کے ہاتھوں ہی میں دَم توڑ دیا۔ زہرا زمن بے ہوش ہو چُکی تھیں۔ پھر اُنہیں پتا نہیں کہ سارہ کو غسل کس نےدیا، کس نے اُس کا نیل آرٹ ری موو کیا، اور کس نے اس کا کلیوں جیسا نازک وجودلال جوڑے سے نکال کر بےداغ سفید لٹّھے میں لپیٹا۔ 

جب انہیں ذرا ہوش آیا، تو ان کی سارہ کفن میں لپٹی، اپنے ابدی سفر کی تیاری میں تھی۔ وہ نیم بےہوشی میں بس اتنا سُن پائیں ’’لڑکی کا منہ ڈھک دو، کسی نا محرم کی نظر نہ پڑے۔ دیکھو، دھیان سے اُٹھانا، کسی نامحرم کا ہاتھ نہ لگ جائے۔‘‘ نیم بےہوش زہرا زمن کی ریڑھ کی ہڈّی تک سنسناہٹ دَوڑ رہی تھی۔غنودگی میں بھی انہیں زندگی کا سارا فلسفہ سمجھ آرہا تھا اور… مکمل طور پر غنودگی میں جانے سے پہلے ہی وہ بہت بڑا فیصلہ کر چُکی تھیں، اپنے خالق کی اطاعت کا فیصلہ۔ وہ قریباً چھے ماہ تک بستر پر رہیں۔ 

وہ چوبیس گھنٹے ادویہ کے زیرِ اثر رہتیں،جب آنکھ کُھلتی ،بھتیجی کا ہاتھ چھوٹنے،سیڑھیوں سے گرنے اور پھر انہی کے ہاتھوں میں دَم توڑنے کا سارا منظر کسی فلم کی طرح اُن کے ذہن میں چلنے لگتا۔ وہ پھر بے بس ہو جاتیں، انہیں کون دوا دیتا، کھانا کِھلاتا پلاتا، سر سہلاتا کچھ یاد نہ رہتا۔ 

اکثر یہ خیال آتا کہ میری بے حجاب، نماز، روزے سے بےنیاز سارہ جانے کس حال میں ہوگی، کیسے اللہ کا سامنا کرے گی۔ یہ سوچ سوچ کر انہیں مزید ڈیپریشن ہونے لگتا، وہ چیختی، چلّاتیں ، توانہیں خواب آور گولیاں دے کر سُلا دیا جاتا۔ پھر آہستہ، آہستہ اُن کی حالت میں بہتری آنے لگی۔ سونے کا وقفہ کم اور جاگنے کا زیادہ ہوتا گیا، ان پر طاری سکتہ ختم ہو گیا اورپھر ایک دن وہ مکمل طور پر جاگ گئیں۔

اُن کی آنکھیں کُھلی ہوئی تھیں، وہ اردگرد کے مناظر دیکھ رہی تھیں، لیکن انہوں نے گوتم بُدھ کی طرح چُپ کی چادر اوڑھ لی تھی۔ رفتہ رفتہ انہوں نے اپنی تمام تر توجّہ دینِ اسلام کے مطالعے، نماز، روزے، ذکر اذکار اور صدقہ خیرات پر مرکوز کرلی۔ وہ اکثر سوچتیں کہ ’’زندگی کی سب سے بڑی حقیقت موت ہے۔ عورت کا سب سے بڑا زیور حیا اور پردہ ہے۔ 

چاہے ہم ماڈرن اِزم کے نام پر کتنے ہی بےپردہ کیوں نہ ہوجائیں، ابدی سفر کے لیے تو منہ ڈھانپ کر ہی روانہ ہونا ہے، تو کیا ہی بہتر ہو کہ ہم پردے کو پابندی نہیں، پروٹیکٹنگ شیلڈ سمجھیں۔‘‘ اور انہی سوچوں کے ساتھ انہوں نے ’’باپردہ‘‘ہونے کا فیصلہ کیا۔ مگر دین کا راستہ ہرگز آسان نہیں ہوتا، تو اُنہیں بھی بہت کچھ ترک کرنا پڑا۔

خود کو نامحرموں کی نگاہوں سے بچاکر انہیں جو سکینت، اطمینان محسوس ہورہا تھا، وہ اس سے قبل کبھی محسوس نہیں ہوا تھا۔ اسی کے ساتھ انہوں نےپُرتعیّش زندگی ترک کرکے سادہ زندگی گزارنے کا فیصلہ کیا۔ شہر بدلا، طرزِ زندگی بدل ڈالا۔ نافرمانی سے بندگی واطاعت تک کے سفر میں اُن کے کئی دوست، رشتے دار پیچھے رہ گئے، مگر قرآن سے دل لگاکر، اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرکے انہیں جو محبتیں، عزّت مل رہی تھی، وہ اَن مول تھی۔ ہاں، اپنے محاسبے کے لیے وہ اکثر اپنی گزشتہ زندگی یاد کرکے خُوب توبہ استغفار کرتیں۔ اور… ساتھ ہی سارہ کے لیے دُعائے مغفرت تو ہمیشہ ہی اُن کے لبوں پر رہتی۔