• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نیشنل پولی سیسٹک اووری سینڈروم ایسوسی ایشن کے زیرِ اہتمام دُنیا بَھر میں ستمبر کا پورامہینہ’’پولی سیسٹک اووری سینڈروم آگہی‘‘کے طور پر منایا جاتا ہے،تاکہ ہر سطح تک شعور و آگہی عام کرکے مرض کی بروقت تشخیص ممکن بنائی جاسکے۔ جنوبی ایشیا میں، خاص طور پر نوجوان خواتین میں یہ مرض تیزی سے پھیل رہا ہے اور لگ بھگ52 فی صد خواتین اس مرض میں مبتلا ہیں۔ یعنی اس وقت نوجوان خواتین کی نصف سے زائد تعداد ہارمونل توازن کے بگاڑ کا شکار ہوچُکی ہیں۔ 

اگر اب بھی اس مرض کی تیزی سے بڑھتی شرح پر کنٹرول کے لیے اقدامات نہ کیے گئے، تو نہ صرف بانجھ پَن، ذیابطیس، بُلند فشارِ خون، امراضِ قلب اور سرطان جیسی دیگر بیماریوں پر قابو پانا ایک مشکل امر بن جائے گا، بلکہ شعبۂ صحت پر بھی خاصا بوجھ پڑے گا۔ خیال رہے، ترقّی پذیر مُمالک میں، بشمول پاکستان، جہاں صحت کی سہولتیں ناکافی ہیں، وہیں شعبۂ صحت کے لیے مختص کیے جانے والا بجٹ بھی اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے، تو اس صُورتِ حال میں کوئی مُلک کیوں کر اتنے بھاری بوجھ کا متحمّل ہوسکتا ہے۔

عام طور پر جب خواتین ماہ واری کی خرابی ،بانجھ پَن یا موٹاپے جیسی علامات کے ساتھ کسی ماہرِ امراض ِنسواں سے رابطہ کرتی ہیں، تو ان میں سے زیادہ ترپی سی او ایس کا شکار ہوتی ہیں اور جب انہیں اس بیماری سے آگاہ کیا جاتا ہے تو وہ خوف زدہ ہوجاتی ہیں۔حالاں کہ یہ مرض قابلِ علاج ہے۔ پولی سیسٹک اووری سینڈروم جسم میں ہارمونز کا توازن بگڑ جانے کے سبب لاحق ہوتا ہے۔ اس مرض میں مردانہ ہارمونز کی افزایش بڑھ جاتی ہے، جس کے نتیجے میں ماہ واری کم یا سِرے سے نہ ہونے، بیضہ دانی میں سِسٹس بننے، جسم کے مختلف حصّوں میں غیر ضروری بالوں کی افزایش، کیل مہاسے اور بال جھڑنے جیسی علامات ظاہر ہوتی ہیں، جو بانجھ پَن کا بھی سبب بن سکتی ہیں۔ 

زیادہ ترخواتین میں پی سی او ایس کی تشخیص20سے30 سال کی عُمر میں ہوتی ہے۔یہ مرض موروثی بھی ہے، جب کہ وزن میں اضافے، زیادہ دیر تک بیٹھ کر یا کھڑے ہوکر کام کرنےاور کم پیدل چلنے کی وجہ سے بھی جسم انسولین صحیح طور پر استعمال نہیں کرپاتا، تو یہ امر مرض لاحق ہونے کی وجہ بن جاتا ہے۔ اور پھر دورانِ مرض جسم میں تین بنیادی تبدیلیاں ظاہر ہوتی ہیں، جو درج ذیل ہیں۔

٭مردانہ ہارمونز کا زائد اخراج: بیضہ دانی سے خارج ہونے والے مردانہ ہارمونز نہ صرف ماہ واری کی بندش یا انتہائی کم ہونے کا سبب بنتے ہیں، بلکہ بیضہ دانی میں چھوٹی چھوٹی پانی سے بَھری تھیلیاں(جنہیں طبّی اصطلاح میںCysts کہا جاتا ہے) بھی بن جاتی ہیں۔ اسی وجہ سے اس بیماری کو پولی سیسٹک اووری سینڈروم کا نام دیا گیا ہے۔ نیز، یہ ہارمونز خواتین میں کیل مہاسوں اور جسم ،خصوصاً چہرے پر غیر ضروری بالوں کی افزایش کا بھی سبب بنتے ہیں۔

٭جسم کا انسولین درست طریقے سے استعمال نہ کرپانا: جب ہم اپنی غذا میں مٹھاس یا نشاستے(Carbohydrate)کا استعمال کرتے ہیں، تو اس سے توانائی حاصل کرنے کے لیے ہمارا جسم انسولین نامی ہارمون خارج کرتا ہے۔ اگر جسم یہ انسولین درست طریقے سے استعمال نہ کرسکے، تو نہ صرف خون میں گلوکوز کی مقدار بڑھ جاتی ہے، بلکہ زائدانسولین مردانہ ہارمونز کے زائداخراج کا بھی سبب بنتی ہے۔ واضح رہے، انسولین کی مقدار میں اضافہ جسم کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے اور اگر وزن بھی زائد ہو تو یہ صُورتِ حال مزید خراب ہوجاتی ہے۔

٭سوزش: پی سی او ایس میں مبتلا خواتین کے جسم پر مستقل طور پر ہلکی سوزش کے اثرات پائے جاتے ہیں۔ اس ضمن میں چند تشخیصی ٹیسٹ بھی تجویز کیے جاسکتے ہیں۔

پی سی او ایس کی علامات میں ماہ واری متاثر ہونا (کم، زیادہ یا پھر بےقاعدگی)، جسم اور چہرے پر غیر ضروری بالوں کی افزایش ،کیل مہاسے، وزن میں اضافہ اور اس پرقابوپا نے میں مشکل پیش آنا، گردن کی پشت، بغلوں یا ٹانگوں کے درمیان کی جِلد پرسیاہ دھبّے پڑنا، بیضہ دانی میں پانی بَھری تھیلیاں بننا، بے تحاشا بال جھڑنا اور حمل نہ ٹھہرنا وغیرہ شامل ہیں۔ اگر یہ علامات ظاہر ہوں تو اِدھر اُدھر کے مشوروں پر عمل کے بجائے فوری طور پر کسی ماہرِ امراضِ نسواں سے رابطہ کیا جائے۔ بعض خواتین علامات کے بغیر بھی پی سی او ایس کاشکار ہوسکتی ہیں اور جب حمل نہ ٹھہرنے یا وزن بڑھنے کی شکایت پر معالج سے رابطہ کیا جاتا ہے، تو اصل مرض تشخیص ہوپاتا ہے۔

مرض کی حتمی تشخیص کے لیے عام طور پر فیملی ہسٹری سمیت صحت سے متعلق کئی اہم سوالات کیے جاتے ہیں اور پھر اسی بنیاد پر الٹرا ساؤنڈ اور بلڈ ٹیسٹس وغیرہ تجویز کیے جاتے ہیں، تاکہ پتا چل سکے کہ یہ پولی سیسٹک اووری سینڈروم ہے یا تھائی رائیڈ گلینڈ یا پھر ہارمونز سے متعلقہ کوئی اور طبّی مسئلہ۔ چوں کہ تھائی رائیڈ ہارمون کی کمی کی صُورت میں ظاہر ہونے والی علامات پی سی او ایس کی علامات سے بہت ملتی جُلتی ہیں، تو اس ضمن میں گائناکولوجسٹ سے مشورہ ازحد ضروری ہوجاتا ہے۔

پولی سیسٹک اووری سینڈروم کےعلاج کے لیے مختلف ادویہ تجویز کی جاتی ہیں، جب کہ علاج کے ساتھ طرزِ زندگی میں مثبت تبدیلیاں بھی ناگزیر ہیں۔ مثلاً:

٭فعال زندگی: سب سے پہلے تو یہ جائزہ لیں کہ کیا آپ ایک فعال زندگی بسر کر رہی ہیں۔ دراصل، اس مرض سے تحفّظ کے لیے ضروری ہے کہ روزانہ کم از کم ایک گھنٹہ چہل قدمی کی جائے اور اس کے لیے ضروری نہیں کہ آپ کسی جاگنگ ٹریک ہی پر جائیں۔ اگر ہر ایک گھنٹے بعد دس منٹ اپنے کمرے کے اندر یا دفتر میں چلنے پھرنے کی عادت ڈال لیں، تو آپ ایک ایسی صحت مند زندگی کی طرف قدم بڑھا لیں گی، جس میں آپ پی سی او ایس، ذیابطیس، بُلند فشارِخون اور دِل کے امراض سے محفوظ رہ سکتی ہیں۔ 

وہ تمام خواتین جو گھر کے کام کاج یا دفتری امور نمٹانے کے بعد تھکن کے باعث چہل قدمی کو بہت مشکل سمجھتی ہیں، تو بہتر ہوگا کہ ملازمین سے کام کروانے کے بجائے کچھ کام خود کرنے کی عادت ڈالیں، جیسا کہ گھر کی جھاڑ پونچھ جھاڑو پونچھا وغیرہ۔ اس طرح ورزش بھی ہوجائے گی اور غیر ضروری اخراجات کی بچت بھی ۔یاد رکھیے، جسمانی طور پر فعال رہنے ہی میں صحت مند زندگی کا رازپوشیدہ ہے۔ اگر آپ نے کوئی جِم جوائن کر رکھا ہے، یوگا یا دیگر ورزشیں کرتی ہیں، تو انہیں وقتی طور پر نہ کریں، بلکہ معمولات کا حصّہ بنا لیں ۔

٭ غذا کا انتخاب سوچ سمجھ کر کریں: کائنات میں توازن کی بہت اہمیت ہے۔قرانِ پاک میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ہم نے اس کائنات کو ایک توازن پر پیدا کیا۔ یعنی اس دُنیا کی ہر چیز ایک توازن کے ساتھ چل رہی ہے ۔ یہ توازن جہاں کہیں بھی بگڑتا ہے ، تباہی لاتا ہے۔ کچھ یہی صُورتِ حال ہماری غذا کی بھی ہے کہ جب ہم متوازن غذا کے بجائے بےتحاشا کاربوہائیڈریٹ سے بَھرپور غذائیں استعمال کرتے ہیں (یعنی جنک فوڈز اور میدے سے تیار کردہ اشیاء)، تو جسم میں انسولین کی مقدار بڑھ جاتی ہے۔ جیسا کہ آج کل جنک فوڈز کی گھر گھر ڈیلیوری عام ہوگئی ہے۔ گلی گلی بیکریاں کُھل گئی ہیں، جہاں صرف میدے اور مٹھاس سے بنی اشیاء ہی دستیاب ہوتی ہیں۔ 

پھر موبائل فونز وغیرہ نے پیدل چلنے کی عادت تقریباً ختم کردی ہے، جس سے انسولین کی حسّاسیت کو شدید نقصان پہنچتا ہے اور اس کی مقداربھی بڑھ جاتی ہے۔ یہ افسوس ناک امر ہے کہ ہم نے اپنے غذائی شیڈول میں قدرتی اشیاء یعنی سبزیوں، پھلوں، دالوں، گوشت، دودھ، دہی اور انڈوں کا استعمال کم کر کے جنک فوڈز کا بڑھا دیا ہے۔ اگر غور کیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ قدرت نے کاربوہائیڈریٹ کو فائبر (ریشے ) کے اندر لپیٹا ہوا ہے۔ جیسا کہ پھل کھانے کی صُورت میں ہمیں بہترین کاربوہائیڈریٹ، فائبر کے ساتھ فراہم ہوتا ہے۔

اسے طبّی اصطلاح میں کمپلیکس کاربوہائیڈریٹس(Complex Carbohydrates) کہتے ہیں، جو انسولین کی زیادتی کا سبب نہیں بنتے، لیکن اگر پھلوں کا جوس نکال کر پیئں، تو درحقیقت ہم خالص فرکٹوز (Pure Fructose) استعمال کرکے انتہائی قیمتی فائبر کُوڑے دان کی نذر کردیتے ہیں۔ مطلب یہ کہ ہم کمپلیکس کاربوہائیڈیٹ کو خالص کاربوہائیڈیٹ میں تبدیل کر کے اپنے جسم کے لیے خود مشکلات کھڑی کر لیتے ہیں، لہٰذا کچھ بھی کھانے پینے کے لیے منہ کھولنے سے پہلےاپنی آنکھیں کھولیں اور یہ دیکھیں کہ کیا واقعی ہم متوازن غذا استعمال کررہے ہیں۔ بہتر ہوگا کہ شربت، سافٹ ڈرنکس، جوسز، کیکس، پیسٹریز، چاکلیٹس اور میدے سے تیار کردہ غذاؤں سے اجتناب برتا جائے کہ قدرتی طور پر دستیاب اشیاء کا استعمال جسم کے لیے زیادہ مفید ہے۔

٭بَھرپور نیند، سونے جاگنے اور کھانے کے اوقات:رات کی بَھرپور نیند ہماری زندگی میں کئی مثبت تبدیلیوں کا موجب بن سکتی ہے، مگر افسوس کہ راتوں کو دیر تک جاگنے اور صُبح دیر تک سونے کی عادت نے اُلٹا ہمارے جسم کو کئی پیچیدگیوں سے دوچار کردیا ہے۔ دراصل، قدرتی طور پر رات میں اندھیرے کے دوران ہمارے جسم سے ایک مخصوص ہارمون میلاٹونن(Melatonin) خارج ہوتا ہے، جو نہ صرف جسم میں ہونے والی ٹوٹ پھوٹ کی مرمت کرتا ہے، بلکہ بیضہ دانی میں موجود انڈوںکا معیار بھی بہتر بناتا ہے۔ یہ مخصوص ہارمون روشنی کے دوران خارج نہیں ہوتا۔ 

اس لیے صُبح دیر تک سونے والوں میں اس ہارمون کی کمی واقع ہوجاتی ہے، جو بعدازاں ہارمونز کی خرابی کو جنم دیتی ہے۔ بہتر ہوگا کہ روزانہ صُبح چھے بجے اُٹھنے کی عادت اپنائیں اور رات دس بجے تک سونے کے لیے لیٹ جائیں۔ اگر آپ صُبح چھے سے سات بجے اور رات نو سے دس بجے کے دوران گھر کے اندر واک کرلیں، تو یہ عمل انسولین کی مقدار کم کرنے میں بے حد مددگار ثابت ہوگا۔ اسی طرح رات کا کھانا مغرب کے فوری بعد اور صُبح کا ناشتا صُبح آٹھ بجے تک کرلیں۔ اور اس بات کا خاص دھیان رکھیں کہ رات آٹھ سے صُبح آٹھ تک بارہ گھنٹے کے دوران کچھ نہ کھایا جائے، صرف پانی پی سکتے ہیں۔ یہ عملIntermittent Fasting کہلاتا ہے، جو فی زمانہ انسولین پر قابو پانے کا بہترین گُر قرار دیا گیا ہے۔

اگر درج بالا ہدایات پر عمل کے باوجود مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہوں، تو پھر ادویہ کا استعمال مؤثر ہے۔اس ضمن میں بعض مخصوص ادویہ تجویز کی جاتی ہیں، جو انسولین کی حسّاسیت بڑھانے اور پولی سیسٹک اووری سینڈروم کنٹرول کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ وٹامن ڈی کا استعمال بھی فائدہ مندہے۔ ماہ واری کا نظام بہتر کرنے کے لیے ہارمونز کی مقدارکا توازن ضروری ہے، جس کے لیے مختلف ادویہ تجویز کی جاتی ہیں، جب کہ جسم کےغیر ضروری بالوں کی افزایش روکنےکے لیے علاج کے کئی طریقے مستعمل ہیں۔ مثلاً ادویہ ، کریم اور لیزر تھراپی وغیرہ۔ 

بانجھ پَن کا علاج بھی ممکن ہے،جب کہ پی سی او ایس کی شکار فربہی مائل خواتین اپنے وزن میں صرف دس فی صد کمی لاکر بہتر نتائج حاصل کرسکتی ہیں، البتہ ایسی خواتین جنہیں طرزِ زندگی میں تبدیلی اور ادویہ کے استعمال سے کوئی افاقہ نہ ہو، ان کی سرجری کی جاتی ہے، جس میں بیضہ دانی میں کچھ سوراخ بنادئیے جاتے ہیں، تاکہ انڈے خارج ہونے کا عمل تیز ہوسکے۔ نیز، بے اولاد خواتین کے لیے ٹیسٹ ٹیوب بھی مؤثر طریقۂ علاج ہے۔

یاد رہے، پی سی او ایس سے جنم لینے والی ممکنہ پیچیدگیوں میں ذیابطیس، بُلند فشارِ خون، امراضِ قلب،بیضہ دانی کا سرطان ، ڈیپریشن اور نیند کی حالت میں سانس کارُک جانا وغیرہ شامل ہیں۔ ویسےاگر لڑکیاں ابتدا ہی سے متوازن غذا استعمال کریں، باقاعدگی سے ورزش، پیدل چلنے کو ترجیح دیں، سوچ مثبت رکھیں اور وزن کسی صُورت بڑھنے نہ دیں، تو یہ مرض متاثر نہیں کرتا۔ (مضمون نگار، معروف ماہرِ امراضِ نسواں ہیں۔کراچی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج سے بطور ایسوسی ایٹ پروفیسر وابستہ ہیں ،جب کہ عباسی شہید اسپتال، میمن میڈیکل انسٹی ٹیوٹ اسپتال، صفورا گوٹھ اور ابنِ سینا اسپتال، گلشنِ اقبال، کراچی میں بطور کنسلٹنٹ فرائض انجام دے رہی ہیں)