ملک گیر سیلاب کی وجہ سے قومی سطح پر جن فوری مسائل کا سامنا ہے ان میں سبزیوں ترکاریوں کی شدید قلت سرفہرست ہے۔ ٹماٹر، پیاز اور آلو جیسی ہر گھر کی روز مرہ ضروریات کے نرخ سینکڑوں گنا بڑھ گئے ہیں۔ لاکھوں ایکڑ سیلاب زدہ زرعی زمینوں کے دوبارہ قابل کاشت ہونے میں کئی ماہ لگ سکتے ہیں لہٰذا سبزیوں سمیت تمام زرعی اشیاء کی درآمد ہی مسئلے کا حل ہے۔ گندم، چاول ، دالیں اور اناج کی قسم کی دوسری اشیاء جلد خراب نہیں ہوتیں چنانچہ انہیں دنیا کے کسی بھی ملک سے منگوایا جاسکتا ہے لیکن سبزیاں چند گھنٹوں ہی میں باسی ہوکر ناقابل استعمال ہوجاتی ہیں لہٰذا ضروری ہے کہ انہیں قریب ترین ملکوں سے درآمد کیا جائے۔ ہمارے قریب ترین پڑوسیوں میں بھارت ہی وہ ملک ہے جس سے ہمیں یہ مطلوبہ اشیاء آسانی سے اور نسبتاً کم قیمت پر مل سکتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل نے گزشتہ روز بتایا کہ حکومت واہگہ بارڈر کے راستے بھارت سے سبزیوں اور دیگر خوردنی اشیا کی ڈیوٹی فری درآمد کی اجازت دینے پر غور کر رہی ہے۔ تاجر برادری کے نمائندوں نے اس تجویز کی حمایت کرتے ہوئے حکومت کو متنبہ کیا ہے کہ تاجروں کو بھارت سے تیار مال نہیں بلکہ صرف ٹماٹر پیاز جیسی کچی سبزیوں کی درآمد تک محدود رہنے کا پابند کیا جائے اور تیار شدہ مصنوعات مثلاً ٹماٹو کیچپ، فرنچ فرائز، پیاز کا پاؤڈر اور دیگر سبزیوں یا پھلوں سے جڑی اشیا پر پابندی برقرار رکھی جائے۔ ملکی صنعت کو تحفظ دینے کیلئے ایسا کرنا یقینا ضروری ہے ۔تاہم پاکستان تین سال پہلے کشمیر کی آئینی حیثیت تبدیل کرکے اسے بھارت کا حصہ قرار دیے جانے کے بعد دوطرفہ تجارت احتجاجاً بند کرچکا ہے جس کی بناء پر اس کی بحالی خواہ وہ کتنے ہی محدود پیمانے پر ہوبہرحال قابل غور ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ غیر معمولی حالات میں غیر معمولی اقدامات ناگزیر ہوجاتے ہیں لہٰذا بھارت سے سبزیوں کی درآمد کی تجویز پر بلاتاخیر پیش رفت ضروری نظر آتی ہے۔