• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نوآبادیاتی حکمرانوں نے انڈیا کو برطانوی تاج کا سب سے روشن ہیراسمجھا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ انڈیا قدرتی اور انسانی وسائل، فزیکل انفراسٹرکچر اور کاروبار کے لحاظ سے بہت بہتر امکانات پیش کرتا تھا۔ آزادی کے وقت انڈیا کے سماجی اور اقتصادی اشارے غربت، ناخواندگی اور صحت کی حالت کے لحاظ سے جنوب مشرقی ایشیا اور چین جیسے ممالک سے مماثلت رکھتے تھے۔

آزادی کے بعد بھی ماضی کا تسلسل متاثر نہ ہوا کیوں کہ برطانوی ہند کا نظم و نسق چلانے والے زیادہ تر تجربہ کار سرکاری افسروں نے نئے آزاد ہونے والے ملک میں ہی خدمات سرانجام دینے کافیصلہ کیا۔ ایک اور فائدہ یہ ہوا کہ اقتدار میں آنے والی سیاسی جماعت (انڈین نیشنل کانگریس) اقتدار سنبھالنے سے بھی پہلے ملک کو ترقی دینے کےلئے امکانات پر غور کرتے ہوئے معاشی منصوبہ وضع کرچکی تھی ۔ ترقی کے دو راستے نئے آزاد ہونے والے ممالک کے لئے دستیاب تھے۔ ایک آزادمارکیٹ کا راستہ، اور دوسرا ریاست کے کنٹرول میں چلنے والی معیشت جس کی بنیاد مرکزی منصوبوں پر تھی ۔ کانگریس نے دوسرا راستہ اختیار کیا کیوں کہ پنڈت نہرو خود بھی ایک فابین سوشلسٹ (Fabian Socialist) تھے۔ اگرچہ 1948کی صنعتی پالیسی کی قرارداد نے مخلوط معیشت کی تجویز پیش کی تھی، لیکن وسائل کی تقسیم کے مرکزی منصوبے پبلک سیکٹر کے حق میں تھے۔انڈیانے پہلا پانچ سالہ منصوبہ تیار کرنے اور اس پر عمل درآمد کے لئے1950 میں پلاننگ کمیشن قائم کیا۔ 1951 میں شروع کیا گیا منصوبہ فصلوں کی پیداوار کو بڑھانے اور خوراک کی کمی پر قابو پانے کے لئے زراعت اور آبپاشی کی ترقی پر مرکوز تھا۔

دوسرے منصوبے میں بھاری صنعتوں اور سرمایہ دارانہ سامان پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے تیزی سے صنعت کاری کی طرف قدم بڑھایا گیا۔ یہ مستقبل کے منصوبوں کی بنیاد تھی ۔ 1991ء تک ان منصوبوں میں تسلسل رہا ۔ صرف یہی نہیں ، معاشی سرگرمیوں میں سرکاری شعبے کا گراف بلند ہوتا گیا جب کہ نجی شعبہ بتدریج سمٹتا گیا۔ 1950ء کی دہائی سے لے کر 1991 ء تک کئی ایک صنعتیں، جیسا کہ ایئرلائنز، بینک اور انشورنس کمپنیوں کو قومی تحویل میںلے لیا گیا۔ 1950 میں زراعت معیشت کا غالب شعبہ تھا۔جی ڈی پی میں اس کا حصہ55فیصد اور روزی کمانے اور ملازمت کے مواقع فراہم کرنے میں 80فیصد تھا۔ 1950 اور 1970 کے درمیان جی ڈی پی کی اوسط شرح نمو تقریباً 3.5 فیصد تھی، جو 1980کی دہائی میں بڑھ کر 5فیصد سے زیادہ ہو گئی۔ زرعی شعبے سے دور دیگر صنعتوں کے لئے بڑے پیمانے پر فنڈز مختص کرنے سے ملک میں خوراک کی قلت اور افراطِ زر میں اضافہ دکھائی دیا۔

1964 ء میں نہر و کی جگہ شاستری ملک کے وزیر اعظم بنے ۔ اُنھوں نے زراعت پر توجہ مرکوز کی۔ میکسیکو میں محققین کی تیار کردہ گندم کی اعلیٰ پیداوار والی اقسام اور فلپائن میں تیار کردہ چاول کو اپنایا اور وسیع پیمانے پر کاشت کیا۔ دودھ کی پیداوار میں اضافے کی صورت میں سفید انقلاب کے علاوہ غذائی اناج کی پیداوار میں خاطر خواہ اضافے نے انڈیا کو غذائی تحفظ حاصل کرنے میں مدد کی۔

1990 تک انڈیا 3.5فیصد کی اوسط اقتصادی شرح نمو کے ساتھ دوسرے ترقی پذیر ممالک سے پیچھے تھا۔ فی کس آمدنی میں جمود،بڑھتی غربت ، تجارت اور سرمایہ کاری کے معاملے میں عالمی معیشت سے الگ رہنے کا داخلی رجحان،پرائیویٹ سیکٹر کو اجازت ناموں، لا ئسنسو ں ، درآمدی پابندیوں ، غیر ملکی زرِمبادلہ کے کوٹے اور قومی بینک کے ذخائر کو حکومتی خسارے کی مالی اعانت یا پبلک سیکٹر کے منصوبوں کے لئے استعمال کرنے کا رجحان غالب تھا۔ راجیو گاندھی کی حکومت میں لبرلائزیشن کی طرف کچھ جزوی پیش رفت ہوئی لیکن یہ اقدامات دیرپا ثابت نہ ہوئے اور جلد ہی واپس لے لئےگئے۔ تاہم یہ محسوس کیاگیاکہ ان محدود کوششوں نے بھی 1980کی دہائی میں اقتصادی ترقی کی شرح کو اوسطاً 5 فیصد تک بڑھا دیا تھا ۔ اور اُن معروضی حالات میں یہ ایک بہت بڑا کارنامہ تھا۔ 1991ء میںاہم موڑ آیا جب کمانڈ اینڈ کنٹرول اور سرکاری شعبے کے تسلط کی ماضی کی معاشی پالیسیوں کے مجموعی اثرات نے ملک میں ادائیگیوں کے توازن کے سنگین بحران کو جنم دیا۔ ملک کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر صرف تین ہفتوں کی درآمدات کی ادائیگی کےلئے رہ گئے۔ وزیر اعظم نرسیمارائو نے اپنے وزیر خزانہ منموہن سنگھ کی مدد سے اصلاحات کا ایک جامع پروگرام تیار کیا اور بیل آؤٹ کےلئے آئی ایم ایف سے رجوع کیا۔

لائسنس اور پرمٹ راج کو راتوں رات ختم کر دیا گیاجونجی شعبے کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ تھی۔ نجی شعبے کو کاروبار اور اس کی توسیع کےلئے اجازت نامے درکار تھے ، جنھیں ختم کردیا گیا۔ برآمد کنندگان کے لئےعالمی منڈی میں داخل ہونے اور برآمدات بڑھانے کے لئےتیز رفتار اقدامات کئے گئے۔سرکاری اور نجی شعبے کے لئے کسی کاروبار کے مخصوص ہونے کا لیبل اتار پھینکا گیا۔ بیرونی تجارت کے قوانین کو آزاد کر دیا گیا اور گھریلو صنعتوں کے لئے ٹیرف کی شرح کی شکل میں تحفظ ختم کردیا گیا۔ اب انھیں اپنے بل بوتے پر برآمدی سامان سے مسابقت کرنا تھی۔ (جاری ہے)

تازہ ترین