(گزشتہ سے پیوستہ)
پیچیدہ درآمدی لائسنسنگ کو ختم کر دیا گیا تاکہ ملکی صنعتیں خام مال، پرزے ، مشینری اور آلات بغیر کسی پابندی کے درآمد کر سکیں۔ زرِ مبادلہ کی شرح حکومت کی طرف سے من مانی طور پر طے کرنے کے بجائے اس کا فیصلہ کرنسی کی مارکیٹ کو کرنے دیا گیا۔ غیر ملکی سرمایہ، ٹیکنالوجی کی منتقلی اور انتظامی مہارت کو راغب کرنے کے لئے ایف ڈی آئی کے قوانین میں ترمیم کی گئی۔ غیر ملکی کمپنیوں کی طرف سے 51فیصد تک ایکویٹی سرمایہ کاری کی منظوری خودکارکر دی گئی۔غیر ملکی سرمایہ کاروں کو مقامی ایکویٹی مارکیٹ میں سرمایہ کاری کی اجازت دی گئی۔ ریزرو بینک آف انڈیا کی طرف سے مالیاتی خسارے کی خودکار فنانسنگ کا عمل ختم کر دیا گیا تھا۔ ذاتی آمدنی، کارپوریٹ منافع، کیپٹل گین پر ٹیکس کی زیادہ سے زیادہ شرحیں کم کر دی گئیں۔ منافع کمانے والے عوامی اداروں کو زیادہ خود مختاری اور کیپٹل مارکیٹ میں وسائل کو متحرک کرنے کی آزادی دی گئی۔ ان میں سے کچھ انٹرپرائزز کو انتظامی کنٹرول میں دینے اور اسٹرٹیجک سرمایہ کار کو منتقل کرنے کے علاوہ پرائیویٹائز بھی کیا گیا۔ بجلی پیدا کرنے اور انشورنس سیکٹر کو نجی شعبے کے لئےکھول دیا گیا اور ہندوستانی کمپنیوں کو بیرون ملک سے فنڈ اکٹھا کرنے کی اجازت دی گئی۔معاشی پالیسی سازی اور گورننس کے بنیادی فلسفے میں اس تبدیلی کوشروع میں تو ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں نے سنجیدگی سے نہیں لیا کیونکہ ان کیلئے اصل امتحان یہ تھا کہ آیا یہ اصلاحات برقرار رہیں گی یا اقتدار میں آنے والی ایک مختلف سیاسی جماعت انھیں ختم کردے گی۔ اگرچہ 1991-96ءکی مدت میں اقتصادی ترقی کی شرح 5فیصد سے تجاوز کر گئی لیکن معاشی ترقی کی اصل شروعات اس وقت ہوئی جب واجپائی کی قیادت میں بی جے پی حکومت نے نہ صرف ان اصلاحات کو جاری رکھا بلکہ لبرلائزیشن، ڈی ریگولیشن اور پرائیویٹائزیشن کی مزید اصلاحات متعارف کروائیں۔ ان اصلاحات کی ساکھ اور تسلسل سے اعتماد قائم ہوا ۔ اس سے انڈین معیشت نے ایسی رفتار پکڑی جو پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئی تھی۔
پالیسی میں آنے والی بنیادی تبدیلی نے 2004-05ء میں سرمایہ کاری کی شرح 28 فیصد تک بڑھا دی۔ 2004-05ء میں نجی شعبے کی سرمایہ کاری 13 فیصد سے بڑھ کر 20فیصد تک، اور پھر 2009-10ء میں 24فیصد تک تھی۔ 2000ء کی دہائی کے وسط تک انڈیا کی شرح نمو آٹھ فیصد تک پہنچ چکی تھی ۔ براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کا بہائو 2000-01ء میں چھہ بلین ڈالر سالانہ سے بڑھ کر 2021-22ء میں 81بلین ڈالر سالانہ ہوگیا ۔ اس وقت بھارت کے زرمبادلہ کے ذخائر 600بلین ڈالر سے تجاوز کرچکے ہیں ۔ غربت کی شرح 20 فیصد سے کم ہے ۔ تجارتی خسارہ جی ڈی پی کا صرف 6-7 فیصد ہے ۔ عالمی معیشت میں شمولیت کے فیصلے کے بعد سے عالمی منڈی میں اشیاکی برآمدات میں بھارت کا حصہ تین گنا بڑھ گیا ہے۔ بیرونی دنیا کے لئے انڈیا مرکزی دفتر بن گیا ہے کیونکہ خدمات کی برآمد صرف پچھلی دو دہائیوں میں 16بلین ڈالر سے بڑھ کر 240بلین ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔ انڈیا کی طرف سے قائم کردہ بفرز نے اسے 2008ءکے عالمی مالیاتی بحران اور 2020ءکی کوویڈ 19وبائی بیماری کے طوفان سے نمٹنے میں مدد دی۔ لاک ڈاؤن کے دوران سست روی اور گراوٹ تھی اور بہت سارے عام لوگوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لیکن معیشت نے لچک دکھائی ہے۔ 3.2ٹریلین ڈالر کے ساتھ انڈیا امریکہ، چین، جاپان، جرمنی اور برطانیہ کے بعد دنیا کی چھٹی بڑی معیشت بن گیا ہے۔ 2500ڈالرفی کس آمدنی آزادی کے وقت کی آمدنی سے 30گنا زیادہ ہے۔ غذائی اجناس کی پیداوار جو 1950ءمیں 50ملین ٹن تھی گزشتہ سات دہائیوں میں چھ گنا بڑھ کر 316ملین ٹن ہو گئی ہے جب کہ اسی عرصے میں آبادی میں 3.7کی شرح سے اضافہ ہوا۔ خواندگی کی شرح 18فیصد کے مقابلے میں تقریباً 78فیصد ہے جب کہ خواتین کی شرحٔ خواندگی 9فیصد سے بڑھ کر 70فیصد ہوگئی ہے۔ (جاری ہے)
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)