آج کا عنوان 1968ء میں بنی فلم، انوکھی رات کے ایک نغمے سے مستعار لیا ہے۔ پچاس برس سے اُوپربیت گئے، مگر آج بھی حافظے میں یہ بول محفوظ ہیں، ’’اب آگے جو بھی ہو انجام دیکھا جائے گا، خُدا تراش لیا اور بندگی کر لی‘‘۔ یہ الفاظ اُس وقت یاد آتے ہیں جب انسانوں کا گروہ، اپنے لیڈر سے اندھی عقیدت میں سرشار، عقل سے عاری طرزِعمل کا مظاہرہ کرتا ہے۔ دانشور تاریخ سے مثالیں ڈھونڈ کر بتاتے ہیں کہ ہمیشہ سے ایسا ہوتا رہا ہے۔ انسانی دماغ کے تاریک نہاں خانوں میں، کسی سامری کی جادوبیانی، مسیحائی کا بُت تراش لیتی ہے۔ اور پھر اُسی معبود کی پرستش میں، پُجاری اخلاقی قدریں پامال اور ملک کے آئین اور قانون کی قدر کھو دیتے ہیں۔ اِس مسئلے کا جنم، قائد کی عوامی مقبولیت سے شروع ہوتا ہے۔ وقت کے ساتھ، پیروکاروں کی وابستگی ہوش و خرد کی حدود سے تجاوز کرتی ہے اور تقلید کا جواز، ارادت مندی کی دُھند میں گم ہو جاتا ہے۔ شخصیت پرستی کے سحر کی اسیری، سیاسی جماعت کے اعلیٰ و ارفع مقاصد کی اہمیت بھول جاتی ہے۔ اِس عمل میں قائد کی خود پسندی اور اَنا ایک نئے درجے پر پہنچے تو وہ اپنی ذات کو قانون سے بالا تر اور ملکی قیادت کو اپنا پیدائشی حق سمجھنے لگتا ہے۔ یہ تحریر نہ تو تیسری دُنیا کے ملک کی جمہوریت کا احوال بیان کر رہی ہے اور نہ کسی غیر تعلیم یافتہ معاشرے میں قیادت کے طرزِ عمل پر تبصرہ ہے بلکہ دُنیا کے ترقی یافتہ ملک، امریکہ کی جمہوریت کے نشیب و فراز میں ایک نئی ہلچل کا ذکر ہے۔ مرکزی کردار، جناب ڈونلڈ ٹرمپ، سابق امریکی صدر ہیں۔ کچھ سال پہلے، ڈونلڈ ٹرمپ کو ریپبلکن پارٹی نے صدارتی اُمیدوار چُنا تو تجزیہ کاروں نے اِس سرمایہ دار کے ماضی اور حال کو کھنگالنا شروع کیا۔ صاحبِ فہم لوگوں کی رائے تھی کہ تکبر کا مارا ہوا یہ مال دار شخص، امریکی رائے دہندگان کے معیار پر پورا نہیں اُترے گا۔ مگر سیاہ فام باراک اوباما کے دورِ صدارت کے دوران، امریکی سماج میں تعصب کی نئی حرکیات جنم لے چکی تھیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اُن کا فائدہ اُٹھایا اور بہت کم عرصہ میں، اُن کی شخصیت کا سحر، جانثاروں کے ایک گروہ کی تشکیل میں کامیاب ہو گیا۔ سیاسی کارکنوں نے اپنے مسیحا کا بُت تراشا تو ڈونلڈ ٹرمپ اُن کی اعانت سے، خلافِ توقع، قصرِ صدارت میں جا پہنچے۔ چار سال بعد، الیکشن ہوا تو ڈونلد ٹرمپ ہار گئے، مگر اُن کی اَنا اِس درجے پر فائز ہو چکی تھی کہ جمہوری عمل سے آنے والی تبدیلی کو تسلیم کرنا مشکل ہو گیا۔ اُن کی شہہ پر بپھرے ہوئے جاں نثاروں نے امریکی کانگریس پر دھاوا بولا اور 6جنوری، 2021ء کے بد قسمت دن، اِس حملے کے مناظر، پوری دُنیا نے حیرت سے ملاحظہ کئے۔ امریکی فیڈرل فورس کے جوان، اُن سر پھرے پارٹی ورکرز سے دست و گربیاں تھے جو ہر قیمت پر اپنے محبوب صدر کو قصرِ صدارت میں براجمان دیکھنے پر بضد تھے۔ امریکی سیاست میں موجودہ ہلچل کا تعلق، صدر نکسن کی صدارت کے خاتمے پر بنے ایک قانون سے ہے۔ صدارتی فرائض سے سبک دوشی پر، رُخصت ہونے والے امریکی صدر کے لئے لازم قرار دیا گیا کہ وہ تمام سرکاری کاغذات، آرکائیوز ڈیپارٹمنٹ میں جمع کروائیں گے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے بار بار تقاضا کرنے پر دستاویزات سے بھرے صرف پندرہ باکس لوٹائے۔ امریکہ کے اٹارنی جنرل آفس نے ڈیڑھ سال گزرنے کے بعد، ٹرمپ کی پس و پیش کو مدِنظر رکھتے ہوئے، قانون کے مطابق عدالت میں درخواست دے کر، سرچ وارنٹ حاصل کیا۔ تلاشی پر سابق صدر کی فلوریڈا میں واقع اقامت گاہ کی 58خواب گاہوں اور 33غسل خانوں میں ذخیرہ کئے ہوئے کاغذات برآمد کر لئے جن پر خفیہ اور کانفیڈنشل کی سرکاری مہریں ثبت تھیں۔ اِس حیرت انگیز برآمدگی کے بعد، امریکی میڈیا میں رپورٹر اور تجزیہ کا رسابق صدر کی اِس غیر قانونی حرکت پر تبصرے کر رہے ہیں۔ ایک رائے تھی کہ سابق صدر اپنی ذات کو قانون سے بالاتر خیال کرتے ہیں۔ اُن کے خیالات فرانس کے ایک بادشاہ لوئی XIV کی طرح ہیں جو کہتا تھا ’’ میں ہی ریاست ہوں‘‘۔ اِسی بنا پر 2019ء میں جسٹس Brown Ketanii نے اپنے فیصلے میں لکھاتھا، ’’امریکی صدر بادشاہ نہیں ہوتا اور نہ لوگ اُس کی رعایا ہیں، جن کے مستقبل کا فیصلہ اُس کے ہاتھوں میں ہو‘‘۔ مگر ڈونلڈ ٹرمپ مسئلہ نہیں۔ وہ صرف ایک اَنا پسند شخصیت ہیں۔ امریکی سیاست میں مشکلات، اُن کے حواریوں کی وجہ سے ہیں، جنہیں قومی اداروں کے طرزِ عمل میں اپنے لیڈر کے خلاف سازش نظر آتی ہے۔ وہ ٹرمپ کے گھر سے خفیہ دستاویزات کی برآمدگی پر نہ تو شرمندہ ہیں ، نہ اِسے قابلِ مواخذہ سمجھتے ہیں۔ اُلٹا سوال کرتے ہیں کہ خفیہ کاغذات ، اگرٹرمپ کی تحویل میں تھے تو کیا کسی کوکوئی نقصان پہنچا؟ وہ اٹارنی جنرل اور ایف بی آئی پر جانبداری اور بدعنوانی کا الزام عائد کرتے ہوئے، تلاشی کے وارنٹ جاری کرنے والی عدالت کو انصاف کا قاتل سمجھتے ہیں۔ امریکہ کے سیاسی عمل میں، دماغی تطہیر کا شکار، اِن عقیدت مندوں نے خونریزی شروع کی تو ایف بی آئی کو ملک کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے دفاتر کےلئے سکیورٹی الرٹ جاری کرنا پڑا۔ دُرست جمہوری سوچ کے حامل، سیاسی ورکر پارٹی پروگرام اور پالیسیوں سے عوام کو آگاہ رکھتے ہیں۔ الیکشن مہم چلاتے ہیں اور جمہوریت کے ماتھے کا جھومر ہیں۔ یہی پارٹی ورکر، قائد کی اندھی پرستش پر اُتر آئیں، مخالفین کی دلیل کا جواب، صرف حرف دُشنام ہو اور اختلاف رائے پر سول وار کی دھمکیاں دیں تو سر پھری قیادت اُن کے جذبات کا استحصال کرتی ہے۔ اِس عمل میں کبھی قومی اداروں پر بلا جواز الزام تراشی، اُن کی ساکھ برباد کر دیتی ہے اور کبھی، غیر جمہوری رویے، سماج میں تشدد کو پروان چڑھاتے ہیں۔ ماہرینِ نفسیات کا مشورہ ہے کہ اِن عقیدت مندوں سے اُلجھنا نہیں چاہئے کیونکہ یہ پرستار ، اپنے ہاتھوں سے اپنا خُدا تراش کر اُس کی بندگی کرنے پر مجبور ہیں۔