جنگ ستمبر 1965ء کل ہی کی بات لگتی ہے۔ سرحدیں بموں کے دھماکوں، توپوں کی گھن گرج، ٹینکوں کی گڑگڑاہٹ، طیاروں کی گونج، گولیوں کی تڑتڑاہٹ، دشمنوں کی چیخوں، پاک فوج کے غازیوں کے نعروں سےگونج رہی تھیں۔ ملک کے شہروں اور قصبوں کی ایک ایک گلی ایک ایک گھر میں جہاد کے تذکرے تھے۔ ریڈیو اور اسٹوڈیو میں رزمیہ نغموں اور فیچر فلموں کے ڈھیر لگ رہے تھے، اخبارات و رسائل آگ اگلتے لمحوں کی داستانوں سے عبارت تھے۔ جنگ کے آغاز اور شاید پہلے گولے کے داغے جانے کے ساتھ ہی روزنامہ جنگ بھی صحافتی جنگ کے مورچے میں جم گیا۔
یہ جنگی عملہ اپنے کمان دار اعلیٰ میر خلیل الرحمن کے ان الفاظ کو نہیں بھولا ہوگا جب وہ 6ستمبر کی پہلی رات اور بلیک آئوٹ کے باعث نیم تاریک نیوز روم میں جو درحقیقت کسی اخبار کا دفتر نہیں سرحد پر بنا جنگی مورچہ ہی لگ رہا تھا اپنے مجاہدوں سے کہہ رہے تھے ’’دشمن نے بھر پور حملہ کیا ہے۔ یہ پاکستان کے لئے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے کیونکہ یہ حملہ اتفاقی، ہنگامی یا حادثاتی نہیں جو محدود ہو بلکہ دشمن کے اس ناپاک منصوبے کا حصہ ہے جو وہ گزشتہ اٹھارہ سال سے پاکستان کے خاتمے کے لئے بناتا رہا ہے۔
پاکستان کو پیغام تو موت کا ملا ہے مگر ہمیں اسے زندہ تر کرنا ہوگا۔یادرکھیئے آپ جتنے بڑے ہیں آپ کی ذمہ داری بھی اتنی ہی بڑی ہے۔ کوئی ایسی چھوٹی سے چھوٹی بات ضبط تحریر میں نہیں آنی چاہئے جس پر پاکستان اور قوم کو اقوام عالم اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کے سامنے شرمندہ ہونا پڑے۔‘‘ جنگ کے ایڈیٹر انچیف کا اشارہ ان بھارتی اخبارات اور غیر ملکی خبررساں ایجنسیوں کی جانب تھا جو جنگ کے پہلے ہی دن دشمن فوجوں کے لاہور میں داخلے اور اس پر کامیاب قبضے کی جھوٹی شہ سرخیاں دے رہے تھے۔
روزنامہ جنگ کراچی کے نیوز روم میں ادارتی عملے اور ساتھیوں سے اس مختصر مگر جامع خطاب کے بعد میرصحافت خود بھی میدان عمل میں اتر گئے۔ رن آف کچھ سے کشمیر تک اور راس کماری سے دریائے میگنا اور برہم پتر تک مغربی و مشرقی پاکستان کے طویل ترین محاذوں پر کیا ہو رہا ہے؟ پل پل اور لمحے بہ لمحے کئی مستند اطلاعات کے حصول کے لئے خود میرخلیل الرحمن پورے جوش و جذبے کے ساتھ چوبیس گھنٹے موجود رہتے تھے۔
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ سے لےکر ملکی و غیر ملکی آزاد ذرائع، جنگی وقائع نگاروں، محاذ پر موجود فوٹو گرافروں اور نامہ نگاروں سے ذاتی طور پر ان کے رابطے تھے۔ وہ محاذ جنگ کی خبروں اور تازہ ترین تصاویر کے حصول کے لئے اس قدر شدید اور بے چین رہتے کہ نہ اخراجات کی پروا کی نہ آرام کی، واضح رہے کہ 75 برس قبل ابلاغ کے ذرائع نہ تو اتنے برق رفتار تھے نہ اتنے آسان جس کا مشاہدہ آج قارئین کر رہے ہیں۔
لہٰذا وہ اس کرب کو بھی محسوس نہیں کر سکیں گے، نہ لفظوں میں اس کو بیان کیا جا سکتا ہے، جس سے گزر کر میر خلیل الرحمن (مرحوم) تازہ ترین مگر انتہائی مصدقہ اور محتاط خبروں ، تصاویر کے حصول اور اسے دنیا بھر میں روزنامہ جنگ کے لاکھوں قارئین تک پہنچانے کے لئے متحرک اور مصروف تھے۔
روزنامہ جنگ کا نیوز روم ایک طرح کا ’’وارروم‘‘ بنا ہوا تھا جہاں چوبیس گھنٹے کے ہر لمحے میر صاحب بنا کچھ کھائے پیئے اور آرام کئے محاذ جنگ سے آتی خبروں تصاویر اور مراسلوں کی چھان پھٹک میں مصروف دکھائی دیتے تھے۔ صفحہ اول سے صفحہ آخر تک ہر سطر ہر خبر، کالم، ادارتی شذرات اور قطعات ان کی نظروں سے گزرے بغیر شرف اشاعت حاصل نہیں کر سکتے تھے۔ محاذ جنگ سے دوری کے باوجود روز نامہ جنگ اپنے ہر اس سپاہی اور فوجی افسر کے ساتھ شانہ بشانہ تھا جو دشمن کی توپوں، محاذ سے اٹھنے والے دھوئیں اور گرد و غبار کے بادلوں سے اٹا مگر ڈٹا ہوا تھا۔
یوں تو ملک بھر کے چھوٹے بڑے نجی و سرکاری ذرائع ابلاغ محاذ جنگ کی صورتحال سے مقدور بھر قوم کو آگاہ کر رہے تھے مگر جو ولولہ اور جوش ریڈیو پاکستان کے نیوز ریڈر شکیل احمد نے اپنے صوتی اثرات سے قوم میں پھونکا تھا، وہی جوش و جذبہ میرخلیل الرحمن نے اپنے کمال ادارت سے بے جان لفظوں میں جان ڈال کر پیدا کر دیا تھا۔ جنگ ستمبر کے صفحات پر آج بھی نظر ڈالئے تو الفاظ بولتے محسوس ہوں گے۔ 75 برس پرانے اخبار جنگ کے بوسیدہ اور اق سے آج بھی وطن کی مٹی اور شہیدوں غازیوں کے لہو کی خوشبو اٹھتی محسوس ہوتی ہے وہ اس کے مدیر اعلیٰ اور ادارتی عملے کی وطن سے محبت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
روزنامہ جنگ اس معرکہ حق و باطل میں صحافتی محاذ پر فاتح اور سرخرو کس طرح ہوا؟ اس کا اندازہ اقوام متحدہ کے دفتر واقع اسلام اباد میں جنگ بندی کے بعد ملکی و غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے جنگی نامہ نگاروں کے اعزاز میں دی گئی ایک ضیافت میں ڈیلی ٹیلی گراف کے جنگی نامہ نگار ینز کے اعتراف سے لگایا جا سکتا ہے۔ جو خود بھی برطانوی فوج کا سابق میجر اور دوسری جنگ عظیم لڑ چکا تھا۔
اس نے کہا ’’ مسٹر خلیل آپ کے اخبار کے لئے تو جنگ نیا تجربہ تھی پھر اتنی مضبوط و مربوط ڈیسک کیسے بنالی جس نے متوازن اور مستند خبر کا عالمی معیار قائم کر دیا، جبکہ خود میرے اخبار کی پاک بھارت جنگ سے متعلق لگاتار پانچ خبریں حتی کہ تصاویر بھی جو ہمارے (ڈیلی ٹیلی گراف) کے دہلی بیورو نے ارسال کی تھیں جھوٹی اور بے بنیاد ثابت ہوئیں۔ میر صاحب (مرحوم) نے مسکرا کر صرف اتنا کہا ’’ہم حق پر تھے اور خدا ہمارے ساتھ ۔‘‘