مولانا محمد اعجاز مصطفیٰ
قرآن کریم، سنت نبویہ اور صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اجماع سے یہ بات سورج کی روشنی سے زیادہ واضح اور روشن ہوچکی ہے کہ حضور اکرم ﷺ اللہ تعالیٰ کے آخری نبی اور رسول ہیں، آپﷺ پر نازل ہونے والی وحی، آخری وحی، آپﷺ کی امت، آخری امت ہے۔ آپ ﷺکی صحبت میں بیٹھنے والوں کو صحابۂ کرامؓ، آپﷺ کے گھرانے کو اہل بیت عظام، آپﷺ کی ازواج مطہراتؓ کو امہات المومنین جیسے پاکیزہ اور مبارک لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ سوا چودہ سو سال سے امت مسلمہ میں یہی عقیدہ متواتر اور متوارث چلا آرہا ہے۔
تقریباً ایک صدی پیش تر برصغیر پاک و ہند میں برطانوی استعمار نے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے امت مسلمہ کے متفقہ اور اجماعی عقیدے ’’عقیدۂ ختم نبوت‘‘کے خلاف محاذ کھولا، مرزا غلام احمد قادیانی کو ’’منصب نبوت‘‘ پر فائز کیا، جس نے اسلام کے متوازی ایک نیا دین بنایا۔ نبوت محمدیہ کے مقابل ایک نئی نبوت، قرآن کریم کے متوازی نئی وحی، اسلامی شعائر کے متوازی قادیانی شعائر، امت محمدیہ کے متوازی نئی امت، مسلمانوں کے مکہ مکرمہ کے مقابلے میں نیا مکۃ المسیح، مدینۂ منورہ کے مقابلے میں مدینۃ المسیح، اسلامی حج کے مقابلے میں ظلی حج، اسلامی خلافت کے مقابلے میں قادیانی خلافت،امہات المومنینؓ کے مقابلے میں قادیانی ام المومنین، صحابۂ کرامؓ کے مقابلے میں قادیانی صحابہ کے القاب و نام تجویز کیےگئے۔
اس بات کی تصدیق،اسلام اور قادیانیت کا خلاصہ مرزا غلام احمد قادیانی کے بڑے بیٹے اور قادیانیوں کے دوسرے خلیفہ مرزا محمود احمد قادیانی نے ان الفاظ میں پیش کیا ہے:٭…’’حضرت مسیح موعود (مرزا غلام احمد قادیانی) کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ میرے کانوں میں گونج رہے ہیں، آپ نے فرمایا کہ یہ غلط ہے کہ دوسرے لوگوں سے ہمارا اختلاف صرف وفاتِ مسیح اور چند مسائل میں ہے۔ آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کی ذات،رسول اللہ ﷺ، نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، غرض کہ آپ نے تفصیل سے بتایا کہ ایک ایک چیز میں ان (مسلمانوں)سے اختلاف ہے۔‘‘(خطبہ جمعہ میاں محمود خلیفہ قادیان، مندرجہ الفضل، ۳۰؍ جولائی ۱۹۳۸ء)
قادیانیوں کےاس کردار کو دیکھتے ہوئے علامہ اقبال مرحوم نے اس وقت کی حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ قانونی طور پر انہیں مسلمانوں سے الگ اقلیت تسلیم کرے۔ ظاہر ہے انگریز نے جب خود اس پودے کو کاشت کیا تو وہ کیسے اسے اکھاڑ سکتا تھا۔ اس نے یہ مطالبہ نہ ماننا تھا اور نہ مانا۔ انگریز کے دورِ اقتدار میں قادیانی اپنے آپ کو مسلمان باور کراکر ہمیشہ مسلمانوں کی جاسوسی کرتے رہے، جو آج تک کررہے ہیں۔
قیامِ پاکستان کے بعدملکی حالات کمزور دیکھ کر قادیانیوں نے ایک بار پھر اپنی سرگرمیاں تیز کردیں اور سر توڑ کوششیں کیں کہ کسی طرح پورا پاکستان نہ سہی کم از کم تھوڑی آبادی والا صوبہ، صوبہ بلوچستان کو قادیانی اسٹیٹ بنادیا جائے۔ ان کی خلافِ اسلام کارروائیوں کو روکنے کے لیے 1953ء میں تحریک ختم نبوت چلائی گئی،جسے جبر و تشدد اور طاقت سے بظاہر کچل دیا گیا، لیکن اس تحریک نے علمائے امت کی قیادت میں ہر مسلمان کے دل میں ایمان اور حضوراکرم ﷺکی محبت اور غلامی کانقش قائم کردیا، جس کا نتیجہ تھا کہ 1974ء میں قادیانیوں کی اپنی شرارت کے نتیجے میں جب تحریک چلی تو خیبر سے کراچی اور لاہور سے کوئٹہ تک تمام مسلمان اپنے اتحاد، اتفاق اور ایک ہی مطالبے کی بناء پر یک جان اور ’’بنیان مرصوص‘‘ کی مثال پیش کررہے تھے۔
٭… مسلمانوں کی قیادت کی طرف سے مطالبہ تھا کہ تمام قادیانیوں (لاہوری گروپ ہو یا ربوی) کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے۔٭… پاکستان اسلامی ملک ہے۔ قادیانیوں کو اس ملک کے کلیدی عہدوں اور مناصب سے ہٹایا جائے۔٭… قادیانیوں کو ان کی خلاف اسلام سرگرمیوں سے روکا جائے اور اس کے سدباب کے لئے قانون بنایا جائے۔
3 جون 1974ء کو تمام مسالک کے علمائے کرام کا ایک نمائندہ اجتماع راول پنڈی میں منعقد ہوا، حکومت نے اسے ناکام بنانے کی اپنے تئیں پوری کوششیں کیں، لیکن اسے ناکامی ہوئی۔ 9 جون 1974ء کو لاہور میں اجتماع ہوا اور اس میں طے پایا کہ’’ہمارا یہ اجتماع اس وقت صرف ایک دینی عقیدے کی حفاظت کے لئے ہے۔ یہ اجتماع ’’ختم نبوت‘‘ کے مسئلے پر ہے۔ اس کا دائرہ آخر تک محض دینی رہے گا۔ سیاسی آمیزشوں سے اس کا دامن پاک رہنا چاہیے جو سیاسی حضرات اس میں شامل ہیں، ان کا مطمح نظر دین ہی ہوگا اور حزب اقتدار و حزب اختلاف کی کشمکش سے بالاتر ہوگا۔
ختم نبوت کی تحریک کا طریق کار نہایت پُرامن ہوگا اور اسے تشدد سے کوئی سروکار نہ ہوگا، اگر کوئی مزاحمت ہوئی یا تکلیف پیش آئی تو دین کے لئے اسے برداشت کرنا ہوگا اور صبر کرنا ہو گا۔ مظلوم بن کر رہنا ہوگا اور ہمارے مدمقابل صرف مرزائی قوم ہوگی۔ ہم حکومت کو ہدف بنانا نہیں چاہتے، اگر حکومت نے ان کی حفاظت یا ان کی حمایت میں کوئی غلط قدم اٹھایا تو اس وقت مجلس عمل کوئی مناسب فیصلہ کرے گی۔ ابھی قبل از وقت کچھ کہنا درست نہیں۔‘‘(ماہنامہ بینات کراچی،رمضان؍شوال1392ھ)
اسی اجتماع میں طے ہوا کہ 14جون 1974ء کو ملک میں مکمل ہڑتال ہوگی اور مرزائیوں کے مکمل بائیکاٹ کا فیصلہ کیا گیا۔21جون کو مجلس عمل کا اجلاس ہوا، اس میں وزیر اعظم کی تقریر پر غوروخوض کیا گیا اور طے کیا گیا کہ تحریک کو ہر ممکن پرُامن رکھنے کی کوشش کی جائے۔ قادیانیوں کا بائیکاٹ جاری رکھا جائے اور تحریک کو سول نافرمانی سے بہرصورت بچایا جائے۔ علمائے کرام نے پورے ملک کے دورے کئے، حکومت نے دفعہ 144 نافذ کردی،اس تحریک کے قائد علامہ سیّد محمد یوسف بنوریؒ تھے۔ 31جولائی 1974ء کو وزیر اعظم نے مستونگ (بلوچستان) میں اعلان کیا کہ قادیانی مسئلے کے فیصلے کی تاریخ کا اعلان کردیا جائے گا،چناں چہ فیصلے کے لیے 7ستمبر 1974ء کی تاریخ کا اعلان ہوا۔
قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی نے اس مسئلے پر غور کرنے کے لیے دو ماہ میں اٹھائیس اجلاس کیے اور چھیانوے گھنٹے نشستیں کیں۔ مسلمانوں کی طرف سے ’’ملت اسلامیہ کا موقف‘‘ نامی کتاب پیش کی گئی، یوں یہ مسئلہ پوری قومی اسمبلی کے اراکین کے اتفاق سے حل ہوا اور قادیانیوں کو ان کے دیے گئے اپنے بیانات کی روشنی اور ان پر کی گئی جرح کے نتیجے میں (خواہ لاہوری گروپ ہو یا ربوی) غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا۔اب قومی اسمبلی کی تمام تر کارروائی الحمدللہ! عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت نے چھاپ کر تمام مسلمانوں کی طرف سے فرض کفایہ ادا کردیا ہے، جسے ہر مسلمان کوپڑھنا ضروری ہے، بلکہ قادیانی بھی ایک بار اسےضرور پڑھ لیں، تاکہ انہیں بھی تمام حقائق سے آگاہی ہو۔
اب ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی پارلیمنٹ کے اس فیصلے کو نئی نسل اس مسئلے کی اصل حقیقت، وجوہات، اسباب، قادیانیوں کے عقائد، ان کا دجل و فریب اور ان کی سازشوں کا علم نہیں، انہیں مثبت حکمت، دانائی سے بھرپور علمی اور تبلیغی انداز میں یہ سب بتانے کی ضرورت ہے، بلکہ اس سے بڑھ کران کی نئی نسل کو بھی اس بارے میں آگاہ کرنا ہم سب کی مشترکہ ذمے داری ہے ،تاکہ کل بروز قیامت یہ نہ کہہ سکیں کہ ہمیں تو کسی نے اصل عقائد سے روشناس ہی نہیں کرایا تھا تو ہمارے پاس اس کا کیا جواب ہوگا؟ اس لیے تمام مسلمان بالخصوص علمائے کرام اور مساجد کے ائمہ اور خطبائے عظام کی بڑی ذمہ داری بنتی ہے کہ مسلم عوام کو عقیدئہ ختم نبوت کی اہمیت، ضرورت کے بارے میں آگاہ کریں۔ عقیدئہ ختم نبوت کے تحفظ کے بارے میں بیدار کریں اور عقیدۂ ختم نبوت کی اہمیت سے انہیں آگاہ کریں۔