• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عمران طاقت اورفساد کے ذریعے اقتدار میں آنا چاہتے ہیں، پرویزرشید

لاہور( جنرل رپورٹر،اےپی پی) وفاقی وزیراطلاعات و نشریات سینیٹر پرویزرشید نے کہا ہے کہ عمران خان طاقت  اور فساد کے ذریعے اقتدار میں آناچاہتے ہیں، ان کی سیاست سے دہشتگردوں کی حوصلہ افزائی ہوگی، ہم فرقہ واریت ،لسانیت سمیت مختلف چیلنجز سے مل کر ہی نمٹ سکتے ہیں ۔انھوں نے کہا کہ بھارت کی انٹیلی جنس ایجنسی کا پاکستان کو پٹھان کوٹ واقعہ میں کلین چٹ دینا وزیر اعظم نواز شریف کی حکمت عملی کا نتیجہ ہے ، خارجہ پالیسی چلانے کے حوالے سے حکومت اور اسٹیبلشمنٹ میں کسی قسم کی کوئی تفریق مو جود نہیں  تنگ نظری کی سیاست ٹکرا ئو کاباعث بنتی ہے ،انتہا پسندانہ سوچ کے خاتمے کے لئے نظریاتی ضرب عضب کی ضرورت ہے،اپوزیشن کے ٹی اوآرز ماننے تھے تو پھر کمیٹی بنانے کا کیا فائدہ، میڈیا کو تصادم کی فضا ء سے باہر نکل کر قومی یکجہتی کے عوامل کو فرو غ دینے اور اختلافات کو مفاہمت کی فضا ء کے ذریعے ختم کرنے کیلئے آگے بڑھ کر کردار ادا کرنا چاہیے۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے گزشتہ روز لاہور پریس کلب اور بہاولپور پریس کلب کے اشتراک سے ’’ پیس جرنلزم‘‘پرتربیتی ورکشاپ سے خطاب کے دوران کیا۔پرویز رشید نے کہا کہ سال 2017ء انتخابات کی تیاری کا سال ہے جس میں صرف 6ماہ رہ گئے ہیں ، اگر عمران خان 6مہینے بھی صبر نہیں کر سکتے تو اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ انتخابات میں اپنی شکست دیکھ رہے ہیں ، اس لیے وہ انتظار نہیں کر سکتے کیونکہ انہیں یقین ہے کہ وہ عوامی رائے سے اپنی پارٹی کو اکثریت نہیں دلوا سکتے بلکہ صرف طاقت کے زور پر اسلام آباد پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ  عمران خان احتجاجی دھرنوں کے نام پر ملک میں انتشارپیدا کر کے دہشت گردوں کو حوصلہ دیں گے اور سرمایہ کا روں کی حوصلہ شکنی کریں گے تووہ قوم کو جواب دیں کہ ایسا کر کے وہ ملک کا کیا فائدہ کر رہے ہیں؟ ۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن جماعتوں کی ضد ہے کہ ان کے تمام ٹی او آر قبول کر لیے جائیں لیکن اگر انہی کے تمام ٹی اوآرز قبول کرنے ہیں تو پھر کمیٹی بنانے کا کیا مقصد ہے ، کمیٹی بنانے کا مقصد صرف ایک طرف کا نہیں بلکہ دونوں اطراف کے موقف سننا ہے ۔انہوں نے کہا کہ بھارتی وزیراعظم کو نواز شریف نے فون نہیں کیا بلکہ بھارتی وزیر اعظم نے میاں نو از شریف کو فون کیا اور یہ معمول کا حصہ ہے کہ ایک ملک کے وزیراعظم دوسرے ملک کے وزیراعظم کا حال احوال دریافت کر تے رہتے ہیں۔پرویز رشید نے مزید کہا کہ بھارت کی انٹیلی جنس ایجنسی کا پاکستان کو پٹھانکوٹ واقع میں کلین چٹ دینے کا کریڈٹ نو ازشریف کو دیاجا نا چاہیے کیونکہ نو از شریف کی حکمت عملی کے باعث داغ لگانے والوں نے خود ہی وہ داغ دھو ڈالا کیونکہ اگر نو از شریف بھارت کو یہ پیشکش نہ کرتے کہ آئیں مل کر تحقیقات کریں اور چاہے پاکستان کی طرف سے بھی کوئی ملوث پایا گیا تو اس کے خلاف بھی کارروائی کی جائے تو آج بھارت کی جانب سے ہمیں کسی صورت اس معاملے میں کلین چٹ نہ ملتی جس طرح وزیراعظم دوسرے ممالک کے ساتھ خارجہ پالیسی کے معاملات کو حل کر تے ہیں اور طے کر تے ہیں خارجہ پالیسی کو چلانے کیلئے یہی ایک درست طریقہ اور حکمت عملی ہے، خارجہ پالیسی چلانے کے حوالے سے حکومت اور اسٹیبلشمنٹ میں کسی قسم کی کوئی تفریق مو جود نہیں۔ ایک سوال کے جواب میں پرویز رشید نے کہا کہ سب سے پہلے پنجا ب ہی تھا کہ جس نے معلومات تک رسائی کے حق کو تسلیم کیا اس میں مزید آسانیاں پیدا کر نے کیلئے لاہور پریس کلب اور پنجاب انفرمیشن کمیشن کے اشتراک سے تربیتی ورکشاپ  کر وائی جانی چاہئیں تاکہ صحافیوں کو اس قانون اور اس کے استعمال سے زیادہ سے زیادہ آگاہی حاصل ہو اور وہ اس سے بھرپور فائدہ اٹھا سکیں ۔ انہو ں نے کہا کہ میڈیا کو تصادم کی فضا ء سے باہر نکل کر قومی یکجہتی کے عوامل کو فرو غ دینے اور اختلافات کو مفاہمت کی فضا کے ذریعے ختم کرنے کیلئے آگے بڑھ کر کردار ادا کرنا چاہیے ، صحافت کو تصادم اور فرقہ واریت ختم کرنیوالے حکومتی اداروں کا ساتھ دینا چاہیے ،صحافت معاشرتی ہم آہنگی کو فروغ دینے کیلئے اپنا کر دار ادا کر ے کیونکہ نظریاتی ہم آہنگی کے بغیر ٹکرائو کو ختم نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی امن کا قیام ممکن ہے جس طرح سے ضرب عضب کے ذریعے دہشت گردوں کے انفراسٹرکچر کو ختم کیا گیا بالکل اسی طرح سے ایک نظریاتی ضرب عضب کی ضرورت ہے جو انتہاپسندی کی سوچوں کوختم کر ے گا۔ پرویزرشید نے مزید کہا ہے کہ صحافی کارکنوں کے معاشی مسائل حل کرنے کیلئے ہم بہت جلد ویج بورڈ کا اعلان کر رہے ہیں اگر اخبارات اور نیوز چینلز کے مالکان اس کیلئے اپنے نمائندے مقرر نہیں بھی کر یں گے تو بھی ہم ویج بورڈ کا اعلان کر دیں گے۔اس موقع پر انٹر نیشنل اسلامک یونیورسٹی کے ڈین پروفیسر ڈاکٹر ظفر اقبال، ڈاکٹر مجاہد منصوری، صدر لاہور پریس کلب  شہباز میاں اور نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے سینئر وائس پریزیڈنٹ آصف علی بھٹی نے شرکت کی۔ ورکشاپ کا مقصد معاشرے میں بڑھتے ہوئے انتشار میں جرنلسٹ کمیونٹی کا کردارتھااپنے خطاب میں صدرمحمد شہبازمیاں نے کہا کہ غیر جانبدار اور ذمہ دارصحافت اور میڈیا عوام میں اعتماد پیدا کرکے غلط فہمیوں کا ازالہ کرتاہے اور اس میں تنازعات کے حل اور معاشرے کو مسائل سے بچانے کی اہلیت موجود ہوتی ہے، سول سوسائٹی، حکومت اور تعلیمی ادارے معاشرے کے مثبت پہلوئوں کو اجاگر کرنے ٗ معلومات کے تبادلے اور اخلاقی صحافت کے فروغ میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں" ۔ کالم نگار ڈاکٹر مجاہد منصوری نے کہا کہ  صحافیوں کو چاہیے کہ وہ پر تشدد واقعات کو ہوا دینے کی بجائے ذمہ دارانہ رپورٹنگ کریں اور یہ اُسی صورت میں ممکن ہے جب آپ امن کے اقدامات کی کوریج کریں تاکہ پر تشدد واقعات کی صورت میں میڈیا کے منفی کردار کو کم کیا جاسکے ۔ صحافی آصف علی بھٹی نے کہا کہ " سماجی رویوں پر بڑھتے ہوئے میڈیا کے اثر و رسوخ کو مدِّنظر رکھتے ہوئے صحافیوں کی استعداد کار میں بہتری سے میڈیامیں ایسے کلچر کو فروغ دینے کی ضرورت ہے جس میں دوسروں کو اپنی رائے دینے کا موقع ہو۔ میڈیا سے وابستہ افراد کی سماجی ذمہ داری کی رو سے شعبہ جاتی تربیت کے ذریعے میڈیاکو جواب دہ بنایا جاسکتا ہے ۔بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے میڈیا سٹدیز ڈیپارٹمنٹ کے چئیر مین ڈاکٹر ظفر اقبال نے کہاکہ لاہور پریس کلب اور بہاولپور پریس کلب مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے استعداد کار کی بہتری کے اس عمل میں بہاولپور کے صحافیوں ، رپورٹرز، ایڈیٹرز اور تعلیمی اداروں سے وابستہ افراد کو مل بیٹھنے کا موقع فراہم کیا ۔اس موقع پر صدر محمد شہباز میاں نے وفاقی وزیر پرویز رشید کو شیلڈ بھی پیش کی اور ٹریننگ ورکشاپ کے شرکاء کی کھانے سے تواضع بھی کی گئی۔  علاوہ ازیں  نیشنل سکول آف پبلک پالیسی میں 104 ویں نیشنل مینجمنٹ کورس کے زیر تربیت افسران سے خطاب کرتے ہوئےوفاقی وزیر اطلاعات و نشریات و قومی ورثہ سینیٹر پرویز رشید نے کہا ہے کہ بحیثیت قوم ہم نے ماضی میں تجربوں،المیوں اور حادثوں سے بہت کچھ سیکھا ہے، ہماری کوشش ہے کہ آنیوالی نسلیں ان حادثوں اور المیوں کا شکار نہ ہوں،وطن عزیز میں دہشت گردی کا جو نظریہ جنم لے چکا ہے اس کو ختم کرنے کیلئے ایک نظریئے کی ضرورت ہےوہ نظریہ یہ ہے کہ ہم اپنے نصاب میں بچوںکو جو تعلیم دیں وہ تنگ نظری سے پاک ہو، اس میں رواداری سکھائی جائے اور اپنے بچوں کو قائل کیاجائے کہ پاکستانی ہونا،انسان ہونا اور کسی عقیدے کا پیرو کار ہونا اس میں کوئی فرق نہیں،ہمیں چاہئے کہ جو کردار ہم اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کیلئے ادا کرنا چاہتے ہیں وہی دوسرے کے تحفظ کیلئے بھی کردار ادا کریں۔  اس موقع پر ڈین نیشنل سکول آف پبلک پالیسی نعیم اسلم،سی ای او پاکستان پیس کلیکٹیو بشریٰ تسکین بھی موجود تھیں۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ کمیونیکیشن ایک ایسا ہتھیار ہے جس سے آمریتیں بھی ڈرتی ہیں لیکن جمہوریتیں اس سے نہیں ڈرتیں بلکہ اسے بہتری کیلئے استعمال کرتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم جمہوری طرز فکر کے ساتھ ساتھ کمیونیکیشن کے آرٹ کو استعمال کریں جو اسی صورت میں کر سکتے ہیں جب ہمارے پاس سچائی کا عنصر ہو اور یہ سچائی نہیں کہ ڈرون تو ہماری خود مختاری اور سلامتی کی نفی کرتا ہے اور کیا غیر ملکی دہشت گردوں کی مذموم کارروائیاں ہماری خود مختاری کی نفی نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم آج جس صورتحال سے دوچار ہیں شاید اس میں ماضی کی پالیسیوں کا بھی بہت زیادہ دخل ہے۔ بعدازاں وفاقی وزیر نے نیشنل مینجمنٹ کورس کے شرکاءمیں سرٹیفکیٹس تقسیم کئے۔  
تازہ ترین