پاکستان اور ایران شروع ہی سے نہ صرف اچھے ہمسائے چلے آ ر ہے ہیں بلکہ دونوں کے درمیان جو تجارتی تعلقات قائم ہیں ان کے تحت موجودہ تجارتی حجم اپنی گنجائش سے بہت کم ہے جسے بڑھانے کیلئے دونوں ملکوں کے درمیان اب تک کئی بار وفود کا تبادلہ ہو چکا ہے۔ 2006ء میں ایک تجارتی معاہدے پر دونوں ملکوں نے وزارتی سطح پر دستخط کئے تھے بعدازاں 2016ء میں دو طرفہ تجارت 30کروڑ ڈالر سے بڑھا کر اسے 2021ء تک 5ارب ڈالر پر لے جانےپر اتفاق ہوا تھا تاہم مقررہ مدت میں یہ ہدف پورا نہ ہو سکا اور گزشتہ برس نومبر میں تہران میں ایک بار پھر وزارتی سطح پر پاکستانی تجارتی وفد کے دورے کے موقع پر متذکرہ مدت میں دو سال کا اضافہ کیا گیا۔ اطلاعات کے مطابق پاکستان میں ایران کے سفیر سید محمد علی حسینی نے اتوار کے روز میڈیا کو دونوں ملکوں کے درمیان ہونے والی پیشرفت سے آگاہ کرتے ہوئے باہمی تجارت آئندہ برس پانچ ارب ڈالر کی سطح پر لے جانے کے عزم کو دہرایا ہے۔ یہ ایک خوش آئند صورتحال ہے اور اس میں اب مزید تاخیر نہیں ہونی چاہئے کیونکہ اس میں پاکستان کیلئے توانائی کے حصول کے بعض منصوبے شامل ہیں جو گزشتہ 12برس سے التوا میں پڑے ہیں۔پاکستان پہلے ہی ایران کی ضرورت کا 63فیصد چاول اسے بھیج رہا ہے اور ایران کو 309اور پاکستان کو 338ٹیرف لائنوں پر رعائتیں حاصل ہیں تاہم دو نئے کراسنگ پوائنٹ کھولے جانے کے باوجود تجارتی حجم آگے بڑھانے میں بعض رکاوٹیں حائل ہیں جن میں سرفہرست اسمگلنگ ہے جو سرکاری اہلکاروں کی شمولیت کے بغیر ناممکن ہے اور وہ سرمایہ جو ٹیکسوں کی شکل میں دونوں ملکوں کے قومی خزانے میں جانا چاہئے بدعنوانی کی نذر ہو رہا ہے۔ پاکستان اور ایرانی حکام کو اس اہم مسئلے پر بلاتاخیر غور و خوض اور باہمی تجارت میں حائل رکاوٹیں دور کرنے کے اقدامات کرنے چاہئیں۔
اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998