• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اب بھی کیا کوئی شک رہ گیا ہے کہ اتحادی جماعتوں کے متفقہ رہ نما اور پاکستان کے وزیر اعظم میاں شہباز شریف پاکستان کی تاریخ کے ’ بے بس ترین ‘ وزیرعظم کااعزاز حاصل کرچکے ہیں اور انہوں نے اس کا برملا اعتراف بھی کھلے عام کرکے قوم کی یہ غلط فہمی دور کردی ہے کہ پاکستان میں آنے والے یا لائے جانے والے حکمران طاقتور ہوتے ہیں۔عالمی برادری میں ہمارا سر اگر اب تک شرم سے مسلسل جھکا ہوا ہے تو اس کی وجہ صرف اور صرف ہمارے حکمران ہیں ورنہ قوم کے پیر و جواں تو عالمی سطح پر مختلف شعبوں میں آئے روز ملک و قوم کا سر فخر سے بلند کررہے ہیں ۔یہ ہمارے وزیر اعظم ہی ہیں کہ انہوں نے اپنے وزیر خزانہ کے جھانسے میں آکر ملک کو عالمی سود خور ادارے آئی ایم ایف کے ہاتھوں گویاگروی رکھ دیا ہے ۔ بجلی اس لئے سستی نہیں کی جاتی کہ بیرونی آ قا ناراض نہ ہوجائیں ،معاہدہ جو کررکھا ہے کہ اس مہنگائی کی ماری ہوئی قوم سے آخری نوالہ بھی چھین کر قرضے کی اقساط ادا کی جائیں گی۔ قوم جسم پر پتے باندھ کر اور گھاس کھاکر گزارہ کرلے گی لیکن حکمرانوں کی عیاشیاں اور شاہ خرچیاں کم نہیں ہوںگی۔ پہلے قوم نے گھاس کھاکر اور اپنا پیٹ کاٹ کرایٹمی قوت حاصل کی اور سارے دشمنوں سے مملکت خداداد پاکستان کو ہمیشہ کیلئے محفوظ بنایا آج ایک بار پھر اپنی بقااور سانس کا رشتہ برقرار رکھنے کے لئے آئی ایم ایف کے ہتھے چڑھادی گئی ہے۔ قربانی ہمیشہ قوم سے مانگی جاتی ہے خود حکمرانوں کی سفاکیت اور خود غرضی کا عالم یہ ہے کہ حالیہ سیلاب کی بدترین تباہ کاریوں میں ملک کی گزشتہ آدھی صدی سے اقتدار میں باریاں لے کر آنے جانے والی قیادت نے، جو بلاشبہ ذاتی طور پر کاروباری شخصیات ہیں جو غالباً ارب کھرب پتی ہوچکی ہیں، روتے بلکتےسسکتے ،ڈوبتے تیرتے اور جیتے مرتے متاثرین سیلاب کی مدد کے لئے اپنے قارونی خزانوں سے ایک روپیہ بھی عطیہ نہیں کیا ۔ کس قدر ظلم ہے کہ ساری دنیا سے امداد مانگی جارہی ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل میڈیا رپورٹس دیکھ کر تڑپ اٹھے، پاکستان کی راہ لی، دو دن قیام کیا اور عالمی برادری سے اسلام آباد اور کراچی میں کھڑے ہوکر امداد کی اپیل کی لیکن تف ہے پاکستان کی سیاسی منافقت اور گھٹیا سیاست پر کہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے ہزاروں حربے اور ہتھکنڈے آزمائے جارہے ہیں جس سے ملک میں سیاسی تعفن بڑھ رہا ہے ۔

سیاسی جماعتوں کی اتحادی حکومت کے روح رواں وزیراعظم شہباز شریف نے چند روز قبل اتحادیوں کے اجلاس سے خطاب میں کہا کہ چھینک بھی مارنی ہو تو آئی ایم ایف سے پوچھنا پڑے گا، کتنی بدقسمتی ہے کہ آپ فیصلہ کرنے کے لیے آزاد نہیں ہیں۔ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے پر انہوں نے کہا کہ مجبوری میں قیمتوں میں اضافہ کرنا پڑا۔وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت پارٹی کے ارکانِ قومی و صوبائی اسمبلی کا اہم اجلاس ہوا جس میں وزیراعظم نے 300یونٹ تک فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز ختم کرنے کا اعلان کیا۔انہوں نے کہا کہ اس سے ملک میں بجلی کے 75 فیصد صارفین کا احاطہ ہو جائے گا، اس سے قبل یہ استثنیٰ 200یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والوں کے لیے تھا۔اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے شہباز شریف نے پھر اظہار بے بسی سے ارکان سے کہا کہ حتیٰ کہ بجلی کے فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز کے لیے بھی آئی ایم ایف سے پوچھنا پڑا کہ ہم یہ کر رہے ہیں کہ کہیں آئی ایم ایف ہمارا حقہ پانی بند نہ کر دے،پھر موصوف نے مزیدفرمایاکہ مارچ میں جو بجلی مہنگی بنی اس کا بل دو ماہ بعد ماہ مئی میں بڑھایا گیا جون اور جولائی میں وصول کیا گیا ، جس سے عام آدمی پر بوجھ پڑا۔ اب جو فیصلہ کیا ہے تین سو یونٹ والا اس سے ملک کے 75 فیصد صارفین ایف اے سی سے مستثنیٰ ہو گئے ہیں۔

ملاحظہ کیا آپ نے وزیر اعظم کا اعترافِ حقیقت کہ وہ کتنے اعتماد سے سب کچھ بلا کم و کاست بیان فرمارہے ہیں ۔جہاں تک تین سو یونٹ’ معاف ‘ کرنے کا معاملہ ہے اس پر عملدرا ٓمدنہیں کیا بلکہ مزید فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز ہر ماہ دھڑلے سے اینٹھنے کا عندیہ دے دیا ہے، عدالتی احکامات بھی پس پشت ڈال دیے گئے ہیں ۔ رہ گئی پٹرول کی قیمت میں کمی بیشی تو کمی نہیں البتہ بیشی جاری ہے کیونکہ آئی ایم ایف سے معاہدے کی ایک شرط میںٹیکس لیوی ختم یا کم نہ کرنے کی بھی یقین دہانی کرائی گئی تھی سو جو لکھ کر دیا ہے اس کے ایک ایک حرف پر مکمل عملدرآمد کو حکومت نے حرز ِجاں بنارکھا ہے شدو مد سے عوام کا پیٹ کاٹ کر اور ان کی چیخیں نکلواکر ہر صورت میں اس معاہدے کی پاسداری کی جائے گی ۔ سب جانتے ہیں کہ گھر کا بجٹ بھی بنایا جاتا ہے تو ہر ماہ مہنگائی کی وجہ سے قرض پکڑنا پڑتا ہے یہ تو جہازی سائز کی حکومت کا خرچہ چلانے کا معاملہ ہے ورنہ سب ہی جانتے ہیں کہ بھاری سودی قرضے سے صرف اخراجاتِ جاریہ پورے کئے جاتے ہیں اور قوم انہیں سود سمیت واپس کرتی ہے یہ سلسلہ کئی دہائیوں سے جاری ہے اورشاید اسی طرح چلتا رہے گا کیونکہ نہ تو کوئی شوکت عزیز اس وقت حکومت میں ہے جو آئی ایم ایف کو ’گڈ بائی‘ کہہ دے نہ ہی کوئی اسحاق ڈار ہے جو ڈالر کو قابو میں رکھ کر عوام کی ٹوٹتی سانسیں بحال کرسکے ۔ ہمیں اگراپنے پائو ں پر کھڑے ہونا ہے تو یہ آئی ایم ایف کا آخری پروگرام ہونا چاہیے۔ کوئی موصوف کو بتائے کہ قوم مر رہی ہے ،سیلاب میں ڈوب بھی رہی ہے اور محنت کرکے آگے بڑھنے کی کوشش بھی کررہی ہے لیکن اس کے پاؤں سے پہلے آئی ایم ایف کی غلامی کی زنجیر تو کھلوائیں۔

تازہ ترین