• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گفتگو: فرخ شہزاد ملک،کوئٹہ

تصاویر: رابرٹ جیمس

کھیل کوئی بھی ہو، جسمانی صحت و تن درستی کے لیے گویا اکسیرکی حیثیت رکھتا ہے۔ اسی ضمن میں معروف قول ہے کہ ’’جہاں کھیل کے میدان آباد ہوں، وہاں اسپتال ویران، اور جہاں کھیل کے میدان ویران ہوں، وہاں اسپتال آباد ہوتے ہیں۔‘‘ اسی طرح ایک اور کہاوت ہے کہ’’ دماغ بھی اُسی کا صحت مند ہوتا ہے، جس کا جسم مضبوط اور توانا ہو۔‘‘ کھیلوں کا صرف یہی فائدہ نہیں کہ جسم تن درست و توانا رہتا ہے، بلکہ ان کے ذریعے نوجوان جو تربیت حاصل کرتے ہیں، وہ پھر آئندہ زندگی میں بھی اُن کے لیے مشعلِ راہ بنتی ہے۔ 

کھیل کود کے ذریعے نہ صرف خود اعتمادی میں اضافہ ہوتا ہے، بلکہ ایک مشترکہ نصب العین کی خاطر تگ و دو کا جذبہ بھی جنم لیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک صحت مند معاشرے کی تعمیر کے لیے نصابی تعلیم کے ساتھ غیر نصابی سرگرمیوں پر بھی بہت زور دیا جاتا ہے۔ کھیل خواہ اِن ڈور ہوں یا آؤٹ ڈور، صحت پر مثبت اثرات ہی مرتّب کرتے ہیں، لہٰذا ہر شخص کو اپنی جسمانی و دماغی صحت برقرار رکھنے کے لیے آئوٹ ڈور یا اِن ڈور گیمز ضرور کھیلنے چاہئیں۔ 

اِن ڈور کھیلوں میں شطرنج، لوڈو، کیرم، اسکواش، اسنوکر، ٹیبل ٹینس، اسکریبل وغیرہ شامل ہیں، جن سے دماغی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے، جب کہ آؤٹ ڈور کھیلوں یعنی کرکٹ، فٹ بال، باسکٹ بال، والی بال، ٹینس اور بیڈمنٹن وغیرہ سے جسم چُست و توانا، لچک دار اور پُھرتیلا ہوجاتا ہے اور پھر ان کھیلوں میں کی جانے والی محنت و مشقّت سے انسان ہمہ وقت چاق چوبند رہتا ہے۔ 

یہی وجہ ہے کہ دنیا کی تمام تر ترقی یافتہ قومیں کھیلوں کو خصوصی اہمیت دیتی ہیں۔ وطنِ عزیز کے بھی لگ بھگ تمام ہی صوبوں نے مختلف کھیلوں کے ایسے ایسے کھلاڑی پیدا کیے کہ جنہوں نے دنیا بھر میں قومی پرچم بلند کیا۔ بلوچستان کی بات کی جائے، تو یہ دھرتی بھی ہر دَور میں مختلف کھیلوں کے حوالے سے بہت زرخیز رہی ہے،خصوصاً فٹ بال، ہاکی اور تن سازی کے کئی ایسے کھلاڑی پیدا ہوئے، جنہوں نے نامساعد حالات اور محدود وسائل کے باوجود مُلکی و بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے مُلک کا نام روشن کیا۔  

ایسے ہی کھلاڑیوں میں ایک نام، ’’ووشو مارشل آرٹ‘‘ کے قومی چیمپئن، 24سالہ شاہ زیب رند کا بھی ہے، جن کا شمار مارشل آرٹ کے چیمپئن کھلاڑیوں میں ہوتا ہے۔ انھوں نے 8سال کی عُمر میں مارشل آرٹ کی مشق شروع کی اور انتہائی کم عمری میں نہ صرف قومی ٹیم تک رسائی حاصل کی، بلکہ بین الاقوامی سطح پر منعقدہ مقابلوں میں بھی شان دار کام یابی حاصل کرکے قوم کا سَر فخر سے بلند کردیا۔ گزشتہ دنوں ہم نے جنگ، سنڈے میگزین کے لیے بطورِ خاص ’’ووشو مارشل آرٹ‘‘ میں مسلسل کام یابیوں اور شان دار فتوحات کے جھنڈے گاڑنے والے شاہ زیب رند سے تفصیلی گفتگو کی، جس کا احوال نذرِ قارئین ہے۔

نمائندہ جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے
نمائندہ جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے 

س: سب سے پہلے تو ’’ووشومارشل آرٹ‘‘ سے متعلق بتائیں کہ یہ زیادہ تر کن ممالک میں کھیلا جاتا ہے؟

ج: ووشو دراصل چینی مارشل آرٹ کا ایک مقبولِ عام کھیل ہے، اسے چائنیز کِک باکسنگ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ کھیل پوری دنیا میں کھیلا جاتا ہے اور اولمپک گیمز میں بھی شامل ہے۔

س: آپ کو اس کا شوق کیسے ہوا۔ نیز، اب تک کتنے ٹائٹل جیت چکے ہیں؟

ج: میرے بڑے بھائی بالاج مسعود بھی ووشو مارشل آرٹ کے کھلاڑی ہیں، انہیں دیکھ کر ہی میری بھی اس کھیل میں دل چسپی پیدا ہوئی۔ مَیں 8سال کی عمر سے مارشل آرٹ کررہا ہوں۔ ابتدا میں ینگ ٹائیگرز اکیڈمی سے تربیت حاصل کی۔ بعدازاں، بلوچستان کی ٹیم میں شامل ہوا اور صوبے کے تحت منعقدہ چیمپئن شپس میں لگاتار 9سال تک کام یاب ہوتا رہا۔ اس کے بعد آل پاکستان جونیئر ووشومارشل آرٹ میں مسلسل کئی سال تک ناقابلِ شکست رہنے کے بعد نیشنل چیمپئن کا اعزاز حاصل کیا۔ نتیجتاً جلد ہی واپڈا کی جانب سے ملازمت مل گئی۔ 

وہاں بھی گزشتہ سات سال سے لگا تار قومی چیمپئن کا اعزاز میرے پاس ہے۔ مَیں اپنے کوچز میں ناصر حفیظ، اعجاز بٹ اور مراتب علی کا خصوصی شُکرگزار ہوں کہ انھوں نے میری جس طرح ٹریننگ کی، آج تک اُسی سے استفادہ کررہا ہوں اور 2015ء سے پاکستانی قومی ٹیم کا حصّہ ہوں۔ نیز، والدین کی دعائوں کی بدولت اب تک کئی ٹائٹل جیت چکا ہوں۔ مَیں نے ’’جنوبی ایشیا ووشو چیمپئن شپ‘‘ میں برانزمیڈل، ’’پیرس کپ‘‘ میں سلور اور ’’ورلڈ پیرس کپ‘‘ میں بھی سلور میڈل حاصل کیا۔ یہ مقابلے مختلف اوقات میں ایران میں منعقد ہوئے۔ اسی طرح لاہور میں منعقدہ پاکستان، ایران اور افغانستان کے مابین ’’تھری نیشن‘‘ ایونٹ میں بھی گولڈ میڈل حاصل کیا۔ آذر بائیجان میں منعقد ہونے والے اسلامک گیمز میں برانز میڈل، نیپال میں منعقدہ سیف گیمز میں سلور میڈل حاصل کیا، جب کہ پروفیشنل ون چیمپئن شپ، سنگاپور کا بھی فاتح رہا۔ 

نیز، ویت نام میں ہونے والی پروفیشنل چیمپئن شپ کا فائنل برابر کیا تھا۔ رواں برس کے آخر میں منعقد ہونے والی امریکن لیگز کے فائٹ مقابلے میں پاکستان کی جانب سے شرکت کا خواہش مند ہوں، لیکن اخراجات اٹھانے کا متحمّل نہیں ۔سو، اس کے لیے ذاتی طور پر ہی کوششیں کررہا ہوں کہ فی الحال حکومت یا کسی بھی ادارے نے اب تک کوئی تعاون نہیں کیا۔ 

تاہم، امریکن جِم کی مینجمنٹ اس کے لیے امریکا میں چندہ جمع کررہی ہے۔ اگر مطلوبہ رقم جمع ہوگئی تو پاکستان کی نمائندگی کرسکوں گا۔ واضح رہے کہ اب تک کسی بھی پاکستانی کھلاڑی کو امریکن لیگ میں شرکت کا موقع نہیں ملا، تو اگر مجھے یہ موقع مل گیا تو اس لیگ میں کھیلنے والا مَیں پہلا پاکستانی کھلاڑی بن جائوں گا، جو یقیناً ملک و صوبے کے لیے باعثِ فخر و افتخار ہوگا۔

س: روزانہ کتنے گھنٹے پریکٹس کرتے ہیں؟

ج: روزانہ پریکٹس کے لیے مَیں نے باقاعدہ شیڈول بناکے رکھا ہے، جس پر سختی سے عمل پیرا رہتا ہوں۔ مجموعی طور پر دن بھر میں پانچ گھنٹے پریکٹس کرتا ہوں۔ نمازِ فجر کے بعد دو گھنٹے اور شام کو تین گھنٹے اس مَد میں صرف کرتا ہوں۔

س: پاکستان میں ووشو مارشل آرٹ کا مستقبل کیا دیکھتے ہیں؟

ج: ملک میں اس کھیل کا بہت زیادہ ٹیلنٹ موجود ہے، جسے صرف پالش کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر حکومتی سطح پر باصلاحیت کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کی جائے، تو ملک میں اس کھیل کا مستقبل بہت روشن ہے۔اس حوالے سے میں کوئٹہ کے وسیم کی مثال دینا چاہوں گا، جو مارشل آرٹ میں ورلڈ چیمپئن بننے کے بعد آج پورے پاکستان کا نام روشن کررہے ہیں۔

س: حکومتی سرپرستی کی کیا صورتِ حال ہے؟

ج: میرے پورے اسپورٹس کیریئر کے دوران حکومت کی جانب سے کبھی قطعاً کوئی سرپرستی نہیں کی گئی، حالاں کہ حکومت کو باصلاحیت کھلاڑیوں کی بھرپور سرپرستی اور معاونت کرنی چاہیے تاکہ وہ بہتر انداز میں نمائندگی کرکے ملک کے عزت و وقار میں اضافہ کرسکیں۔ جب کہ باکسنگ کی طرح ووشو مارشل آرٹ بھی ایک خطرناک کھیل ہے، جس میں کھلاڑیوں کے زخمی ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں، تو ایسے میں حکومت کی جانب سے جائز مراعات حاصل نہ ہونے اور سرپرستی نہ کیے جانے کے سبب بھی کھلاڑی خاصی مایوسی کا شکار ہیں۔

س: آپ کا بچپن کیسا گزرا ؟

ج: بچپن میں مَیں بہت شرارتی ہوا کرتا تھا، بلکہ حد درجہ شرارتی ہونے کے باعث ہی والد صاحب نے مجھے مارشل آرٹ اکیڈمی میں داخل کروایا۔

س: تعلیم کہاں تک حاصل کی اور بچپن میں پڑھاکو تھے یا....؟

ج: مَیں نے بلوچستان یونی ورسٹی آف انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ مینجمنٹ سائنسز سے بی ایس کیا ہے۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ کیسا طالب علم تھا، تو سچّی بات تو یہ ہے کہ مَیں زیادہ لائق یا پڑھاکو طالب علم نہیں تھا، بس اوسط درجے ہی کا طالب علم تھا۔

س: زندگی کا کوئی یادگار لمحہ؟

ج: انٹرنیشنل ووشو چیمپئن شپ، تھری نیشن مقابلوں میں کام یابی کے بعد جب جوش و جذبے سے سرشار پاکستان کا جھنڈا لہرایا۔ وہ میری زندگی کا یادگار ترین لمحہ تھا۔

س: آپ کی صبح کب ہوتی ہے؟

ج: علی الصباح بیدار ہوجاتا ہوں اور پھر فجر کی نماز کے بعد دو گھنٹے مارشل آرٹ کی پریکٹس کے بعد دوبارہ سوجاتا ہوں۔

س: فارغ اوقات کے کیا مشاغل ہیں؟

ج: فارغ اوقات میں انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کا استعمال کرتا ہوں۔ انٹرنیٹ پر بھی زیادہ تر مارشل آرٹس ہی سے متعلق معلومات سرچ کرتا رہتا ہوں۔

س: گھر والوں کو آپ کی کون سی عادت ناپسند ہے؟

ج: میں بہت جلد غصّے میں آجاتا ہوں، میرے خیال میں شاید یہی واحد عادت ہے، جو میرے گھر والوں کو سخت ناپسند ہے۔

س: کس بات پر غصّہ آتا ہے اور آئے تو ردِعمل کیا ہوتا ہے؟

ج: غصّہ تو عموماً غلط اور ناپسندیدہ باتوں ہی پر آتا ہے۔ لیکن جب آتا ہے، تو خاموش ہوجاتا ہوں۔ اور یہی اسپورٹس مین اسپرٹ کا تقاضا بھی ہے۔

س: کتب یا شاعری سے شغف ہے؟ کس مصنّف یا شاعر کو پڑھنا پسند کرتے ہیں؟

ج: کتب بینی سے کوئی خاص دل چسپی نہیں، لیکن فارغ اوقات میں اکثر مارشل آرٹ سے متعلق کتب کا مطالعہ کرتا ہوں۔

س: کام یاب زندگی گزارنے کا سنہرا اصول،آپ کے نزدیک کیا ہے؟کام یابی کے لیے ناکامی ضروری ہے؟

ج: کام یاب زندگی گزارنے کے لیےبہت سے اصول متعین ہیں جن میں اَن تھک محنت کے ساتھ مستقل مزاجی بھی بہت ضروری ہے۔ مستقل مزاجی ایک ایسی عادت ہے، جو انسان کے سامنے ہزار راستے کھول دیتی ہے۔ زندگی میں کام یابی کے حصول کے لیے دوسروں پر انحصار چھوڑ دیں تو کبھی ناکامی آپ کا مقدر نہیں بنے گی۔

س: زندگی میں جوچاہا، پالیا یا کوئی خواہش باقی ہے؟

ج: اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شُکر ہے، اُس نے مجھے بہت نوازا۔ جس چیز کی خواہش ہوئی، وہ پوری ہوئی۔ سات سال تک مسلسل قومی چیمپئن رہنا میرے کے لیے یقیناً اعزاز کی بات ہے۔ اب ورلڈ چیمپئن بننے کی خواہش ہے اور مجھے امید ہے کہ میری اَن تھک محنت اور لگن کو دیکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ میری یہ تمنّا بھی پوری کرے گا۔

س: زندگی میں کسی اور ملک میں بسنے کا موقع ملے،تو کہاں رہنا پسند کریں گے؟

ج: پورے کرئہ ارض پر پاکستان سے خُوب صُورت کوئی دوسرا ملک نہیں۔ اپنے ملک کے علاوہ کسی دوسرے ملک میں رہنے کی خواہش کبھی نہیں رہی۔ مجھے اپنی دھرتی سے بے حد پیار ہے، اس دھرتی کا بیٹا ہوں، اسی دھرتی میں ہی رہوں گا۔

س: محبت،دولت اور شہرت میں سے آپ کا انتخاب؟

ج: میرا انتخاب شہرت ہوگا۔

س: خوشیاں کرنسی سے ملتیں تو کیا چیز خریدتے؟

ج: پیسے سے خوشیاں ملتی تو آج دنیا کا کوئی بھی امیر ترین آدمی غم زدہ نہیں ہوتا۔ پیسے سے خوشیاں خریدی نہیں جاسکتیں۔

س: کبھی سچّا دوست ملا،جس کی دوستی پر فخر محسوس ہو؟ آپ اچھے دوست ہیں یا آپ کے دوست اچھے ہیں؟

ج: میرے دوست کم ہیں، لیکن جو چند دوست ہیں وہ بااعتماد اور مخلص ہیں۔ میں خود بھی اچھا دوست ہوں۔

س: والدین کی محبت کو کس طرح بیان کریں گے؟خصوصاً ماں کی محبّت کو؟

ج: والدین کی محبّت کو الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے، خاص طور پر ماں کی محبّت کو۔ یہ وہ رشتہ ہے، جو انتہائی مخلص اور خود سے زیادہ اپنے بچّوں کو کام یاب دیکھنا چاہتا ہے۔ میں تو ہر بچّے کو یہی نصیحت کروں گا کہ والدین کی جس قدر خدمت اور تابع داری کرسکتے ہیں، ضرور کریں، انہیں کبھی ناراض نہ کریں۔

س: بچپن کا ایسا واقعہ، جسے یاد کرکے آج بھی لبوں پہ مسکراہٹ آجاتی ہو؟

ج: جب میں پہلے دن ووشو مارشل آرٹ اکیڈمی گیا، تو ایک بچّے کے ساتھ جھگڑا ہوگیا۔ میں بات بڑھانا نہیں چاہتا تھا، لہٰذا اُسے نظر انداز کرکے تھوڑے فاصلے پر چلا گیا، مگر شاید اس کے سر پر انتقام کا بھوت سوار تھا۔ اُس نے مجھے یوں جاتے ہوئے دیکھا، تو دوڑتا ہوا آیا اور اچانک ہی میرے منہ پر ایک زور دار مکّا دے مارا، جس کی وجہ سے میری ناک سے خون بہہ نکلا۔ بچپن کا وہ واقعہ یاد کرکے مسکراہٹ تو نہیں، البتہ جھرجھری سی آجاتی ہے۔

س: ووشو مارشل آرٹ کے علاوہ اور کس کھیل میں دل چسپی ہے؟

ج: مجھے والی بال اور مکس مارشل آرٹ بھی پسند ہے۔

س: تنقید کے کس حد تک قائل ہیں؟کوئی آپ پر تنقید کرے، تو کیسا لگتا ہے؟

ج: تنقید اصلاح کی غرض سے ہونی چاہیے، محض تنقید برائے تنقید نہیں ہونی چاہیے۔

س: ایک دعا، جو ہمیشہ لبوں پر رہتی ہے؟

ج: یہی کہ اللہ تعالیٰ میری فیملی کو اپنی حفظ و امان میں رکھے۔

س: کوئی ایسا دن،جس کے بار بار آنے کی خواہش ہو؟

ج: ایک ہی خواہش ہے کہ اے کاش وہ دن جلد آجائے، جب مَیں ورلڈ چیمپئن بن جائوں اور پھر ایک قومی چیمپئن کی طرح بارہا یہ اعزاز اپنے ملک و قوم کے نام کرتا رہوں۔